لو جی خیبرپختونخو ا کی صوبائی اسمبلی کا آخری بجٹ بھی
گزشتہ روز اپنے اختتام کو پہنچ گیا،کہ جس سے اور کسی کی نہ سہی صوبہ بھرکی
اساتذہ برادری کی امیدیں ضرور وابستہ تھیں،کیونکہ مذکورہ اسمبلی اجلاس میں
اساتذہ برادری کا دیرینہ مطالبہ یعنی ٹائم سکیل جوکہ صوبائی کابینہ سے
منظوری ہوچکاہے پاس ہونا تھا،تاہم اقتدار کے آخری اسمبلی اجلاس میں اگر
کہاجائے کہ صوبائی حکومت اساتذہ برادری کے ساتھ ہاتھ کر گئی تو بجا نہ
ہوگا۔لیکن ان امور کو بھی یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ٹائم سکیل اور
پھر مشروط ٹائم سکیل خود اساتذہ برادری کا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے
مترادف تھا۔کہانی کچھ یوں ہے کہ اساتذہ برادری نے گزشتہ حکومت میں جاتے
جاتے ان سے اپ گریڈیشن منظوری کروا لی،جس کا یقینا سہرا اس وقت کے وزیر
تعلیم سردار حسین بابک کے سر ہے،جن کی استاد دوست پالیسیوں کی بدولت آج
استاد کم از کم عزت کی زندگی جی رہاہے،ا س سے قبل اساتذہ کا سکیل دفتروں
میں کام کرنے والے کلرکوں سے بھی کم تھا،جسے سردار حسین بابک نے اچانک 7سے
بڑھا کر 12اور 15دے دیا۔یہاں ا ساتذہ برادری کی کہانی ختم نہیں ہوتی،بلکہ
پارٹی تو اس وقت شروع ہوتی ہے جب نئی سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے،اس پر
سونے پہ سہاگہ کہ اساتذہ برادری نے پاکستان تحریک انصاف سے سو فیصد اپنی
امیدیں وابستہ کرلی تھیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستا ن تحریک انصاف اپنے
منشور انصاف سب کے لئے کو یقینا عملی جامہ پہنانے گی،اس لئے صوبہ بھر کی
درجنوں اساتذہ تنظیموں نے ایک بار پھر سے اخباروں کی زینت بننا قابل فخر
جانا،آئے روز بیانات دیے جاتے کہ نئی صوبائی حکومت اپنے انصاف کے منشور کو
عملی جامہ پہناتے ہوئے اساتذہ کو غیر مشروط ٹائم سکیل دے،صوبائی حکومت
چونکہ ابھی اقتدار کے مزے ہی لے رہی تھی کہ اساتذہ برادری کی جانب سے
مطالبات کی بھرمار انہیں ایک آنکھ نہ بھائی اور جلد بازی میں سیاسی بیانات
کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ایک طرف صوبہ بھر کی مختلف
اساتذہ تنظیموں کی جانب سے بیانات جاری ہوتے تو دوسری جانب صوبائی حکومت
اساتذہ تنظیموں کو لولی پوپ دے کر چپ کرادیتی،وقت گزرتا گیا اور آخر کار
پانچ سال اپنے اختتام کو پہنچے ،تاہم ان پانچ سالوں میں اساتذہ برادری کو
اپنے سنہرے خواب جو وہ ایک عرصہ سے جاگتے ہوئے دیکھ رہے تھے سچ ہوتے دکھائی
نہ دیے تو انہوں نے اپنے اپنے لنگوٹ کَس لیے اور صوبائی اسمبلی کے سامنے
ایک بھرپور دھرنا دیا کہ جس میں صوبائی حکومت کی استاد دشمن پالیسیوں پر
حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا،تاہم یہاں بھی صوبائی حکومت ٹھس سے
مس نہ ہوئی اور اپنی من مانی کرتے ہوئے مزید اساتذہ کے ناک میں دم کرتی
رہی،کبھی تعلیمی ایکٹ 2018کا شوشہ چھوڑا گیا تو کبھی مشروط ٹائم سکیل کے
راگ الاپے گئے،صوبائی حکومت چونکہ پچ کے دونوں طرف کھیل رہی تھی اس لئے
جلدہی اساتذہ برادری ان کے ارادوں کو بھانپ گئی اور ایک بار پھر سے احتجاج
اور تحریکوں کا آغاز کردیا مگر بے سود ،کیونکہ صوبائی حکومت تہیہ کرچکی تھی
کہ انہوں نے اساتذہ برادری کو دینا کچھ بھی نہیں۔اس لئے جاتے جاتے اپنے
آخری اسمبلی اجلاس میں ٹائم سکیل کا بل ادھورا چھوڑ گئی۔اِدھر صوبہ بھر کی
اساتذہ برادری نے بھی اپنے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں کہ جس کا کوئی اثر
صوبائی حکومت پر نہ پڑسکا۔البتہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اپنے ایک اخباری میں
واضح کرچکے ہیں کہ مجھے اساتذہ کے ووٹ کی کوئی ضرورت نہیں کہ جس سے یہ ثابت
ہوجاتا ہے کہ صوبائی حکومت کسی بھی صورت اساتذہ برادری کو ٹائم سکیل جیسی
مراعات جاتے جاتے نہیں دینا چاہتی۔ہوسکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے
صوبائی رہنما اس خوشی فہمی میں ہوں کہ بنا اساتذہ کے وہ دوبارہ سے اقتدار
کے ایوانوں تک پہنچ جائیں گے لیکن ان باتوں سے بھی ہرگز ہرگز منہ نہیں موڑا
جاسکتا کہ اساتذہ برادری جوکہ صوبہ بھر میں قریباً ڈیڑھ لاکھ تک بنتی ہے
ساتھ ان کے اہل وعیال بھی ہیں کو ملا کر قریبا ًدس لاکھ ووٹ بنتاہے کو کبھی
ضائع نہیں ہونے دے گی،تاہم موجودہ صورتحال کو دیکھ کر نہ جانے کیونکر ایسا
محسوس ہورہاہے کہ پاکستان تحریک انصاف اساتذہ سے شدید نفرت کرتی ہے،بہرکیف
الیکشن کی آمد آمد ہے اور غرور کا سر بھی ہمیشہ نیچا ہی رہاہے اس لئے وزیر
اعلیٰ پرویز خان خٹک کو جاتے جاتے اساتذہ برادری کو کچھ نہ کچھ ضرور
بالضرور دینا ہوگا تاکہ ا ن میں پائی جانے والی ایک عرصہ سے بے چینی کا قبل
از وقت دور کیا جاسکے،بصورت عام انتخابات میں کچھ بھی رد عمل دیکھنے کومل
سکتاہے۔ |