شکریہ ملالہ۔ ملالہ کا شکریہ ادا کرنے کی وجہ کالم کے
لیئے موضوع فراہم کرنا ہے۔ رات کے 12 بج رہے ہیں اور میں مختلف موضوعات پر
سوچ رہا ہوں کہ کالم کے لیئے کس موضوع پر اپنا صحافیانہ تجزیہ پیش کر کے
کالم کا پیٹ بھرا جائے کہ اتنے میں نظریں ٹیلیوژن کی اسکرین پر سرخ رنگ میں
دوڑتے ٹکرز پر جم گئیں کہ ملالہ یوسفزئی اپنے پیارے وطن پاکستان آرہی ہیں۔
ویسے کالم کے لیئے موضوع تو اور بھی کافی ہیں جن میں دو بڑوں کی ملاقات
بلکہ ڈیڈھ بڑوں کی ملاقات کہا جائے تو ذیادہ بہتر ہے کیونکہ ایک بڑے نے تو
ماشاءاللہ سے خود کو سب کا بابا کہا تھا جس کو خیر سے ہمارے میڈیا اور
خصوصا سوشل میڈیا نے بابا رحمتے بنا دیا حالانکہ اس بڑے نے بعد میں یہ بھی
کہہ کر خود کو بابا کہنے والی بات کی وضاحت کر دی تھی کہ انہوں نے بابا کا
تصور اشفاق احمد مرحوم والے بابا سے لیا تھا اور اسی تناظر میں خود کو بابا
کہا تھا جبکہ دوسرے بڑے کو آدھا بڑا ہی تصور کیا جائے کیونکہ وہ خود ہی
کہتے ہیں کہ جس منصب پر وہ بیٹھے ہیں ان کے لیئے اس منصب پر پہلے جو تھا وہ
ہی ان کا بڑا ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ ان کے بڑے کو تو سرے سے اس ملاقات
کا علم ہی نہیں تبھی تو انہوں نے نیب میں اپنی پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو
کرتے ہوئے اپنے بیانیے کو ہی آگے بڑھاتے ہوئے دوسرے بڑے کو تنبیہ اور ہدایت
کر ڈالی کہ انکو جو کام کرنے چاہیئے وہ وہی کام کریں اور جو کام انہیں نہیں
کرنے چاہیئے وہ نہیں کرنے چاہیئے۔ اس سے یہ بھی تاثر ملا ہے کہ ان ڈیڑھ
بڑوں کی ملاقات میں کوئی بات بنی نہیں ہے ورنہ انہوں نے تو کچھ دن پہلے یہ
کہا تھا کہ وہ سب سے مل بیٹھنے کے لیئے تیار ہیں اور مذاکرات کے ذریعے
مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔ ان کی اس بات اور ان ڈیڑھ بڑوں کی ملاقات سے ویسے
ان کا بیانیہ جو بڑا کامیاب جا رہا تھا اس بیانیہ کو شدید دھچکا ضرور لگا
ہے اور ملاقات سے بھی بات نہیں بنی۔ لگے ہاتھوں انہوں نے جے آئی ٹی کے
سربراہ واجد ضیا پر بھی خوشی کا اظہار کر دیا کہ واجد ضیا نے نیب میں جو
کچھ کہا اس سے ان کے اوپر لگے الزام دھو ڈالے۔ خیر انہیں ابھی ایسی بات
کرنی نہیں چاہیئے تھی کیونکہ ہو سکتا ہے ان کو ابھی اڈیالہ جیل کا مہمان
بھی بننا پڑے۔ خیر بات ہو رہی تھی ڈیڑھ بڑوں کی ملاقات کی تو کیا اس ملاقات
کے پس منظر میں امریکہ میں تعینات ہونے والے پاکستانی سفیر علی جہانگیر
صدیقی کا معاملہ زیر بحث تھا ؟ کہ علی جہانگیر صدیقی کے امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ کے ساتھ گھریلو تعلقات ہیں جن کا فائدہ اٹھا کر علی جہانگیر صدیقی سے
امریکہ میں پاکستان کے لیئے سفارت کاری لینے میں روڑے نہ اٹکائے جائیں؟۔
امریکہ بہادر پاکستان پر سیاسی پابندیاں لگانے کے ساتھ ساتھ فوجی امداد بھی
مکمل بند کرنے کا اشارہ دے رہا ہے۔ اگر تاریخ میں جھانکا جائے تو پاکستان
کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے بھی اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان سے
ملاقات کے لیئے درخواست کی تھی جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ کہہ کر
معذرت کر لی تھی کہ سپریم کورٹ میں وفاق کے کیسز چل رہے۔ بعد میں آنے والے
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس منیر نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہیڈ آف
اسٹیٹ سے ملاقات کر کے دو بڑوں کی آپس میں ملاقات کی روایت ڈالی جہاں سے
نظریہ ضرورت ایجاد ہوا تھا۔
کالم کے لیئے سوچے جانے والے موضوعات میں باجوہ ڈاکٹرائن بھی ہے جس کو آئی
ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے تفصیلی وضاحت کے ساتھ پریس
کانفرنس میں بیان کر دیا کہ باجوہ ڈاکٹرائن اٹھارویں ترمیم ، عدلیہ یا کسی
این آر او کے متعلق نہیں ہے۔ یہ ملکی سکیورٹی اور امن کے بارے میں ہے۔ جس
کے مطابق پاکستان کو 11 ستمبر 2001 سے پہلے والا پاکستان بنانا ہے۔ تمام
پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے ساتھ ساتھ باقی دنیا کے ممالک کے ساتھ
تعلقات میں توازن لانا ہے۔ جنرل آصف غفور نے مزید یہ بھی کہا کہ آرمی چیف
کی وزیر اعلی پنجاب سے 72 گھنٹوں میں 2 بار ہونے والی ملاقاتوں کا تاثر کسی
این آر او سے جوڑنے سے گریز کیا جائے۔
پچھلے دنوں شہباز شریف نے ایک سوشل کنٹریکٹ کرنے کی بات کہی تھی کہ کسی کو
بھی عدلیہ اور فوج کے بارے کوئی توہین آمیز بات نہیں کرنی چاہیئے۔ ویسے
عجیب سی کھچڑی بنا کے عوام کو کھلائی جا رہی ہے کہ ایک طرف نواز شریف ووٹ
کو عزت دو اور اگلے انتخابات میں ن لیگ اور عدلیہ کے درمیان ریفرنڈم کا
بیانیہ لے کے چل رہے اور دوسری طرف شہباز شریف کو ن لیگ کا صدر اور اگلا
امیدوار برائے وزیراعظم بھی چن لیا گیا ہے۔ شہباز شریف ایسٹیبلشمنٹ کے
منظور نظر پہلے بھی رہے ہیں اور آگے بھی رہنے کی پالیسی پر چل رہے جبکہ
نواز شریف عدلیہ کو سیدھا نشانے پر رکھ کر ایسٹیبلشمنٹ کے خلاف والی پالیسی
پر گامزن ہیں۔ انتخابات سے پہلے شہباز شریف کو بھی نااہل قرار دیکر ن لیگ
کی طرف سے ٹکٹ ہولڈرز کو آزاد امیدواران کے طور پر انتخابات بھی لڑنا پڑ
سکتا ہے اور پھر ان آزاد امیدواران کو کہیں بھی ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔
اگلے انتخابات کے بعد حکومت کون بنائے گا اس کے لیئے مختلف تھیوریاں مارکیٹ
میں بک رہی ہیں۔ اس بار کوئی نیا چہرہ بھی سامنے آسکتا ہے اور وہ سینیٹ
چیئرمین کی طرح بلوچستان سے بھی ہو سکتا ہے۔ ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے
جیسے ماضی میں اس ملک کا وزیراعظم معین قریشی جیسا شخص بھی رہ چکا ہے جس کی
شہریت بھی پاکستانی نہیں تھی۔ معین قریشی کے بعد نیا چہرہ شوکت عزیز بھی یہ
قوم دیکھ چکی ہے تو پھر اب کے بار بھی تو نیا چہرہ آنے میں کوئی انہونی
نہیں ہوگی۔ اگر دیکھا جائے تو 1990 میں خود نواز شریف بھی تو اسی طرح اچانک
سے وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر سامنے آگئے تھے تو پھر اب کیوں نہیں کوئی
اور نیا چہرہ سامنے آسکتا؟ چہرہ کوئی بھی ہو چاہے بلوچستان سے ہو وزارت
عظمی کے منصب کے لیئے اہلیت رکھنا شرط ہے لاہور سے ہونا تو کوئی ضروری
نہیں۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے تو نئی سیاسی جماعت متحدہ
مسلم لیگ کا نام بھی لے لیا ہے اور اگلا وزیراعظم بھی بلوچستان سے ہونے کا
دعوی کر دیا ہے۔ بلوچستان میں ثناءاللہ زہری کو وزارت اعلی سے ہٹا کر 500
ووٹ لینے والا وزیر اعلی بن سکتا ہے ، بلوچستان سے آزاد سینیٹر کا گروپ
منتخب کروا کر پھر سینیٹ چیئرمین بھی بلوچستان سے ہو سکتا ہے تو پھر متحدہ
مسلم لیگ بنا کر اگلا وزیراعظم بھی بلوچستان سے ہو تو حرج ہی کیا ہے؟ ماضی
کے طاقتور چہروں کی خلا مستقبل کے نئے چہروں سے پوری کرتے دیر نہیں لگتی
اور پھر ماضی والے تاریخ کا حصہ بن کر قصہ پارینہ ہو جاتے ہیں۔ خیر سب
موضوعات کو چھوڑ کر آتے ہیں اپنے اصل موضوع ملالہ یوسفزئی کی طرف جو کہ 4
روزہ خصوصی سرکاری دورے پر اچانک پاکستان پہنچ چکی ہیں۔ ملالہ اپنی فیملی
سمیت اسلام آباد ایئر پورٹ پر طیارے سے اتر کر ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ
خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے نمودار ہوئی۔ ایئر پورٹ پر انتہائی سخت
سکیورٹی کے حصار میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کو فیملی سمیت اسلام
آباد کے ایک نجی ہوٹل پر سرکاری پروٹوکول کے ساتھ پہنچایا گیا۔ ملالہ کی
پاکستان میں 4 روزہ قیام کے دوران اہم شخصیات سے ملاقاتیں۔ ان اہم شخصیات
میں وزیراعظم ، آرمی چیف اور صحافی شامل ہیں۔ اب اگلے 4 دن کے لیئے وطن
عزیز میں ملالہ یوسفزئی کی آمد ہی اہم ایشو ہے جس کو ہر ٹی وی چینل بڑی خبر
کے ساتھ پیش کرنے میں مصروف ہے۔ ملک میں موجودہ سایسی صورتحال پر گردش کرنے
والی مختلف تھیوریوں اور بڑوں کی ملاقاتوں میں ملالہ کی اچانک سے دبنگ
انٹری بھی شامل ہو گئی ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟ |