گرمیوں کی آمد ہوتے ہی کے ا لیکٹرک کا روایتی مظالم شروں
ہوگیا۔ اوپر سورج بر ہم ہے تو نیچے کے ای کی نااہلی۔ عوام ہمیشہ کی طرح اس
بار بھی تکلیف میں ہے۔بجلی کا بہرا ن اور اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ
کے طویل دورانیوں نے عام آدمی کی زندگی دو بھر کر دی ہے۔
پچھلے پانچ سال سے موجودہ حکومت یہی دعوہ کرتی آئی ہے کہ بجلی کا بہران کا
مکمل خاتمہ کیا جائیگا مگر یہ نعرہ تب بھی محض نعرہ تھا اور اب بھی ایک
نعرہ ہی ہے۔صرف یہی حکومت نہیں بلکہ سابقہ حکومتوں کا بھی ایساہی کچھ کہنا
تھا۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ کہیں ۰۱ سے ۲۱گھنٹے تو کہیں ۸۱ گھنٹے تک جاری ہے۔اسکے
باعث شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ بجلی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہر
عمر کا فرد متاثر ہورہا ہے۔ طا لب علم سب سے زیادہ بجلی کی آمد و فت سے اثر
انداز ہورہے ہیں۔طویل دورانیہ تک بجلی کے نہ ہونے سے طا لب علم اپنے اسکول
کے کام وقت پر نہیں کر پاتے جس کے باعث وہ زہنی دباوٗ کا شکار ہوجاتے ہیں۔
نہ صرف طالب علم بلکہ کاروباری افراد بھی سخت ازیت میں ہیں۔ بجلی کے نہ
ہونے سے کاروبار رک جاتا ہے جس کے سبب کاروبار میں نقصان ہوتا ہے۔اور اس سے
بھی بیشتر لوگ مختلف زہنی بیما ریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں جیسے ڈپریشن،
اینزائیٹی وغیرہ ان تمام مسائل سے ایک پورا خاندان تکلیف میں جی رہا ہوتا
ہے۔ مگر ہمارے حکمران عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پریشان عوام احتجاج کے لئے ہر بار نکلتی ہے مگر مسئلہ
سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ جب کے الیکٹرک کو شکایت درج کروانے کے لئے کال
کی جائے تو انکا کہنا ہوتا ہے کہ گیس کی سپلائی میں کمی کے باعث لوڈشیڈنگ
بڑہ رہی ہے۔ اور الزام سوئی سدرن گیس پر ڈال دیا جاتا ہے۔اداروں میں الزام
تراشی توہماری ایک پرانی روایت ہے ۔ ادارے میں بیٹھے لوگ پیسہ کھاتے ہیں،پر
سکون زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں اور مظلوم عوام تکلیف میں زندگی کے لمحات
گزار رہی ہوتی ہے۔
|