بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سعودی عرب کی میزبانی میں عرب لیگ کے 29ویں سربراہ اجلاس میں خادم الحرمین
شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے فلسطین کیلئے 150ملین ڈالرز امداد کا
اعلان کیااور بیت المقدس کے حوالہ سے امریکی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا
ہے کہ کوئی بھی ملک اپنا سفارت خانہ القدس منتقل نہ کرے اور نہ ہی القدس کو
اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے۔بیت المقدس ہمیشہ سے فلسطین کا حصہ
ہے اور ان شاء اﷲ رہے گا۔ عرب قائدین نے فلسطین سے متعلق سلامتی کونسل کی
قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا اور واضح کیا کہ اسرائیل کی جانب سے
القدس کے حقیقی عرب تشخص کو مٹانے کی کوششیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ شاہ
سلمان بن عبدالعزیز نے عرب لیگ کے اس اجلاس کو القدس کانفرنس کا نام دیا ۔فلسطینی
صدر محمود عباس نے سعودی عرب کی جانب سے فلسطین کیلئے تازہ امداد پر ان کا
شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سعودی عرب نے شروع دن سے فلسطینیوں کی جدوجہد کی
کھل کر حمایت کی ہے اور کبھی ان سے اپنا رشتہ نہیں توڑا‘ ہم اس پر ان کا
شکریہ ادا کرتے ہیں۔عرب لیگ کے اجلاس میں عرب ممالک میں ایران کی مداخلت پر
بھی سخت تنقید کی گئی اور یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت پر بھی اسے ہدف
تنقید بنایا گیا ہے۔
عرب ملکوں کا سربراہی اجلاس سعودی عرب کے مشرقی شہر ظہران میں ایسے وقت ہو
رہا ہے جب فلسطین میں اسرائیلی بربریت اور شام میں بشار الاسد کی جانب سے
کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے نہتے شہریوں کی نسل کشی کا سلسلہ عروج پر
ہے۔ خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے اس کانفرنس کے
آغاز سے قبل ہی اسے القدس کانفرنس کا نام دے دیا گیا تھا جس پر فلسطینی
مسلمانوں کی جانب سے خاص طور پر برادر اسلامی ملک کیلئے خوش آئند جذبات کا
اظہار کیا گیا ہے۔ خادم الحرمین شریفین نے فلسطینیوں کیلئے عملی طور پر
20کروڑ ڈالرز کی خطیر امدادی رقم کابھی اعلان کیا ہے جس میں سے 5کروڑ ڈالرز
فلسطینی مہاجرین کی ذمہ دار اقوام متحدہ کی ایجنسی اونروا اور 15کروڑ ڈالرز
مقبوضہ القدس میں اسلامی وقف سپورٹ پروگرام کیلئے دیے جائیں گے۔ عرب لیگ کے
سربراہ اجلاس کی ایک اور خاص بات فلسطین کے حوالہ سے ایک مرتبہ پھر امریکی
فیصلے کو مسترد کرنا ہے۔ حقیقت ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے
مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارت
خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان پوری امت مسلمہ کے سینے
میں خنجر گھونپنے کے مترادف تھا یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے اس فیصلہ کے بعد
پوری مسلم دنیا میں شدید احتجاج کیا گیا۔ مسلم دشمنی کی بنیاد پر کیا جانے
والا یہ فیصلہ امریکہ کی مقبوضہ بیت المقدس کے بارے میں عشروں سے جاری
پالیسی میں تبدیلی بلکہ انحراف کا مظہرتھا۔ 1995ء میں امریکہ میں منظور
کردہ ایک قانون میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے
کی بات کی گئی تھی جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا تویہ
سلسلہ رک گیا تھا اور ماضی میں تمام امریکی صدور دنیا بھرمیں مسلمانوں کے
سخت ردعمل کے پیش نظر اس قانون پر عمل درآمد کو ہر چھے ماہ کے بعد مؤخر
کرتے چلے آرہے تھے مگرکچھ عرصہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو
اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور وہاں سفارت خانہ منتقل کرنے کے حکم
پر نہ صرف دستخط کر دیے بلکہ اس ضمن میں محکمہ خارجہ کو ضروری انتظامات کی
بھی ہدایت کردی ۔ڈونلڈ ٹرمپ ایک بڑے بزنس مین، اسرائیل نوازاور انتہا پسند
ذہنیت رکھنے والے ہیں۔ مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں ان کا وسیع کاروبار ہے۔
ٹرمپ کا داماد اس کے یہودی بزنس پارٹنر کا بیٹا اور امریکی صدر کی سب سے
بڑی آرگنائزیشن کا چیف ایگزیکٹو بھی ایک یہودی ہے۔اس لئے ٹرمپ کو یہودیوں
کو بہت زیادہ قریب اور ان کا خاص آدمی سمجھا جاتا ہے جس کے نتین یاہوسمیت
دیگر یہودی لیڈروں سے ذاتی مراسم طویل عرصہ سے چلے آرہے ہیں۔ امریکہ میں
موجود تمام یہودیوں نے نا صرف یہ کہ خود انہیں ووٹ ڈالے بلکہ ان کی کامیابی
کیلئے بھرپور مہم چلائی گئی۔ اس لئے یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ کو
کامیاب کروانے میں امریکی معیشت پر چھائے ہوئے یہودیوں کا کلیدی کردار ہے۔
اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ ٹرمپ کو امریکی صدر بنانے اور اپنے طے شدہ مقاصد
حاصل کرنے میں یہودیوں نے بے پناہ سرمایہ کاری کی ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔
ٹرمپ نے جب انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن
یاہو نے انہیں مبارکباد دیتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ ان کا جگری دوست ہے او ر
وہ امید کرتے ہیں کہ امریکی صدر ان کیلئے کام کریں گے۔ یروشلم پوسٹ نے اس
وقت اسرائیلی وزیر انصاف کا بیان بھی شائع کیا تھا جس میں کہا گیا کہ ٹرمپ
اسرائیل کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کریں گے اور القدس کو اسرائیل کا
دارالخلافہ تسلیم کرکے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل
کریں گے۔ ٹرمپ کی یہودی بیٹی نے چند ماہ قبل یہودیوں کے ایک اجلاس میں
انہیں یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اپنے والد کو اسرائیل کیلئے کام کرنے پر
مجبور کریں گی۔ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق اس حوالہ سے بھی ذرائع ابلاغ میں بہت
کچھ شائع ہو چکا ہے کہ اگرچہ وہ خود کو عیسائی کہتے ہیں لیکن درحقیقت وہ
عیسائیت کی عبادات اور اخلاقیات کو چھوڑ چکے ہیں۔عیسائیت سے ان کا اب محض
ایک واجبی سا تعلق باقی ہے۔ یہ تمام حقائق دیکھ کر یہ بات وثوق سے کہی
جاسکتی ہے کہ اگر امریکی صدر نے اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل
کرنے کا اعلان کیا ہے تو یہ سب کچھ اچانک نہیں تھا بلکہ اس میں یہودیوں کی
بے پناہ محنت اور ٹرمپ اور اس کے خاندان کی ذاتی دلچسپی شامل ہے۔
اسرائیلی شہر تل ابیب میں اس وقت کم و بیش 86ممالک کے سفارت خانے موجود ہیں
لیکن مقبوضہ بیت المقدس میں امریکہ کی طرف سے کھولا گیا یہ پہلا سفارت خانہ
ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دیگر ملکوں کو بھی یہاں اپنے سفارت خانے کھولنے کی اپیل
کی ہے جس پر عرب ملکوں کے عوام میں اس وقت امریکیوں کیخلاف شدید غم و غصہ
پایا جاتا ہے۔ سعودی عرب نے اس وقت بھی امریکی سفارت خانہ مقبوضہ بیت
المقدس منتقل کرنے کے فیصلہ کو ناقابل قبول قرار دیا اورخادم الحرمین
الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے واضح طور پر کہا تھا کہ امریکی
انتظامیہ کا مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرناعالمی
قراردادوں کے منافی ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ اب ایک مرتبہ
پھر جب سعودی عرب کی میزبانی میں عرب ملکوں کے سربراہان جمع ہوئے ہیں تو
شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے فلسطین کے حوالہ سے اپنے دیرینہ موقف کا اظہار
کیا اور دوٹوک الفاظ میں کہاہے کہ فلسطین ہمارا اولین ایشو ہے اور ہم ہمیشہ
اسے مقدم جانیں گے۔ عرب لیگ کے اجلاس میں مصر، عمان، سوڈان، فلسطین،
صومالیہ، تیونس، یمن، عراق، لیبیا، امارات، الجزائر، لبنان، موریطانیہ
ودیگر ملکوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں شام کے مسئلہ پر بھی غوروخوض کیا گیا
اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خطہ میں ایران کے
توسیع پسندانہ کردار کا جائزہ لیتے ہوئے مضبوط موقف اپنائے۔ شام میں قتل و
غارت گری کے حوالہ سے بشار الاسد حکومت کیمیائی ہتھیاروں سے نہتے عوام کی
نسل کشی سے باز نہیں آرہی اور اسے روس سمیت بعض دیگر ملکوں کی مکمل پشت
پناہی حاصل ہے۔ امریکہ، فرانس اور برطانیہ وغیرہ نے شام میں کیمیائی
ہتھیاروں کے اڈے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن روس نے یہ کہہ کر سارا پول
کھول دیا ہے کہ ہمیں پہلے اطلاع مل گئی تھی اس لئے وہاں کوئی فرد موجود
نہیں تھا اس لئے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ہم قطعی طور پر امریکہ کے حملہ
کی حمایت نہیں کرتے تاہم اس سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ اگر وہاں کیمیائی
ہتھیاروں کے اڈے پر کوئی بندہ موجود نہیں تھا تو یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ
وہاں انہوں نے کیمیائی ہتھیاروں کو بھی تباہی کیلئے نہیں چھوڑا ہو گا۔
بہرحال عرب لیگ کے اجلاس میں دہشت گردی کیخلاف مضبوط حصار قائم کرنے اور
فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے بھرپور تعاون کا عہد کیا گیاہے۔اسی طرح یمن
میں حوثی باغیوں کی جانب سے سرزمین حرمین شریفین پر داغے گئے میزائل حملوں
کا بھی تفیصل سے غوروخوض کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ملک
باہمی اختلافات مل بیٹھ کر حل کریں اور مسلم ملکوں کو درپیش مسائل کے حل
کیلئے بیرونی دنیا کی طرف نہیں دیکھناچھوڑ دیں‘ اس کے بغیر مسلم امہ کو
درپیش مسائل کسی صورت حل نہیں ہوں گے۔ |