تبدیلیوں کا موسم؟

بالآخر کرپشن کے الزامات کی وجہ سے وفاقی وزیر مذہبی امور کو کابینہ سے برطرف کردیا گیا، وہ اکیلے نہیں گئے بلکہ ان پر الزامات لگانے والے اعظم سواتی کو بھی جانا پڑا اور جے یو آئی (ف) نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر کے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی اپنی سی کوشش کر ڈالی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ بھی پڑھ کر سنائی جس میں انہوں نے توہین رسالت قانون میں تبدیلی کی کوششوں کو بھی حکومت سے علیحدگی کی ایک بڑی وجہ قرار دیا کہ پیپلز پارٹی کی ایک خاتون ایم این اے نے توہین رسالت قانون میں تبدیلی کے لئے ایک بل اسمبلی میں جمع کرا دیا ہوا ہے اور گورنر پنجاب نے توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والی خاتون کی مدد کر کے اس قانون کا مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ساری باتیں آج تو نہیں ہوئیں تو کیا وجہ ہے کہ اعظم سواتی کی برطرفی کے بعد ایسے الزامات لگائے جارہے ہیں، یہ نئے الیکشن کی تیاری ہے ، مولانا کی ”ساکھ“ کو مدنظر رکھا جائے تو یہ دوبارہ عوام میں جانے کی تیاری کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے، برطرفی کے معاملہ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا ایک تیر بہدف نسخہ!

حکومت کی منطق سمجھ میں نہ آنے والی ہے کہ ملزم کے ساتھ ساتھ مدعی کو کابینہ سے برطرف کردیا گیا ہے جس سے حکومت کے لئے یقیناً نئی مشکلات کے دروازے کھل گئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعتاً ایسا ہی ہے یا ”گیم پلان“ کچھ اور ہے؟ حکومت کی کرپشن ، نا اہلی اور بیڈ گورننس اپنی جگہ لیکن موجودہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور صدر زرداری نے محترمہ کے قتل کے بعد اپنے پتے بڑے اچھے طریقے سے کھیلے ہیں تو کیا اب وہ اتنی ہی عقل سے عاری ہوگئی ہے کہ اسے اندازہ نہیں ہوسکا کہ اعظم سواتی کی برطرفی سے کیا حالات سامنے آسکتے ہیں۔ میرا خیال ہے ایسا ہرگز نہیں، حکومت نے یقیناً اپنا ”ہوم ورک“ کر رکھا ہے اور اسے بعد کے حالات کا بھی بخوبی اندازہ تو ہوگا کہ معاملات کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کو درپیش مسائل اس نوعیت کے ہیں کہ اس وقت کوئی بھی جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اکیلی ان گوناگوں مسائل سے نبرد آزما ہوسکے اور نہ ہی اس وقت کسی جماعت کے پاس واضح اکثریت موجود ہے کہ وہ اکیلی حکومت سنبھالے رہے۔ سیاسی تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ شائد پارلیمنٹ کے اندر سے ہی ایک تبدیلی آجائے جو چند ماہ کے لئے ہوگی اور پھر مڈٹرم الیکشن کروادئے جائیں گے۔ یہاں ایک اور حقیقت کا ادراک انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کی کسی بھی جماعت کی مڈٹرم الیکشن کی تیاری نہیں ہے اور تقریباً سبھی جماعتیں چاہتی ہیں کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے تاکہ اس کی کرتوتوں کی وجہ سے باقی جماعتوں کو الیکشن میں واویلا کرنے اور موجودہ حکومت کو ولن ثابت کرنے میں قدرے آسانی ہوجائے۔ یعنی ایسی صورتحال پیدا ہوچکی ہے جس میں موجودہ مہنگائی، امن وامان کے دن بدن بگڑتے معاملات، نام نہاد دہشت گردی کی جنگ اور امریکی دباﺅ کی وجہ سے کوئی بھی جماعت ”ان ہاﺅس چینج“ نہیں چاہتی تاکہ مسائل اس کے گلے نہ پڑیں۔

جے یو آئی (ایف) کے بعد ایم کیو ایم سے بھی وفاقی حکومت کے معاملات بگاڑ کا شکار ہیں، سندھ کے ”سلطان راہی برانڈ“وزیر داخلہ کے تازہ ترین ارشادات جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہیں جس میں انہوں نے ایم کیو ایم پر ٹارگٹ کلنگ کا الزام لگانے کے ساتھ ساتھ اپنی نااہلی کو بھی تسلیم کرلیا ہے، اب اگر ایم کیو ایم بھی اپنی سیاسی ساکھ کو بچانے کے چکر میں فی الفور حکومت سے علیحدہ ہوتی ہے تو وفاقی حکومت کو گرانا شائد اتنا زیادہ مشکل نظر نہیں آتا لیکن قومی اسمبلی میں اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان کو اکٹھا کرلیا جائے تو حکومت کو سادہ اکثریت مل جاتی ہے اور اسے کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اصحاب قاف کو اپنا مستقبل پہلے سے بھی زیادہ تاریک نظر آرہا ہے اس لئے وہ ضرور ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کریں گے، یعنی مرکز میں وزارتوں کے مزے اور پنجاب میں وزارت اعلیٰ۔ پڑھے لکھے پنجاب کے ان پڑھ موجد کو آج بھی خوابوں میں وزارت اعلیٰ ہی نظر آتی ہے، رہی بات پنجاب میں قاف لیگ کے فارورڈ بلاک کی تو ان سب کو یا تو واپس قاف لیگ میں آنا پڑے گا یا نااہلی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ کھل کھلا کر شہباز شریف کی مدد نہیں کر پائیں گے۔ میری رائے میں ایسا نہیں ہوگا بلکہ اگر موجودہ حالات میں کسی حکومت کے لئے شدید قسم کے خطرات ہیں تو وہ پنجاب حکومت ہے کیونکہ قاف لیگ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ دوسری طرف عمران خان بھی تیاری نہ ہونے کے باوجود، موجودہ حکومت کی مدت پوری کرنے کی خواہش رکھنے کے باوجود مڈٹرم الیکشن کی بات کرتے نظر آتے ہیں اور مہنگائی، کرپشن اور حکومتی نااہلیوں کی وجہ سے بیزار عوام میں مزید پاپولر ہو رہے ہیں۔ آجکل پورے پاکستان کے نوجوان بالخصوص اور سمجھدار عوام بالعموم یہی بات کرتے نظر آتے ہیں کہ آئندہ عمران خان کو ووٹ دیں گے لیکن ساتھ ہی ان کا شکوہ بھی ہوتا ہے کہ عمران خان کو جلد از جلد الیکشن کی تیاری کے لئے میدان میں اترنا چاہئے اور ہم خیال جماعتوں سے اتحاد بھی کرنا پڑے تو ضرور کرنا چاہئے خصوصاً ان جماعتوں سے جنہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، کچھ لوگوں کی رائے کے مطابق وکلاء کو بھی ایک پارٹی کے طور پر اس اتحاد میں شامل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ابھی تحریک انصاف ”سولو فلائٹ“ کی پوزیشن میں نہیں اور اگر موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوگئی تو عمران خان ایک واضح فرق ڈالنے میں ضرور کامیاب ہوجائے گا۔

دو وزراء کی برطرفی اور دو وزراء کے استعفوں کے بعد کچھ لوگ اور مخصوص میڈیا تو یہاں تک کہہ رہا ہے کہ مخلوط حکومت ٹوٹ گئی اور نئے الیکشن کا وقت آن پہونچا ہے لیکن شائد وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے، ایک فریق کی کمزوری دوسرے کی طاقت بن جاتی ہے لیکن بعض اوقات اس کے برعکس بھی ہوجاتا ہے کہ اپنی کمزوری میں سے ہی طاقت کا کوئی پہلو سامنے آجاتا ہے، نون لیگ کو اپنی ”کاٹھیاں“ کس لینی چاہئیں کیونکہ اگر پنجاب حکومت گئی تو نئے الیکشن تک ان کے لئے ابتلاﺅں اور آزمائشوں کا نیا ”سیزن“ سٹارٹ ہوسکتا ہے لیکن یہی ابتلائیں اور آزمائشیں انہیں مستقبل میں ہیرو بھی بناسکتی ہیں، تبدیلیوں کا موسم شروع ہوتا دکھائی دیتا ہے، اللہ اسے پاکستان اور یہاں کے عوام کے لئے ثمربار کرے ۔ عوام کو بھی اس حوالے سے تیاری کی اشد ضرورت ہے اور اپنی روایت کو بدلتے ہوئے ایسے امیدواروں کی مدد کرنی پڑے گی جو واقعی ”اہل“ ہوں کیونکہ اب غلطی کی بہت کم گنجائش ہوگی۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے....آمین۔
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207324 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.