نئے صوبوں کی شیطانی تحریک اور لاوارث پنجاب

لیجئے پھر سے پنجاب کو تقسیم کرنے کی سازش عروج پر ہے۔بظاہر تو ملک میں پائی جانے والی مایوسی اور محرومیوں کے حل کے لیے نئے صوبے بنانے کی ضرورت پر زور دیا جارہاہے۔مگر جب گھوم پھر کر صرف اور صرف پنجاب میں سے نئے صوبے نکالنے تک محدود ہوجائے توسمجھا جاسکتا ہے کہ یہ ملک سے مایوسی اور محرومیاں دور کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بلکہ اسے مذید مایوسیاں اور محرومیاں دینے کی مکروہ سازش ہے۔مسلم لیگ (ن) سے برامد شدہ ایک بڑا دھڑا جوخود کو صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کا نام دے رہا ہے یہ پراپیگنڈہ کررہاہے کہ جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانا لازمی ہوچکا۔ موقف یہ ہے کہ پنجاب کے حکمران صوبے کے وسائل پر قابض ہیں یہ وسائل کو غیر منصفانہ طور پر تقسیم کررہے ہیں۔جنوبی پنجاب کو نظر اندازکرکے یہاں کے حصے کے فنڈ کہیں اور لگائے جارہے ہیں۔جنوبی پنجاب محاذکو تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے۔اس حمایت کی توقع تھی۔مسلم لیگ (ن) جنوبی پنجاب محاذ کو اسی سوچ کی تخلیق قراردے چکی ہے۔جو اس سے قبل تحریک انصاف کی تخلیق کرچکی۔پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے اس سلسلے مین اتوار کو ایک وفد کے ساتھ جنوبی پنجاب محاذ کے اکارین سے ملاقات کی جس میں محاذکی جانب سے پیش کیے گئے تمام مطالبات کو جائزاور بروقت قراردیا گیا۔شاہ محمود قریشی نے اس ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ تحریک انصاف صوبہ جنوبی پنجاب کے حق میں ہے۔اور تمام تر سپورٹ مہیا کرے گی۔

پی پی کی جانب سے جنوبی پنجاب محاذ کی حمایت یا مخالفت کا فی الحال کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔تاہم امکان ہے کہ جلد ہی پی پی بھی اس محاذ سے ہم آواز ہوجائے گی۔زرداری دور کے اواخر میں پی پی نے پنجاب کی تقسیم کے لیے ایک بڑی تحریک چلائی تھی۔ایک طرف بلاول بھٹو مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کی رٹ لگائے رہے۔اور دوسری طرف ان کی جماعت پنچاب کو کم ازکم چار حصوں میں تقسیم کرنے کے عزائم ظاہر کرتی رہی۔تب کے پی پی رہنما بابر اعوان۔قمرالزمان قائرہ اوردیگران نے پنجاب کو پوٹھوہار۔وسطی۔سرائیکی اور جنوبی پنجاب کی شکل میں چارحصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔میڈیا میں بھرپور کمپئین کی گئی کہ اگر پنجاب کو چار حصوں میں تقسیم کردیا جائے تو پس ماندہ اور دور دراز علاقو ں میں بھی برابر خوشحالی ممکن ہوسکتی ہے۔اسی لیے خیال کیا جارہا ہے کہاگر کل کو پی پی جنوبی پنجاب محاذ کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے۔
ایک عجب بات یہ ہے کہ پنجاب کے سوا دوسرے صوبوں کے لیے خوشحالی اور ترقی کے اس فارمولے کی یکسر مخالفت کی جاتی ہے۔جب بھی سندھ کو محرومی اور مایوسیاں دور کرنے کے لیے دوصوبوں میں بانٹنے کی بات کی گئی۔پیپلز پارٹی شدید مشتعل نظرآئی۔مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں اسی مشتعل سوچ کی مثال ہے اسی طرح جب صوبہ خیبر پختونخواہ میں نئے صوبے بنانے کی بات ہوئی۔اس کی پرزور مخالفت ہوئی۔جن دنوں ہزارہ صوبے کی تحریک چلائی گئی۔ان دنوں اے این پی سمیت صوبے کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی۔تحریک چلانے والوں پر وحشیانہ تشد د ہوا اور انہیں سازشی اور بدنیت قراردیا گیا۔کچھ اسی طرح کا رویہ بلوچستا ن میں پایا جاتاہے جب جب بلوچستان کو دو یا تین حصوں میں تقسیم کردینے کی بات کی گئی۔ بلوچ سراپا احتجاج بن گئے۔

پنجاب اس لحاظ سے بد قسمت رہا کہ ہر کوئی صرف اس ایک صوبے کو تجربہ گاہ بنائے ہواہے۔کسی دوسرے صوبے کو توڑنے مروڑنے کی ہمت نہیں ہورہی۔مگر پنجاب ہے کہ کوئی اس کا تیاپانچا کرنے کا پراپیگنڈہ کرتاہے تو کوئی اسے دس حصوں میں باٹنے کی تمنا لیے ہوئے ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہاں ایک عرصہ سے ایک واحد جماعت کی اجارہ داری ہے۔جو مقبولیت مسلم لیگ (ن) کو حاصل ہے کسی دوسری جماعت کو حاصل نہیں۔بھٹو دور کے بعد سے نوازشریف کا یہاں طوطی بولتا ہے۔جب بھی آزادانہ اور منصفانہ الیکشن ہوئے۔یہاں کی عوام نے یہاں کی پگ نوازشریف کے سر رکھ دی۔ناکام اور مسترد جماعتیں پنجاب کی تقسیم کی مکروہ سوچ پال رہی ہیں۔ان کا خیال ہے کہ شاید پنجاب کی تقسیم کے بعد آدھے ادھورے پنجاب میں ان کی جگہ نکل آئے گی۔یہ کمزور اور نکمی جماعتیں چور دروازے سے پنجاب کا اقتدار چاہتی ہیں اس لیے ہر دوسرے تیسرے برس پنجاب کی تقسیم کا شوشہ چھوڑدیا جاتاہے۔ نوازشریف اور ان کے رفقا ء اس لحاظ سے کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی پنجاب کی تقسیم کے نعرے کو منہ توڑ جواب دینے کی کوشش نہیں کی۔پی پی قیادت تو اپنے ہوم گراوئنڈ کو مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کہتی ہے۔مگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنے ہوم گراؤنڈکی تقسیم کی بات پر مجرمانہ خاموشی اختیا ر کرتے رہے۔ایک بار بھی نہ کہا کہ پنجاب کی طرف بڑھنے والے ہاتھ جڑسے کاٹ دیے جائیں گے۔اس کے خلاف بری نیت سے آنے والا ٹانگوں پر سلامت نہ جائے گا۔

نئے صوبوں کی تقسیم اگر پورے ملک کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔لیکن اگریہ صرف پنجاب کو تقسیم کرنے کی سازش رہی تو ا س طرح کی شیطانی تحریکیں منہ توڑجواب سے ہی رکے گیں۔پنجاب لاوارث نہیں کہ گدھ اور کتے اسے نوچنے آن کھڑے ہوں۔پنجاب نے اپنی قدرے بہتر قیاد ت کے سبب آگے پہنچا ہے۔اگر دوسرے علاقوں کی قیادت سب کچھ ہضم کرنے کا وطیرہ بدل دیں تو وہاں بھی انقلاب آسکتاہے۔جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا گلہ کیا جارہا ہے۔تو یہاں کے حالات اندورن سندھ اور بلوچستان سے بدرجہا بہتر ہیں۔اگربد حال علاقوں کو نئے صوبے بناکر خوشحالی دی جاسکتی ہے تو سندھ او ر بلوچستان میں درچپے چپے پر نئے صوبے بنانے کی ضرورت ہے۔جنوبی پنجاب کی لوکل قیادت بھی اس مایوسی اور محرومیوں کی ذمہ دار ہے۔زیادہ تر لوگ ہمیشہ مفاد پرست اور چڑھتے سورج کے پجاری رہے۔اگر لوکل قیادت اپنے خطے کے مفادات سے مخلص ہوتی تو وہ بھی یہاں اتنی خوشخالی اور ترقی ممکن بنا پاتی جتنی دوسرے حصوں میں ہے۔

نئے صوبے اگر بنانے ہیں تو قومی سطح پر کوئی ایک فامولہ ترتیب دیا جائے ایسا فارمولہ جس میں کوئی تعصب اور بد نیتی نہ جھلکے۔یا تو آبادی کی بنیادوں پر صوبے ترتیب دے دیں۔آپ کی آبادی ا اکیس کروڑ ہے۔آپ تین تین کروڑ کے سات صوبے بنالیں۔نام چاہے کچھ رکھ لیں۔آپ رقبے کے لحاظ سے بھی صوبوں کی تشکیل ممکن بنا سکتے ہیں۔آپ قریبا سات لاکھ چھیانوے ہزار مربع میل کا رقبہ رکھتے ہیں۔آپ رقبے کے حسا ب سے برابر چھ یاآٹھ صوبے بنالیں۔نہ کسی صونے کو اعتراض ہوگا نہ کسی کے ساتھ زیادتی ہوگی۔جب بھی کسی تعصب اور بد نیتی کے بنیاد پر نئے صوبے بنانے کی بات ہوئی مارا ماری نے سر اٹھایا۔جب جب نئے صوبے بنانے کا مطلب صرف اور صرف پنجاب کے حصے بخرے کرنا رہے گا۔یہاں کے رہنے والوں کا طیش جاری رہے گا۔ شعور بڑھ چکا ماضی جیسے ٹوپی ڈرامے اب نہیں چل پائیں گے۔اگر کچھ بڑے لوگ یہاں کے عوام سے غڈاری کا ثبوت دے بھی دیں تب بھی پرواہ نہیں۔پنجاب کو جب بھی کسی نے ترچھی آنکھ سے دیکھا پنجاب کا ایک ایک فرد اپنے تشخص کے لیے میدان میں آجائے گا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.