سوشل وپرنٹ میڈیااور ٹیلی ویژن نیٹ ورکس پرواپڈا،سٹیل
ملزاور گیس کمپنیوں کی حکمرانوں نے فوری فروخت /نجکاری کرنے کی دھوم مچا
رکھی ہے ۔وزراء سیکریٹریز اور کرپٹ لادین بیورو کریٹ ایسا تاثر قائم کیے
ہوئے ہیں کہ اگر ایسے ادارے فوراً ہی نہ بیچ کھائے گئے تو شاید ملک پر
قیامت ٹوٹ پڑے گی ٹیلی فون کی طرح کہ خریدار کمپنی نے آج تک پہلی قسط کے
بعد78ارب روپے دبا رکھے ہیں ان قیمتی اداروں کا حشر بھی ایسا ہی ہو گا راوی
بتاتے ہیں کہ کمپنی ہر حکمران کو اپنے اس رویہ کے عوض "مخصوص معاوضہ" لازماً
ہر سال دے رہی ہے جو کہ اربوں میں ہو تا ہو گا عوام حیران و پریشان ہے کہ
شریفوں کی سٹیل ملز اور وزیر اعظم کی بلیو ائیر لائن دونوں مکمل منافعوں
میں چل رہی ہیں مگر ان کے پاس اقتدار ہونے کے باوجود کراچی کی سٹیل ملز اور
پی آئی اے کیوں نہیں چل پاتیں؟تقریباًاڑھائی ماہ بعد حکمرانوں کی مدت
اقتدار ختم ہورہی ہے مگر وہ ہر صورت قیمتی ادارے اونے پونے داموں فروخت
کرنے پر تلے بیٹھے ہیں در اصل راز کی بات کچھ یوں ہے کہ اول تو ان قیمتی
ملکی اثاثوں کو کسی اپنے"چیلے چانٹے "یا"رازدار دوست"کو بیچ ڈالیں گے تاکہ
80فیصد سے زائد رقم خود ہضم کرسکیں چونکہ27مئی کو نئے انتخابات کا اعلان
متوقع ہے اسلئے شریفین ہی نہیں زرداری اور عمران خان تک بھی اپنی اپنی
حکومتوں کے بقیہ مختصر اقتداری ادوار میں ڈھیروں مال ہر صورت سمیٹنا چاہتے
ہیں تاکہ یہ سرمایہ آئندہ انتخابات میں انہیں کامیاب کرسکے جن میں ہر صورت
اقتدار کی جنگ سرمایوں سے ہی لڑی جانے کا قطعی امکان ہے ۔شریفین یہ ادارے
بیچ کراس میں سے تقریباً 40ارب تک بچا لیویں گے ۔یعنی انتخابی خرچہ وصول ہو
جائے گا اسی طرح ٹیلی فون کی بیرونی کمپنی کل واجب الادا رقم 78روپے کا سود
بھی اگر حکمرانوں کو دے تو16ارب وہ انتخابی خرچہ میں شامل ہو گئے۔نواز شریف
چونکہ ملک کے بڑے سرمایہ داروں میں 140ارب روپے ملکیتی ہونے کی بنائپر
چوتھے بڑے سرمایہ دار ہیں تو وہ بھی سینٹ کی ہار جو کہ ان کی طرف سے "مناسب
انویسٹمنٹ "نہ کیے جانے کی بناء پر ہوئی ہے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر
ذاتی سرمایہ سے70ارب روپے بخوشی مہم میں جھونکنے پر تیار ہوجائیں گے ۔چندہ
دینے والے اور ان کی مخصوص اے ٹی ایم مشینیں بھی24ارب با آسانی دے سکتی ہیں
تیل و دیگرکماؤ وزارتوں نے عوام کی چمڑی ادھیڑ کر ڈھیروں"منافعے" کمائے ہیں
ان میں سے30ارب روپے اور نئے متوقع بیرونی قرضوں سے20ارب روپے اینٹھ لیویں
تو اس طرح ان کے پاس 200ارب روپے کی بھاری رقوم ہوں گی قومی اسمبلی
کی272سیٹوں سے باآسانی مقتدر ہوجانے کے لیے 140سیٹوں پر یہ انویسٹمنٹ ہوگی
تو فی سیٹ کے حصہ میں ایک ارب42کروڑ سے زائد رقم آتی ہے 42کروڑ انتخابی
بھاگ دوڑ کا خرچہ اور ایک ارب روپوں سے 50ہزار ووٹوں کو نقد مال سے خریدیں
تو20ہزار روپے فی فرد لیکر تو ووٹرراضی ہو ہی جائے گا اور اعلان شدہ
40تا45کروڑ روپے حکمران ممبران اسمبلی کو اپنے اپنے حلقوں میں سکیموں پر
خرچ کرنے کے لیے دیے جارہے ہیں ۔ان میں سے آدھی رقم بھی انتخابی مہم پر لگے
گی"کہ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک"پہلے بھی کسانوں کی امداد کے نام
پر 3تا4لاکھ روپے ان کسانوں کو فی کس صرف ان کو دیے گئے ہیں جنہوں نے
ممبران کے ڈیروں پر آئندہ ووٹ دینے کا حلف دیا ہے سندھ میں پی پی حکومت نے
صرف امسال ہی مختلف محکموں میں 274ارب روپے کے گھپلے کیے ہیں۔
وزیروں و بیورو کریٹوں نے اگر70ارب کھالیے ہیں تو بقیہ200ارب لازماً زرداری
صاحب کی جیب میں ہوں گے اور وہ چونکہ خود ذاتی183ارب کا سرمایہ رکھتے ہوئے
ملک کے دوسرے بڑے سرمایہ دار ہیں تو اس میں سے 80ارب ڈالرز لازماً انتخابی
جنگ و جدل میں جھونک دیں گے اسطرح ان کے پاس280ارب ڈالر خرچہ کے لیے موجود
ہیں سندھ کی کل قومی61سیٹوں میں سے 40ہی پی پی پی کو جیتنے کے لیے یہ رقوم
کافی ہیں(واضح رہے کہ قومی کے ساتھ صوبائی سیٹیں تو"جھونگے" ہی میں فتح ہو
جاتی ہیں ) ہر سیٹ کے لیے7ارب روپے موجود ہیں فی ووٹرڈیڑھ لاکھ بھی دے
دیویں تو کوئی مضائقہ نہیں ویسے تو قومی سیٹ کے لیے 40لاکھ کا خرچہ کرنے کی
الیکشن کمیشن کی طرف سے اجازت ہے مگر سیاسی پارٹیاں سرمایہ پانی کی طرح
بہائیں گی تو انہیں کون پوچھنے والا ہو گا؟اگر کسی نے مداخلت کی
تو"فالتوجمع شدہ حرام مال"سے حصہ بقدر جسہ دے دیویں گے تو کیا بگڑتا ہے "ستے
خیراں "تو ہی جائیں گی اور انتخابی بیڑہ پار ہو جائے گا ان حالات میں
عمرانی نعروں یا کسی دوسری پارٹی کے لیے انتخابات ایک سرُاب کی حیثیت رکھتے
ہیں دینی سیاسی پارٹیاں لاکھ کہیں کہ ہیں مگر نہ ہیں اس سارے کھیل تماشے کو
روکنے کے لیے تمام مسالک برادریوں فرقوں گروہوں لسانیت و علاقائی گروپوں کے
لیے قابل قبول واحدمتبرک ترین نام اﷲ اکبر کی تحریک کا جھنڈا اٹھانا ہو گا
کہ یہی پاک اور خدا ئے عز وجل کی کبریائی کا علمبردار لفظ اﷲ اکبر ہی ان
سبھی اقتدار کے متلاشی سرمایہ پرستوں انگریز کے ٹوڈی اور ان کی اولاد
وڈیروں سود خور نو دولتیوں اور ڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکاروں سے
اقتدار کی باگیں بذریعہ ووٹ چھین کر انہیں عبرتناک انتخابی شکست سے دوچار
کرسکتا ہے وگرنہ سندھ کے اندر ون اتحاد اور ایم کیو ایم کی بڑے شہروں اور
بلوچستان و سرحدمیں قوم پرستوں اور خال خال دینی سیاسی جماعتوں کی چند
سیٹوں اور عمران خان کی سرحد میں پرانی جیتی ہوئی سیٹوں سے کم وبیش تعداد
کے علاوہ سارا انتخاب ہی یکطرفہ ہو کر رہ جائے گا مگر
سب ٹاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا |