دولت کو راستہ دو
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ "پاکستان ایک غریب ملک ہے"، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں نہ صرف قدرتی وسائل کی بہتات ہے بلکہ ایسے باصلاحیت، جفاکش، اور ذہین لوگ موجود ہیں جو دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اصل مسئلہ غربت نہیں، بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم، اس کا درست بہاؤ، اور امیروں سے نفرت کی وہ فضا ہے جس نے معاشرتی ترقی کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ پاکستان کے ایک تحقیقی ادارے نے حال ہی میں ایک دلچسپ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں 35 خاندان ڈالروں میں ارب پتی ہیں۔ ایوب دور کے 22 سرمایہ دار گھرانوں کے خلاف ایک بیان اس وقت کے ایک ماہر معیشت نے دیا اور امارت کے غلاف نفرت کا پہلا بیج بویا جو اب تناور درخت بن چکا ہے ہر امیر آدمی، بڑے گھر اور قیمتی گاڑی کو دیکھ کر ناظر کے زہن میں ایک ہی لفظ آتا ہے "چور"۔ اسلامی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ دولت کو کبھی معیوب نہیں سمجھا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کے خدام کی تعداد ہزاروں میں تھی اور ان کے جانوروں کے ریوڑ اتنے تھے کہ ان کے چرواہوں کی جماعتیں تشکیل دی گئی تھیں۔ حضرت یوسفؑ، جو مصر کے وزیر خزانہ بنے، نے نہ صرف سلطنت کی معیشت کو بچایا بلکہ خود بھی حکومتی دولت کے نگران بنے۔ حضرت سلیمانؑ کے بارے میں قرآن گواہی دیتا ہے کہ ان کے پاس ہواؤں، جنات، پرندوں اور بے پناہ خزانوں کا کنٹرول تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت طلحہؓ جیسے صحابہ شامل تھے جنہوں نے اپنی دولت سے اسلام کو مستحکم کیا۔ حضرت عثمانؓ نے ایک موقع پر پورا لشکر تیار کر کے دیا، اور ان کے باغات مدینہ میں آج بھی موجود ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں دولت مند ہونے کو فخر یا جرم نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھا گیا ہے۔ قرآن میں بار بار کہا گیا ہے "وَأَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم" یعنی "اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا۔" اس کا مطلب ہے کہ دولت ہو تو خرچ کرنے کا حکم ہے، رکھی نہ جائے۔ یورپ، امریکہ اور چین میں امیر افراد کو قدر و منزلت حاصل ہے۔ وہاں کے امیر لوگ سادگی سے رہتے ہیں، مگر اپنی دولت کو کاروبار اور فلاح میں لگاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور بزنس میں سرمایہ کاری کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو روزگار دیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سرمایہ داروں کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ انہیں قومی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی سرمایہ کاروں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ، یہاں 300، 700 یا 1200 کنال کے محلات میں صرف دو انسانوں اور تین کتوں کا قیام معاشرتی توازن بگاڑتا ہے، جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ پاکستان میں وہ دماغ، وہ صلاحیت، وہ وژن موجود ہے جو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے منصفانہ سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔ یہاں اتنا سرمایہ موجود ہے کہ اگر اعتماد کی فضا پیدا کی جائے تو یہی مقامی سرمایہ غیر ملکی سرمایہ کو مقناطیس کی طرح کھینچ سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو ہنر اور مواقع دیے جائیں، تاکہ وہ اپنی بلکہ اپنے خاندان کی حالت بدل سکیں۔ غریبوں کو نفرت کے بجائے امید دی جائے، محنت کے ذریعے خوشحال ہونے کا خواب دکھایا جائے، اور دولت مندوں کو تجوریوں میں سونے ڈالنے کے بجائے سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی جائے۔ پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ہر سال نئی پالیسیوں اور قوانین سے گریز کیا جائے۔ ایک طویل المدتی معاشی روڈ میپ تشکیل دیا جائے جو کم از کم 10 سال پر محیط ہو۔ یقین کریں، اگر ہم نے مستقل مزاجی اور نیک نیتی سے عمل کیا، تو پاکستان نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت بن سکتا ہے۔ کیونکہ یہاں جذبے کی کمی نہیں، ہنر کی قلت نہیں، اور خواب دیکھنے والے آج بھی بے شمار ہیں۔ دولت برائی نہیں، اس کا غلط استعمال اور دکھاوا مسئلہ ہے۔ امیروں سے نفرت کرنے کی بجائے انہیں معاشرے کے محرک کے طور پر قبول کریں، اور غریبوں کو عزت دے کر آگے بڑھنے کے لیے راستہ دکھائیں۔ یہی ترقی کا فارمولا ہے۔ جہاں تک خواب دیکھنے کا تعلق ہے ذولفقار علی بھٹو نے تیل سے لبریز ایک ایک بوتل اپنے دفتر کے میز پر سجائی تھی، میاں نواز شریف کی تصاویر بھی موجود ہیں جس میں وہ دھات کا ایک راڈ اٹھائے ہوئے چنیوٹ کا ذکر کر رہے تھے ، عمران خان فرماتے تھے کے پی کے میں پانی کے لیے کنواں کھودا جائے تو پانی کی بجائے تیل نکل آتا ہے ۔ پاکستانی معجزے برپا کرنے والے لوگ ہیں ۔ ان کو صرف سرپرستی اور میدان عمل مہیا ہو جائے تو نتیجہ وہ خود نکال لیں گے |
|