فلسطین کا قدیم نام کنعان بتایا جاتاہے ، جغرافیائی
اعتبار سے اسکو عرب ملکوں کے درمیان وہی حیثیت حاصل ہے جو جسم کیلئے قلب کی
ہوا کرتی ہے فلسطین اپنی خاص جغرافیائی محل وقوع ، زرخیز خیز زمین ، اور
یہودیوں و مسلمانوں کی مذہبی یادگاروں کی بنیاد پرتاریخ میں ہمیشہ نشیب و
فراز کا حامل رہا ہے جدامجدحضرت ابراہیم علیہ السلام کی عراق سے سرزمین
فلسطین پر ہجرت اور اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کی یہاں پر عظیم
تاریخی حکومت سے لے کر بخت النصر کی حکومت کے زوال کے پس منظر میں جا بجا
اس علاقہ میں مختلف قبائل کے درمیان باہمی اختلاف وانتشار نظر آتا ہے پہلی
جنگ عظیم کے موقع پر ڈاکٹر وائز مین نے انگریز حکومت سے وہ مشہور پروانہ
حاصل کرلیا جو اعلان بالفور کے نام سے معروف تھا یاد رہے کہ اعلان بالفور
کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فیصد بھی نہ تھی اس موقع پر
لارڈ بالفور اپنی ڈائری میں لکھاہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے
وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے صیہونیت ہمارے لیے
ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو
اس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیں اس کے بعد یہودیوں کی تعداد جو 1917تک
25000تھی 1939تک ساڑھے چارلاکھ تک جا پہنچی ایک مکمل منصوبے کے تحت
صہیونیوں نے دنیا بھر کے یہودیوں کو ارض فلسطین میں بسانا شروع کیا اس عمل
کا مقصد یہودیوں کی خواہش قومی وطن کی جگہ قومی ریاست کا درجہ حاصل کرنا
تھا ۔
1947میں برطانیہ نے مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ میں پیش کردیا اور1947میں
ہی فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کردیا گیا اہل کفر کی اجتماعی سازش نے ارض
فلسطین میں اہل یہود کی راہ ہمیشہ کی لیے ہموار کردی مسلم ممالک کی کمزور
پالیساں ناکامی ان کا منہ چڑاتی رہی ابھی تک چڑا رہی ہے چشم فلک روز دیکھتا
ہے کہ کس طرح مسلمانوں کے ساتھ ظلم وستم کیا جاتاہے اورعالم اسلام مدہوشی
کی تصویر بنے تماشا دیکھتا رہتاہے عالم اسلام کے حکمرانوں کی آنکھوں پر
پٹیاں بندھی ہوئیں کان سماعتوں سے نکارہ اورزبانوں پر خامشی کے تالے لگائے
ہوئے ہیں عالم اسلام کے غریب الوطن صدا کریں تو کس کے سامنے ؟ زمین کو وہ
کونسا ٹکڑا ہے جہاں انہیں سکون میسر ہے انبیاء کی مقدس سرزمین کھنڈرات میں
تبدیل ہوچکی اور عرب امراء معاشی پلان ترتیب دے رہے ہیں ۔
15 مئی 1948ء کو دنیا پر ناجائز وجود پانے والی ریاست جسے امام خمینی نے
مسلمانوں کے قلب میں خنجر سے تعبیر کیا تھا، مئی2018ء کے وسط میں اپنے
غاصبانہ قیام کی انسٹھویں سالگرہ منا نے جارہا ہے یہ تمام عرصہ ایک طرف تو
عالم اسلام کی اجتماعی بے حسی اور مظلوم فلسطینیوں سے مسلم حکمرانوں کے
منافقانہ رویوں کی طویل اور دردناک داستانوں سے بھرا ہوا ہے تو دوسری طرف
یہ 69برس ظلم و بربریت وحشت و درندگی کی قدیم و جدید تاریخ سے بھرپور اور
سفاکیت کے انمٹ مظاہروں کی پردرد و خوفناک کہانی کے عکاس ہیں ان 69برسوں
میں ارضِ مقدس فلسطین میں ہر دن قیامت بن کر آیا ہے ہر صبح ظلم و ستم کی
نئی داستان لے کر طلوع ہوئی ہر لمحہ بے گناہوں کے خون سے گھر بار، سڑکیں،
بازار، مساجد و عبادت گاہیں، سکول و مدارس کو رنگین کرنے کا پیامبر بن کر
آیا ہے ۔
ان دنوں اہل فلسطین یوم الارض کے حوالے سے ریلیاں نکال رہے ہیں اور
اسرائیلی سفاک فوجی ان پر گولیاں برسا رہے ہیں میڈیا رپورٹ کے مطابق 16نہتے
فلسطینی اب تک یہودیوں کے ہاتھ زندگی کے بازی ہار چکے ہیں او ر 500سے زیادہ
زخمی ہوچکے ہیں واضح رہے کہ یہ 30 مارچ 1976ء میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں
فلسطینیوں کے قتل عام کی مناسبت سے کیے جا رہے تھے اور اس بار امریکا کی
جانب سے یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دیئے جانے کے بعد سے ان
مظاہروں میں شدت آ گئی ہے فلسطینی شہریوں کی شہادت کا یہ واقعات ایک ایسے
وقت میں پیش آئے ہیں جب فلسطین بھر میں تیس مارچ کو یوم الارض کے حوالے سے
ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔
اقوام عالم کو اس اسرائیلی بربریت کو سخت نوٹس لینا چاہیے تاکہ انسانی
زندگی کو لاحق خطرات سے محفوظ رکھا جاسکے مگر افسوس ماحولیات کے تحفظ کے
بات کرنے والے نام نہاد بین الاقوامی حقوق ایجنسیاں کیوں خاموش تماشائی کا
کردار ادا کرتی ہیں دوسری جانب پاکستانی وزات خارجہ کی جانب سے ایک بیان
میں کہا گیا ہے کہ نہتے فلسطینی مظاہرین پراسرائیلی انتظامیہ کے ظلم اور
مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور صہیونی مظالم
پاکستان کے لئے ناقابل برداشت ہیں۔ ترجمان دفترخارجہ نفیس زکریا نے کہا ہے
کہ قابض اسرائیلی فوجی کی جانب سے مسجداقصیٰ کی بندش اور نہتے فلسطینیوں کو
مذہبی فرائض کی ادائیگی سے روکنے پر تحفظات ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ
فلسطینیوں کے خلاف جاری اقدامات بند کئے جائیں۔ اسرائیل کے اقدامات عالمی
انسانی حقوق اورعالمی اقدار کے منافی ہیں اور اس کڑے وقت میں پاکستانی
حکومت اور پاکستانی عوام اپنے فلسطینیوں بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ بنیادی
حقوق کے مطالبے پرفلسطینی حکومت کے ساتھ ہیں اورالقدس سے آزاد و خود
مختارفلسطینی ریاست کے قیام میں تعاون کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔عالم اسلام
کو متحد ہوکر فلسطین اورکشمیر تنازعہ کو ختم کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرنی
چاہیے یہ مسلم حکمرانوں پر فرض بھی ہے اورقرض بھی ،اوراب وقت آگیا ہے اس
فرض اورقرض کو چکا دیا جائے اوردنیا کو یہ باور کرادیا جائے کہ اب غاصبانہ
اقدامات کی تاریخ کا باب ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکا یہ تب ہوگا جب عالم اسلام
متحد ہوکر جسد واحد کی طرح ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ اوراحساس کریں گے ۔ |