چینی معیشت کی مستحکم قوت
(Shahid Afraz Khan, Beijing)
|
چینی معیشت کی مستحکم قوت تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
وسیع تناظر میں رواں سال عالمی معیشت کے منظر نامے پر شدید کشیدگیوں اور رکاوٹوں کا ایک مجموعہ چھایا ہوا ہےجن میں تباہ کن تجارتی محصولات، کارپوریٹ اخراجات میں تیزی، اور بڑھتا ہوا مارکیٹ اتار چڑھاؤ ، شامل ہیں۔ یہ سب مل کر عالمی معاشی امکانات پر گہرا سایہ ڈال رہے ہیں اور دنیا بھر کی معیشتوں کے استحکام کو ایک گہرے امتحان سے دوچار کر رہے ہیں۔
اس گہری غیر یقینی صورتحال کے پس منظر میں، جہاں استحکام ایک نایاب شے بن چکی ہے، چین کی معیشت ایک نمایاں مثال کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ سال 2025 کی پہلی ششماہی میں سالانہ بنیادوں پر 5.3 فیصد کی شرح سے نمو پانے والی، اور عالمی توسیع میں تقریباً 30 فیصد کا شیئر ڈالنے والی یہ چینی معیشت عالمی اقتصادی نمو میں ایک اہم لنگر کا کام کر رہی ہے ،جبکہ بہت سے ترقی یافتہ ممالک 2 فیصد سالانہ نمو تک پہنچنے کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔
چینی معیشت کی یہ لچک کوئی اتفاقیہ چیز نہیں ہے۔ یہ طویل المدتی سوچ کا نتیجہ ہے جسے چینی قیادت کی جانب سے "صدی میں نہ دیکھے گئے تغیرات" سے نبرد آزما ہونے کے لیے بروئے کار لایا گیا۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے حال ہی میں چین کی معیشت کے لیے اپنی 2025 کی نمو کی پیش گوئی بڑھا کر 4.8 فیصد کر دی ہے، جو اپریل میں آئی ایم ایف کے 4 فیصد کے تخمینے سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ اس کی جزوی وجہ سال 2025 کی پہلی ششماہی میں توقع سے زیادہ مضبوط معاشی سرگرمی ہے۔
جیسا کہ 2025 میں واضح ہوا ہے کہ، چین کی معاشی لچک اس کی طویل المدتی، اسٹریٹجیک منصوبہ بندی کی روایت میں گہری جڑی ہوئی ہے، جس کی ایک مثال چودہواں پانچ سالہ منصوبہ (2021-2025) ہے۔ اس منصوبے کی ایک اہم خصوصیت جدت طرازی پر مبنی اور اعلیٰ معیار کی ترقی پر زور دینا ہے، جس نے چینی معیشت کو اندرونی اور بیرونی جھٹکوں کا مقابلہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مقدار کے بجائے معیار، تقلید کے بجائے جدت طرازی، اور انحصار کے بجائے لچک کو ترجیح دے کر، چین طویل عرصے سے ہر قسم کے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے تیار رہا ہے۔
چین کی منصوبہ بندی کو قابل ذکر بنانے والا صرف اس کا وژن نہیں، بلکہ اسے پورا کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ مثال کے طور پر، نئی توانائی، ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے، اور صنعتی اپ گریڈیشن میں سنگ میل عبور کرنے جیسے اقدامات اور ان اہداف کا مسلسل حصول، معیشت کے لیے مضبوط اور لچکدار بنیاد فراہم کر چکا ہے۔
2020 کے بعد سے، چین نے اپنی گھریلو طلب کو وسعت دینے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں، اور کھپت کو اپنی معاشی نمو کی بنیادی قوت محرکہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ عالمی اتار چڑھاؤ کے باوجود، ان کوششوں نے گزشتہ چار سالوں میں معیشت کو 5.5 فیصد کی اوسط سالانہ نمو برقرار رکھنے میں مدد دی ہے۔ اوسطاً، اس نمو میں گھریلو طلب کا حصہ 86.4 فیصد رہا ہے۔
جیسے جیسے چین اعلیٰ معیار کی ترقی، خدمات کی جانب رجحان، اور جدت طرازی پر مبنی ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے، پالیسی ایڈجسٹمنٹ اور کچھ شعبوں میں عارضی سست روی ناگزیر ہے۔ دنیا بھر میں معیشت کی اپ گریڈیشن کے ادوار میں ایسے ساختی منتقلی کے اثرات عام ہیں۔
تاہم ،چین اس عبوری دور کو سنبھالنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ ملک کا مضبوط اور مسلسل ترقی پذیر مینوفیکچرنگ بیس سپلائی چینز اور برآمدات کو مضبوطی سے سہارا دیتا ہے، جو صنعتی اپ گریڈیشن اور بین الاقوامی مسابقت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
مزید برآں، بروقت گورننس میں ایڈجسٹمنٹ نے بھی کافی مدد کی ہے۔ گزشتہ سال ستمبر سے، میکرو اکنامک ریگولیشن، صنعت کی نگرانی، اور بیرونی پالیسی میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ مثالوں میں نجی اداروں کے لیے پالیسی سپورٹ اور تجارتی کشیدگی کے جوابات میں بڑھتی ہوئی لچک شامل ہیں۔
ان عوامل کی ترقی نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی چینی مارکیٹ میں دلچسپی کو بڑھایا ہے ، سرمایہ کاروں کا حوصلہ اور توجہ کی سطح بحال ہوئی ہے۔ جغرافیائی غیر یقینی کے باوجود، بہت سی غیر ملکی کمپنیاں چین کو اپنی عالمی حکمت عملیوں کے لیے ناگزیر سمجھتی ہیں۔ امریکہ۔چین کاروباری کونسل کی جانب سے جاری کردہ حالیہ سالانہ رکن سروے کے مطابق، امریکی کمپنیاں چین میں طویل مدتی تناظر میں مواقع کی تلاش کے لیے پرعزم ہیں اور تقریباً سبھی کا موقف ہے کہ وہ چین کی شراکت سے آگے بڑھنے کی خواہاں ہیں۔سو ، کہا جا سکتا ہے کہ چین کا کھلا پن اس کی طویل مدتی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ چین کی ترقیاتی حکمت عملی بین الاقوامی انضمام پر زور دیتی ہے نہ کہ تنہائی پر، اور یہی چینی معیشت کی ترقی کا راز بھی ہے۔ |
|