ہندوستان شروع ہی سے مختلف حکمرانوں،بادشاہوں اور
مہاراجوں کی آماجگاہ رہا ہے،انہوں نے صدیوں تک یہاں حکومت کی مگر حقوق کی
ادائیگی کا مکمل پاس ولحاظ رکھا،محمد شہاب الدین غوری ،شیر شاہ سوری،نسل ِ
تیمور کے حکمراں کا دورِ حکومت بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔اگر یہ چاہتے
تو بزور شمشیر اپنے دین کی دعوت عام کرسکتے تھے مگر انہوں نے ہمیشہ
سیکولرازم کی بنیادوں کو استوار کیا ۔مسلم حکمرانوں نے زمینوں کو نہیں بلکہ
دلوں کو فتح کیا تھا اور یہی فاتحِ زمانہ ہونے کی اصل ہے ۔تاریخی حقائق
وقرائن اس بات کے شاہد ہے کہ مسلم حکمرانوں نے رنگ ونسل اورمذہب وملت میں
امتیاز کیے بغیر رعایا کے نہ صرف جملہ حقوق ادا کیے بلکہ انھیں مذہبی آزادی
بھی فراہم کی اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ بھی فراہم کیا۔شیر میسور حضرت
ٹیپوسلطان نے جب نوابِ ارکاٹ کا علاقہ فتح کیا تو ہندو دھرم کے پیشواؤں نے
ارکاٹ کے علاقہ پر مندر کی تعمیر کی خواہش ظاہر کی ،شیر میسور نے فراخدلی
اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارکاٹ کی زمین پنڈتوں کو عطا کر دی۔کچھ
لوگ حضرت اورنگ زیب عالمگیر کو پُر تشدد حکمراں تسلیم کرتے ہیں جب کہ وہ
رواداری ،بھائی چارگی،اخوت اور محبت کے علمبردار تھے،آپ نے مغربی ہندوستان
میں وسیع قطع اراضی مندر کی تعمیر کے لیے دی تھی،ان روایات کا مقصد کسی
مذہب کو فروغ دینا نہیں بلکہ تمام مذاہب کو ساتھ لے کر چلنا،انھیں مذہبی
رسومات کی ادائیگی کی آزادی دینا اور ایک دوسرے کے جذبات کو مجروح نہ کرنے
کا درس دینا تھا۔یہی وہ اورنگ زیب عالمگیر ہے جن کے پاس بنارس کے پنڈت کی
بیٹی شکنتلا اپنی فریاد لے کر دہلی پہنچی تھی،نماز جمعہ کے بعد دہلی کی
جامع مسجد کی سیڑھیوں سے اترتے وقت اورنگ زیب عالمگیر ہر فریادی کی فریاد
سنتے تھے،شکنتلا نے کہا کہ آپ نے جسے بنارس کا حاکم بنایا ہے وہ مجھے جبراً
حاصل کرنا چاہتا ہے آپ انصاف کریں،آپ نے فرمایا تھا :’’بیٹی!اطمینان
رکھو،تمہارے ساتھ انصاب ہوگا۔‘‘بادشاہِ وقت خود بنارس پہنچے،حاکم بنارس کی
بدنگاہی اور بد خصلتی کا مشاہدہ کیا،فوراً دوہاتھی منگوائیں،دونوں کو مختلف
سمت میں کھڑا کر دیا اور حاکم بنارس کے ایک ایک پیر کو دونوں ہاتھیوں کے
پیروں سے باندھ کر ہاتھیوں کومخالف سمتوں میں دوڑا دیا اور بتا دیا کہ
ہمارے راج ساشن میں کوئی زناباالجبر کا خیال بھی لائے تو اس کا انجام یہی
ہوگا مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج ہندوستان کے حالات دن بہ دن دگرگوں ہوتے
جا رہے ہیں،انسانیت سسکیاں لے رہی ہے ،بھائی چارگی دم توڑ رہی ہے،نفرت محبت
پر غالب آچکی ہے ،فرقہ وارانہ تشدد شباب پر ہے ،گنگا جمنا تہذیب آخری سانس
لے رہی ہے اور جمہوریت کا وقار مجروح ہو رہاہے ۔
ستم رسیدہ آٹھ سالہ بچی آصفہ جو نہ صرف درندگی کا شکار ہوئی بلکہ موت کی
آخری ہچکی کے وقت اس کے دل وماغ کو جوصدمہ پہنچا ہے وہ ناقابل بیان ہے ۔نربھیا
ریپ کیس کا موازنہ کیا جائے تو کئی زاویوں سے آصفہ کا معاملہ پُر درد
ہے،وہاں نشے کی حالت میں حادثہ پیش آیا تھااور یہاں مکمل منصوبہ بندی کے
ساتھ۔وہاں لڑکی بالغ تھی اور یہاں صرف آٹھ سالہ ننھی بچی۔ نربھیاکے لیے
پوراملک سوگوار تھا اور دہلی کینڈل مارچ سے روشن ہو گیا تھا اور یہاں ایک
طویل خاموشی اور تماشہ۔وہاں انسانیت کے لیے آوازبلند ہورہی تھی اور یہاں
مذہبی لبادہ اُڑھایا جا رہا ہے۔وہاں ہر کوئی نربھیاکے حق میں اپنا احتجاج
درج کروارہا تھا اور یہاں کوئی آصفہ کے حق میں بول رہاہے توکچھ اراکین
اسمبلی دیواستھان پر گھناونی حرکت کرنے والوں کے حق میں آواز بلند کر رہے
ہیں۔ہندوستان صوفی سنتوں کی سرزمین ہے ،یہاں بھانت بھانت کے لوگ بستے
ہیں،مگر ہرشخص اپنی عبادت گاہ کا تقدس برقرار رکھتاہے، یہ کیسے درندہ صفت
انسان ہے جنہوں نے ۱۰؍جنوری ۲۰۱۸ء کو’’ بکروالاقبیلہ‘‘کی ایک آٹھ سالہ بچی
کو اغواء کیااوراسے بھوکا پیاسہ رکھ کرنشیلی دوائیں کھلا کر ۱۶؍جنوری تک
مندر میں ماما،بھانجا،دوست واحباب اور پولس اہلکار زناباالجبر کرتے
رہیں،ہوس کی تسکین کے لیے میرٹھ سے دوست کو بھی بلایا گیا،آخر میں گلا
گھونٹ کا مارڈالا اور سَر کو پتھرسے کچل دیا۔
عصمت دری کا مقصد بکروالا قبیلہ میں خوف وہراس پھیلا کر انھیں ’’رسانا
‘‘گاؤں سے بھگانا تھا،یہی کام محبت ،باہمی گفتگو اور سمجھوتے سے بھی ہو
سکتا تھامگر آج انسانیت شرمسار ہے ۔سوچتا ہوں کہ اس پورے واقعے سے کیا حاصل
ہوا؟رسانا گاؤں سے نہ ہی یہ قبیلہ گیا اور نہ ہی خواف وہراس پھیلانے کا
مقصد پورا ہوا،ہاں اگر کوئی گیا ہے تو وہ آصفہ کا وجود،مگر پھر یک بیک خیال
آتا ہے کہ آصفہ کاوجود کیسے ختم ہوسکتا ہے؟وہ تو اب تاریخ کا حصہ ہے ،ہمارے
بعد کی نسلیں آصفہ کو خراج بھی پیش کریں گی اور دیواِستھان پردرندگی کرنے
والے راکھششوں کے خلاف احتجاج بھی درج کریں گی۔’’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘‘کا
نعرہ دینے والے اس دیش میں مردوں کی خاموشی تو ایک حد تسلیم کی جاسکتی ہے
مگر خواتین کیوں خاموش ہیں؟نرملا سیتارمن،سشما سوراج،نجمہ ہپت اﷲ ،اسمرتی
ایرانی ،پنکجا منڈے اور ان جیسی کئی مہیلائیں بات بات پراپنا اسٹیٹ منٹ
ظاہر کرتی ہیں آخر یہاں خاموشی کیوں ہے ؟ہماری تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ ایک
عورت ’’بی اماں ‘‘کی شکل میں کھڑی ہوجائے اور ان کے جیالے سپوت ’’علی
برادران‘‘دست راست بن جائے تو ایک اکیلی خاتون تحریک آزادی میں جان پھونک
دیتی ہے ،کہاں گئی وہ ہمت اور جواں مردی ؟آج آصفہ کے حق میں بولنے کی بجائے
کیوں ماضی کے طعنے سنائے جا رہے ہیں،کیا ماضی کی غلطیاں آج کی غلطیوں کا
متبادل بن سکتی ہیں؟غلطیوں سے سبق حاصل کیاجاتا ہے انھیں دہرایا نہیں جاتا۔
ہم حکومت سے صرف اتنا چاہتے ہیں کہ میری بچی اگر اسکول جاتی ہے تو وہ محفوظ
گھر لوٹ جائے،میرا بھائی اگر ٹرین میں سفر کرتا ہے تو کوئی اسے ہلاک نہ
کردے،میرا دوست اگر کسی یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرتا ہے تو وہ غائب نہ
ہو جائے،میری فیملی اگر کہی گھومنے جائے تو کوئی بھیڑ ان کا ٹفن نہ چیک
کرے،ہم امن وسکون سے رہنا چاہتے ہیں اور امن وشانتی ہی ہندوستان کی شناخت
بھی ہے۔
|