آؤ تحریک آزادی آزاد کرائیں!

ذاتی مشاہدات و تجربات تو نہیں لیکن تاریخی مطالعہ و تجزیہ بتاتا ہے کہ جب بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کی نیشنل کانفرنس اور نام نہاد آزاد جموں کشمیر کی مسلم کانفرنس کی قیادت کی پہلی ترجیح جموں کشمیرکی وحدت کی بحالی کے بجائے اقتدار بن گیا تو اپریل 1965 کو آزاد کشمیر کے ایک نامور وکیل جناب عبدالخالق انصاری کی قیادت میں محاز رائے شماری کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس کے اہم بانی لیڈروں میں میرعبدالقیوم۔ میر عبدالمنان۔ مقبول بٹ شہید ۔ امان اﷲ خان۔ ڈاکٹر فاروق حیدر اور اپنی رحلت تک ہفت روزہ انصاف کے مالک اور ایڈیٹر میرعبدالحزیز شامل تھے۔ محاز رائے شماری کا نام نیا نہیں تھا بلکہ ۹ اگست سن پچپن کو اسے ایک دور میں شیر کشمیر کا خطاب پانے والے شیخ محمد اعبدﷲ کے ساتھی افضل بیگ نے اس وقت قائم کیا تھا جب شیخ اعبداﷲ کو بھارتی وزیر اعظم پنڈت جوہر لال نہرو نے محاز کے قیام سے وو سال قبل قید کر لیا تھا ۔یہ وہی نہرو تھے جنہیں شیخ اعبدﷲکشمیر کا لال کہا کرتے تھے۔ نہرو کو جموں کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے شیخ اعبداﷲ کی نیت پر شبہ اور صلاحیت سے خوف تھا لہذا اکثر سیاستدانوں کی طرح نہرو نے کشمیر کے پہلے ایم ایس سی شیخ اعبداﷲ کی جگہ مڈل پاس غلام محمد بخشی کو ترجیح دی جسکو استعمال کرتے ہوئے ریاست کا سٹیٹس تبدیل کیا گیا۔ محاز رائے شماری کی بڑھتی ہوئی قوم پرستانہ سرگرمیوں کو دیکھ کر بھارت نے سن اٹھاون میں قائم ہونے والے کشمیر سازش کیس سے دستبرداری کا فیصلہ کر کے شیخ اعبداﷲ کوبری کیا مگر بھارت کے خلاف بیرون ملک سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے شیخ اعبداﷲکو 1965 ء میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ آزاد کشمیر میں قائم ہونے والی محاز رائے شماری اپنی مدد آپ کے تحت چل رہی تھی اس کی سب سے زیادہ مالی معاونت میر اعبدالقیوم اور میر اعبدالمنان کرتے تھے۔

مقبول بٹ شہیدآزاد کشمیر میں قائم ہونے والی محاز رائے شماری کے سب سے کم عمر مگر سب سے زیادہ متحرک رہنماء تھے۔ محاز میں انہیں پریس سیکرٹری اور امان اﷲ خان کو سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری ملی۔ ایک سال بعد ان دونوں کی کوششوں سے محاز رائے شماری کا عسکری ونگ نیشنل لبریشن فرنٹ قائم ہوا مگر اس کی سرگرمیوں کی ابتدا بعقول محاز رائے شماری محاز کی منظوری سے نہ کی گئی کیونکہ محاز کا موقف تھا کہ فی الحال مسلح جد و جہد کے لیے راہ ہموار نہیں۔ مقبول بٹ شہید گلگت کے اورنگ زیب اور میر احمد کے ہمراہ بھارتی مقبوضہ کشمیر داخل ہو گے جہاں ایک معرکہ میں اورنگزیب شہید ہو گے جو اس تحریک کے پہلے شہید کا اعزاز پائے مگر ہم سب مجرم ہیں جنہیں اس شہید کے خاندان کی کوئی خبر نہیں۔ مقبول بٹ کی گرفتاری کے بعد مقدمہ چلا۔ پھانسی کی سزا ملی مگر دونوں جیل سے فرار ہو کر آزاد کشمیر پہنچ آئے جہاں انہیں قید کر لیا گیا مگر عوامی دباؤ کے نتیجے میں رہا ہو گے۔ تحریک آزادی فلسطین سے متاثر ہو کر تیس جنوری سن اکہتر کو ہاشم قریشی اور اشرف قریشی بھارتی جہا ز گنگا اغواء کر کے لاہور لائے جہاں زولفقار علی بھٹو نے حریت پسندوں کے ساتھ ائر پورٹ پر ملتے ہوئے کہا کاش یہ کام میرا مرتضی اور شاہنواز کرتے مگر بعد میں بھارت نے جب عالمی سطع پر واویلا کیا تو دباؤ میں آ کر محاز رائے شماری کی ساری قیادت کو قید کر لیا ۔ مقدمہ میں ہاشم قریشی کے علاوہ سب بری ہو گے مگر تشدد کی داستانیں آج بھی زبان زد عام ہیں ۔ یہ پہلا موقع تھا جب کشمیریوں کی خالصتا اپنی اندرونی تحریک کو بد نام کرنے کی سازش کی گئی۔ 1976ء میں مقبول بٹ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر وہ پکڑے گے تو پھانسی کی سزا پر عمل در آمد ہو سکتا ہے وہ اپنے دو نوجوان ساتھیوں عبدالحمید بٹ اور ریاض ڈار دوبارہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو گے۔ یہ خطر ناک قدم اٹھا کر مقبول بٹ شہید نے ثابت کیا کہ تحریک انہیں جان سے زیادہ عزیز تھی۔ ان تینوں کو ایک سازش کے تحت پکڑوانے والا ایک شخص ریاض ڈار کی گولی سے ہلاک ہو گیا۔ اس بار مقبول بٹ کو گرفتار کر کے تہاڑ جیل نیو دہلی منتقل کر دیا گیا جہاں سے انکی رہائی کی ایک کوشش کے طور پر برطانیہ میں تین فروری سن چراسی کو ایک بھارتی سفارتکار مہاترے اغواء کیا گیا اس کیس نے1977 ء میں عبدالخالق انصاری اور امان اﷲ خان کی کوششوں سے قائم ہونے والی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور امان اﷲخان کو عالمی سطع پر ہائی لائٹ کیا۔ اس موقع پر بھی جلد باز ی میں دئیے جانے والے بیانات نے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا آج بھی کچھ سیاسی حاسد کہتے ہیں کہ مہاترے تو ایک کلرک تھا حالانکہ مہاترے نے پبلک سروس کمیشن کے تحت 1976میں فارن سروس جوائن کی۔ پہلی تعیناتی بنگلہ دیش دوسری ایران اور تیسری اور آخری برطانیہ میں تھی جہاں وہ ڈپٹی کمشنر تھا ۔ چونکہ گرفتار ہونے والے تمام حریت پسندوں کا تعلق نام نہاد آزاد کشمیر سے تھا پاکستانی اداروں نے لبریشن فرنٹ کو استعمال کرنے کی سازش کی جس میں مجھے بھی دوران قید برائے راست اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی مگرمیرے کچھ تحفظات تھے اور ویسے بھی میں بیرون ملک قید تھا جسکی وجہ سے راولپنڈی میں لبریشن فرنٹ کے ذمہ داران سے معاملات طے کیے گے جس کے نتیجے میں 1988 میں سرینگر میں عسکری کاروائیاں شروع کی گئیں بوقت ضرورت لبریشن فرنٹ کو استعمال کر کے نت نئی عسکری تنظیموں کے زریعے تحریک کو ہائی جیک کر لیا گیاجو ایک ایسی منہ بولتی تاریخ ہے جس پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ آزاد کشمیر خود کو نام نہاد بیش کیمپ کہتا ہے لیکن یہ کیمپ خونی لکیر کو مٹانے کے بجائے اسکی حفاظت کے لیے مسلسل استعمال ہوتا آ رہا ہے جسکی واضع مثال صرف لبریشن فرنٹ کا 1992ء کی کنٹرول لائن توڑنے کی کال اور 16.03.2018 کا امن مارچ ہی نہیں بلکہ سن اٹھاون کا مارچ بھی ہے جسکی کال پاکستان کے سب سے بڑے حامی چوہدری غلام عباس مرحوم نے دی تھی۔ چند دن قبل میں نے امان اﷲخان کی کتاب جہد مسلسل میں آئی ایس آئی کی مہربانیوں کے عنوان سے لکھے گے ایک مضمون اور اس میں لبریشن فرنٹ کے لیے نصحیت کی طرف توجہ دلائی تو کچھ لوگ میری بات کو پوری طرح سمجھے بنا سیخ پا ہوگے ایسا اکثر اوقات کرتے بھی وہ لوگ ہیں جو دعوے اور وعدے تو ہر دور میں کرتے مگر ازمائش کی گھڑی میں پھسل جاتے ہیں یا وہ لوگ ہیں جو سوشل میڈیا کی پیداوار ہیں یا وہ جو شہیدوں کے نام پر سیاست اور غازیوں سے عداوت رکھتے ہیں اب تحریک کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کرنے والوں کو سر جوڑ کر تحریک کو اندرونی بیرونی سازشوں۔ نمود و نمائش کے اسیروں اور بار بار اسے ہائی جیک کرنے والی قوتوں سے آزاد کرانا ہو گا اور جن وجوہات کی بنا پر بار بار ہر بڑا ایونٹ ہائی جیک ہوتا ہے اسکا بھی جائزہ لے کر سد باب کرنا ہو گا۔

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 47574 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.