ائمہ اہل بیت اطہار میں سے یوسف سنّت جمال
طریقت،مزین صفوت سیدناابومحمدامام جعفر بن محمد صادق الملقب بہ امام باقر
بن امام زین العابدین بن سیدالشہداء امام حسین بن علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہم
اجمعین ہیں۔آپ کاحال بلند،سیرت پاکیزہ،ظاہروباطن آراستہ وپیراستہ اور شمائل
وخصائل شستہ ومنورتھے۔آپ کے ارشادات تمام علوم میں خوبی اور رقت کلام کی
بنا پرمشہور ہیں اورمشائخ طریقت میں بااعتبارلطائف ومعانی معروف ہیں۔علوم
کی باریکیوں اور کتاب الٰہی کے رموزواشارات اور اس کے لطائف واضح طور پر
بیان کرنے میں آپ کوکمال دسترس تھی ۔ آپ پوری پوری رات عبادت
وریاضت،درودووظائف کی کثرت میں گذار دیتے۔ایک مرتبہ آپ کے خادم نے عرض
کیا:اے ہمارے امام!یہ گریہ وزاری کاسلسلہ کب تک جاری رہے گا؟آپ نے
فرمایا:ائے دوست!حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک فرزند حضرت یوسف علیہ
السلام نظروں سے روپوش ہوئے تھے تو اس پر وہ اتنا روئے تھے کہ ان کی آنکھوں
کی بصارت جاتی رہی اور آنکھیں سفید ہو گئی تھی۔لیکن میرے خاندان سے ۱۸؍نفوس
حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی رفاقت میں میدان کربلا میں شہید ہوئے،یہ غم
کیا کچھ کم ہے؟کیا میں ان کے غم وفراق میں اپنے رب کے حضور فریاد کرکے کیوں
آنکھیں سفید نہ کروں؟آپ انتہائی متقی،نیک،عبادت گذار،پارسا اور مخلص تھے۔آپ
نے دین متین کی تاحیات خدمت انجام دی اور آخرکارراہِ خدا میں جان نثار کی۔
آپ کاارشاد ہیں کہ جسے اﷲ کی معرفت حاصل ہوگئی وہ ماسوااﷲ سے کنارہ کش
ہوگیااس لیے کہ جوشخص خداسے واصل ہوجاتاہے اس کے دل میں کسی غیر کی کوئی
قدر و منزلت باقی نہیں رہتی۔دراصل خداکی معرفت اس کے غیرسے دست کش ہونے ہی
کانام ہے اور اس علاحدگی سے ہی معرفت الٰہی حاصل ہوتی ہے۔اس طرح کے بہت سے
ناصحانہ فرمودات کتابوں میں موجود ہیں۔ایک مرتبہ حضرت داؤد طائی رحمۃ اﷲ
علیہ آپ کی خدمت میں آئے اور عرض کیاکہ اے فرزند رسولﷺ!مجھے کوئی نصیحت
فرمائیے،میرادل سیاہ ہوگیاہے۔آپ نے فرمایا:اے اباسلیمان!تم تو اپنے زمانے
کے مشہورعابدوزاہد ہو،تمہیں میری نصیحت کی حاجت ہی کیا؟انہوں نے عرض کیا:اے
فرزند رسولﷺ!آپ کوساری مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور آپ پرسب کونصیحت فرمانا
واجب ہے۔آپ نے فرمایا:’’میں ہمیشہ اس بات سے خائف رہتاہوں کہ کل بروزقیامت
میرے جد کریم علیہ التحیۃ والتسلیم اس پر میری گرفت نہ فرمائیں کہ تم نے
کیوں میری اتباع کاحق ادانہ کیا کیونکہ اتباع نبوی کاتعلق نہ نسب سے ہے اور
نہ نسبت سے بلکہ پیروی کرنے سے ہی متعلق ہے۔‘‘یہ سن کر حضرت داؤد طائی
روکرعرض کرنے لگے:خداوند!جس شخص کاخمیر ہی خون خیرالرسل سے ہواور جس کی طبع
نشوونمااپنے جدّکریم علیہ السلام کے برہان وحجت کے اصول سے ہے اور جس کی
مادرِ معظمہ حضرت سیدنابتول زہرارضی اﷲ عنہا ہیں ، وہی جب بذات خود اس
حیرانی وپریشانی میں ہیں توداؤد تو کس گنتی وشمار میں ہے۔تو زہد و ورع پر
کیسے بھروسہ کرسکتاہے؟گویاکہ آپ کے فرمودات خوش فہمی میں زندگی گزارنے کی
بجائے عمل اورخاکساری کاجذبہ فراہم کرتے ہیں۔
ایک دن آپ اپنے غلاموں کے ساتھ تشریف فرماتھے۔آپ نے ان سے فرمایا:آؤہم سب
مل کر عہدکریں کہ ہم میں سے جوبھی بخشاجائے وہ بروزقیامت دوسرے کی شفاعت
کرے۔تمام غلام عرض کرنے لگے اے فرزند رسولﷺ!آپ کوہماری شفاعت کی کیاحاجت
ہے؟آپ کے جدکریم علیہ السلام توخود ساری مخلو ق کے شفیع ہوں گے۔ آپ نے
فرمایا:میں اپنے رب تعالیٰ سے شرمسار ہوں اور بروزقیامت اپنے جد اعلیٰ کے
روبروکھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔آپ کی یہ کیفیت عاجزی وانکساری پر مبنی
تھی کیونکہ یہ صفت اوصاف کمال سے متعلق ہے اور اسی صفت میں خداکے تمام
مقبول بندے ہیں خواہ وہ انبیاء ومرسلین ہوں یااولیاء واصفیاء۔کیونکہ حضورﷺکاارشاد
کامفہوم ہے:اﷲ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے پر بھلائی کاارادہ فرماتاہے تواس
کواس کے نفس کے عیوب دکھادیتاہے۔جب بندہ بارگاہ صمدیت میں تواضع وبندگی سے
سرجھکاتاہے اﷲ تعالیٰ اسے دونوں جہان میں سربلندرکھتاہے۔اہل حق کا برسوں سے
یہ معمول رہا ہے کہ ۲۲؍رجب المرجب کو امام پاک کی بارگاہ میں خراج عقیدت
پیش کرنے کے لیے نیاز وفاتحہ کااہتمام کیا جاتاہے۔عاشقان اہل بیت اے التماس
ہے کہ اپنی سابقہ روش کوبرقرار رکھتے ہوئے امسال بھی امام سیدنا جعفرصادق
رضی اﷲ عنہ کی بارگاہ میں ایصال ثواب کریں،نیاز وفاتحہ وقرآن خوانی
کاانعقاد کریں اور دوسروں کواس نیک کام کی ترغیب دیں۔
٭٭٭ |