ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کی
قیادت نے عام انتخاب قریب آتے ہی عوامی رابطہ مہم کا آغاز کردیا ہے۔ اسی
عوامی رابطہ مہم سے متعلق پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت میں شامل ادی فریال
تالپور کی سرگرمیاں عروج پر ہیں جو اپنی پارٹی پیپلزپارٹی کو فروغ دے رہی
ہیں۔بلاول بھٹو کی لندن روانگی کے بعد پیپلزپارٹی کے حلقوں میں موجود بااثر
شخصیات جن پر کرپشن سمیت کئی دیگر الزامات ہیں، ان سمیت ادی فریال تالپور
کو تجارتی کمیونٹی کی جانب سے منعقدہ تقریب میں دعوت دی گئی۔ تجارتی برادری
کی منعقدہ تقریب میں موجود شرکاء کو اس وقت حیرتناک دھچکا لگا جب فریال
تالپورنے اپنے روایتی انداز میں ملک کے ٹاپ تجارتی گروپ سے خطاب کرتے ہوئے
انہیں متنبہ کیا کہ" آپ سب پیپلزپارٹی میں شامل ہوجائیں تب آپ کے مسائل حل
ہوں گے" ، انہوں نے سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین سیلم مانڈی والا اور پیپلزپارٹی
میں نئے شامل ہونے والے بزنس مین سمیر میر شیخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا
کہ بزنیس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سلیم مانڈی والا کوملنے والے فوائد آپ
سب کے سامنے ہیں جبکہ بزنس کمیونٹی کے دیگر لوگ پیپلزپارٹی میں شامل نہیں
ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ تمام تاجروں کو پیپلزپارٹی کا کارکن ہونا چاہئے ۔
فریال تالپور کی تاجر برادری کو دی گئی دعوت یا دھمکی کا انداز نرالا تھا
اور سندھ کی تاجر برادری کو ایک پیغام دینا تھا۔ فریال تالپور کے مذکورہ
ادا کئے گئے الفاظ کے بعد تقریب میں سناٹا چھاگیا اور شرکاء ایک دوسرے کو
تکتے رہ گئے اور اشاروں کی زبان میں سرگوشیاں کر تے نظر آئے۔ کہنے والے
کہتے ہیں کہ فریال تالپور نے تقریب میں بزنیس گروپ کو مبہم انداز میں
دھمکیاں دی ہیں کہ وہ پیپلزپارٹی کا حصہ بن جائیں بصورت دیگر ان کے مسائل
حل نہیں ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت الیکشن سے قبل ہی غرور کے سمندر میں
غوطہ لگا کر اپنے گردنوں میں سریا پیوند کرکے باغرور انداز سے سندھ کو اپنی
جاگیر سمجھ کرسندھ کی تاجر برادری سمیت تمام طبقوں کو غیر لچکدا لاٹھی سے
ہانگنا معتبر سیاسست کا اندازنہیں، یہ انداز شہید ذوالفقار علی بھٹو اور ان
کی دختر بے نظیر بھٹو سمیت مادر جمہوریت نصرت بھٹو کا نہیں رہا ہے، وہ تو
شدید تحفظات کے باوجود اپنے ووٹرز سے بے انتہا پیار کرتے تھے، انہیں روزگار
دیتے تھے، ووٹرزکے بچوں کو بہتر تعلیم، بہتر صحت کی سہولیات کی فراہمی سمیت
معیار زندگی فراہم کرنے سے متعلق ہمیشہ فکر مند رہتے تھے۔شہید بھٹوز کی
پیپلزپارٹی کے بعد غیر منطقی طور پر پیپلزپارٹی جب زرداری پارٹی میں تبدیل
ہوئی تو ماضی میں بڑی تعداد میں تاجر برادری کی اہم شخصیات پیپلز پارٹی میں
شامل ہوتی رہیں، پارٹی کی جانب سے تاجروں کو کروڑوں روپے خرچ کرانے کے بعد
انہیں ٹشو پیپر کی مانند کھڈا لائن کردیاگیا تو تاجر دہری پریشانی میں
مبتلا ہو کر کنارہ کش ہوگئے۔ مذکورہ تشویشناک صورتحال سے ملک بالخصوص سندھ
کی تاجر برادری باخبر ہے ۔ تقریب میں شرکاء کو اچرج اس ووقت ہوئی جب ایک
مقررنے اپنے خطاب میں کہا کہ ایم این اے شاہدہ رحمانی سے جب پوچھا گیا کہ
ملک کی موجودہ باوقار خاتون شخصیت کون سی ہے تو انہوں نے برملا جواب دیا کہ"
فریال تالپور" ایسے الفاظ سن کر کان سائیں سائیں کرنے لگے کہ ملک میں
ہزاروں اس سے بڑی قدآور اور ملک کی ترقی کیلئے اہم خدمات سر انجام دینے
والی خواتین شخصیات موجود ہیں لیکن سیاست کے نام پر چمچہ گیری کی بھی کوئی
حد ہوتی ہے جو حدیں ملک کی سیاست میں شاید پار لگائی جار رہی ہیں۔ تاجر
برادری کراچی کے اندر سیاسی بھونچال کی وجہ سے پیپلزپارٹی سے ہاتھ ملانے
کیلئے پیش قدمی کی کیونکہ سب کا وزیر اعظم نواز شریف پر نااہلی کا فیصلہ
آنے پر ان کے برے دن شروع ہونے کے دوران ان کے قریب رہنے والی تاجر برادری
کی اہم شخصیت ایس ایم منیر گروپ بھی پیپلزپارٹی سے ہاتھ ملانے کیلئے دعوت
میں شریک تھے جبکہ ایس ایم منیر اور اس کے گروپ کو نوازنے میں نواز شریف کی
نوازشیں قابل تعریف ہیں ۔ ملک کی ایک سنسی خیز تاریخ کا ایک باب یہ بھی ہے
کہ تاجر برادری ہمیشہ اپنے فائدے کیلئے ہرایک سیاسی پارٹی سے تعلقات استوار
کرنے کیلئے ہمیشہ سرگرم نظر آرہی ہے جس سے سول سوسائٹی کو کیا پیغام دیا
جارہا ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ملک کی تاجر برادری کا کردار ملک اور عوام کی
معاشی ترقی کا ضامن ہوتا ہے،ان کو اس طرح سے پارٹیوں کے سیاسی کارکن ہی
بنانے والی پالیسیاں ملک کو کس سمت لے جائیں گی۔ ملک میں ویسے بھی تجارتی
اور سیاسی شخصیات کا آپس میں گھٹ جوڑ رہا ہے جس سے ملک میں لوٹ کھسوٹ کو
فروغ دیا گیا ہے جبکہ ماضی میں ایسی حرکات کا تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا،
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ آج کے جدید دور میں سب کا ایک ہی ایجنڈہ
"مال کماؤ ہے" جس کے بدلے ان کے ساتھ جو بھی سلوک کیا جائے وہ قابل برداشت
ہوتا ہے اس کی وہ پرواہ نہیں کرتے۔ موجودہ سیاسی تناظر میں عوام کی فلاح و
بہبود سے متعلق منصوبوں کے بجائے کھوکھلے نعرے دے کر بے وقوف بنانے والی
سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہے جبکہ ملک کے اقتداری و غیر اقتداری سیاستدان
ملک بالخصوص سندھ کے مختلف شہروں میں دس سے 15گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے
جبکہ سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں24گھنٹوں کے دوران دن و رات کو ہونے والی
تین سے بارہ گھنٹے کی غیرا علانیہ لوڈ شیڈنگ سے دن کی روشنی میں ذریعہ معاش
تلاش کرنے والے اجرتی شہریوں کو رات کے اوقات میں نیند بھی کرنے نہیں دی
جاررہی جبکہ ان سے ٹیکس و دیگر کی مد میں جیبوں سے پیسے بٹورنے والی حکومت
شہریوں کیلئے عذاب بنننے والی بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کاخاتمہ کرانے سے
متعلق مخلص نہیں ہے جبکہ حکمرانوں کو کے الیکٹرک نے نہیں عوام نے منتخب
کرلیا ہے اور عوام کو ہی عذاب دیئے جا رہے ہیں۔ بجلی کی طویل لوڈ شیڈن سے
متعلق جواز جو کے الیکٹر کا ہے کہ انہیں مطلوبہ مقدار میں گیس کی فراہمی
نہیں ہو رہی ہے جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کے الیکڑک اربوں روپے گیس
کمپنی کے ہڑپ کر رہا ہے جس کا کوئی حساب کتاب لینے والا نہیں ہے ، الٹا ایک
دوسرے پر الزام تراشی کرکے اربوں روپے کی لوٹ مار کرنے کے علاوہ شہریوں کی
زندگی اجیرن بنادی گئی ہے۔ کے الیکٹرک سمیت دیگر مختلف اداروں میں اہم
سیاستدانوں اور تاجر برادری کے قریبی رشتہ داروں کی بھر مار بھرتی ہونے کے
باعث حکومت کی آنکھوں میں دھول ڈالی جاتی ہے اور عوام کو پریشان کیا جار ہا
ہے جس کامستقبل قریب میں بھی کوئی سد باب دکھائی نہیں دے رہا ہے ، جس کی
ذمہ دار بالواسطہ سیاسی پارٹیاں ہیں جس کی وجہ سے مختلف سیاسی پارٹیاں اندر
ہی اندر تقسیم در تقسیم ہیں جس کے تحت پیپلز پارٹی میں تین گروپ ایک دوسرے
پر حاوی ہونے کی کوشش میں سرگردان ہیں جس میں آصف زرداری، بلاول بھٹو اور
فریال تالپور کے الگ الگ گروپ موجود ہیں، فریال تالپور کے گروپ میں شامل
منشیوں اور ملازمین کو وزارتیں و دیگر اعلیٰ حکومتی منصب تفویض کئے گئے ہیں
اوران کے ارد گرد یومیہ سلام کرنے والے افراد کی بڑی تعداد کو سینیٹر
بنادیا گیا ہے۔ مذکورہ صورتحال کے باعٖث اقتدار کی حوس کے حامل افراد فریال
تالپور کے سلامی بنتے جا رہے ہیں۔ فریال تالپور کو پیپلزپارٹی وومن ونگ کا
چیئرپرسن بنایا گیا ہے جس کا کام وومن ونگ کے معاملات کو دیکھنا اور
سنوارنا ہے لیکن وہ پیپلزپارٹی کے اہم معاملات کو ہینڈٖل کر رہی ہیں، جس پر
بلاول بھٹو نے برملا اظہار ناراضگی بھی کر چکے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے
خزانے کی "کھل جا سم سم والی چابی" فریال تالپور کے ہاتھ میں ہونے کے باعث
مصلحت وہ پسندی کا شکار ہیں کیونکہ ماضی میں آصف علی زرداری کے دورے اسیری
کے دوران اور صدر مملکت بننے کے حاصل ہونے والی تمام آمدنی کے اثاثے فریال
تالپور کے سپرد ہوئے تھے یہ ہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو کو بھی خاموشی اختیار
کرنی پڑ رہی ہے۔ فریال تالپور کی جانب سے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما ؤں کے
ساتھ کی جانے والی بدتمیزی کے باعث متعدد رہنما کنارہ کش جبکہ کئی رہنما سر
چھپا کے اپنے عہدوں کو بچا کر بیٹھے ہیں۔ حیرت تو تاجر برادری کی مذکورہ
دعوت میں بھی ہوئی جب ملک کے اہم تاجر تقریب کے اختتام پر فریال تالپور سے
ملنے کیلئے دو قدم آگے بڑھے تو ان کو سیکورٹی کے فرائض سر انجام دینے والے
اہلکاروں نے دھکے دے ڈالے جبکہ یہ ہی روش دینا کے مختلف ممالک سے تعلق
رکھنے والے سفیروں اور قونصل جنرلز کے ساتھ بھی روا رکھی گئی جس پر وہ بھی
تعجب خیز انداز میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہی رہ گئے۔مذکورہ صورتحال کے باعث
مجبوراََ فریال تالپور کو مداخلت کرنا پڑی اور اہلکاروں کو حکم دیا کہ
قونصل جنرلز کو دھکے نہ دئے جائیں جب ملک کے سیاستدان اپنے خطاب کرکے چلتے
بنے تو ان کو کون بتائے گا کہ ملک کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ تقریب میں تاجر
برادری کی اہم شخصیات اور قونصلر جنرلز کھل کربھی ایک دوسرے سے سلام و دعا
بھی نہیں کرسکتے تھے تو سندھ کے عوام کا کیا بنے گا۔ ویسے بھی عوام کو جلسہ
اور جلوسوں کے وسیع میدانوں میں دھوپ میں کھڑا کرکے دور بڑی اور چھاؤں بھری
اسٹیج پر خطاب فرمانے والی روایتیں موجود ہیں جس میں صرف ان سیاسی حضرات کی
لفاظی خطابات سماعت فرمائیں اور اپنی غربت کے خاتمے کے خواب ہی دیکھتے رہتے
ہیں اور ایک مراعات یافتہ طبقہ ملک کے عوام کو خوشحال بنانے کے بجائے اپنی
خوشحالی اور بادشاہت کو برقراررکھنے کیلئے ان سے دوغلی پالیسی اختیار کرنے
کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ اب وقت تیزی سے تبدیل
ہوتا جارہا ہے، ملک کی تاجر برادری کو کم از کم ہوش کے ناخن لینے چاہئیں،
اپنے کاروباری مفادات کے تحت اور ملک و قوم کے معاشی توازن کا بگاڑ کرنے
والے اقتدار کی نام نہاد قوتوں سے چمچہ گیری کے بجائے حقیقت پسندی کا
مظاہرہ کرنا چاہئے اور ان سیاسی قوتوں سے زیادہ تاجر برادری آپس میں اتحاد
کرکے پڑھے لکھے با صلاحیت لوگوں کو ملکی اقتدار میں لانے کیلئے اپنا کردار
ادا کرسکتی ہے جس سے ان کے باہمی فوائد کے ساتھ ملک کی معیشت کو بھی فائدہ
حاصل ہوگا جبکہ آنے والے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی میں بڑے عجیب فیصلے
متوقع ہیں، سندھ کے 30سے زائد اہم شخصیات فریال تالپور کے نا مناسب رویہ کے
باعث پیپلزپارٹی سے علیحدگی اختیار کرکے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ
لینے کا عندیہ دیا جا چکا ہے اس لئے 2018کے عام انتخابات پیپلزپارٹی کیلئے
مشکلات کا سبب بنیں گے، آزاد امیدوارں کی بڑی اکثریت کامیاب ہوگی اور سینیٹ
کے چیئرمین جیسے نتائج ملکی اور سندھ حکومت کے افق پر نظر آئیں گے۔ مذکورہ
صورتحال میں تاجر برادری کی دعوت میں پیپلزپارٹی کوبھی کوئی خاطر خواہ
فائدہ حاصل ہونے کے بجائے پیپلز پارتی کی قیادت کے گردنوں میں پیوست سریئے
سمیت لوگوں کو انسان نہ سمجھنے والی پالیسی کے باعث کوئی فائدہ تاجر برادری
کیلئے بھی نظر نہیں آرہا، اپنے رویوں میں تھوڑی سی بھی لچک پیدا کرتے تو
شائد صورتحال مختلف ہوتی، باقی لاڑکانہ سے فریال تالپور کا الیکشن میں حصہ
لینے کا اعلان کو دیکھتے ہیں کہ لاڑکانہ کی عوام انتہائی بدحالی اور پیدا
کردہ مشکل حالات کے بعد پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو کیسا ریسپانس دیتا ہے۔
لاڑکانہ میں ہونے والی لاقانونیت اور بے جا معاشرتی نا انصافیاں عروج پر
ہیں۔ ایسی تشویشناک صورتحال میں سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ
قیادت میں ایک بار ادی فریال تالپور کو دوبارہ سرگرم کردیا گیا ہے۔ کراچی
میں ایک ہی ہفتے میں دو اہم تقریبات میں شرکت کی جس میں صوفی کانفرنس اور
بزنس کمیونٹی کے ساتھ ڈنر شامل ہیں جبکہ سندھ کی حالت سات ہزار برس تہذیب
یافتہ شہر موہن جو ڈاڑو سے بھی بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ 7ہزار سال قبل بھی
سندھ کے شہر خوشحال، ترقی یافتہ ہونے کے ساتھ تجارتی مرکز کے طور پر جانے
پہچانے جاتے تھے جبکہ سندھ کے دارالخلافہ شہر کراچی صنعتی حوالے سے پورے
ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کر رہا ہے اور سندھ ہزاربرسوں
سے صوفیوں کی دھرتی رہی ہے اور حیرت تب ہوئی جب صوفی کانفرنس میں فریال
تالپور خاص مہمان بن کر دنیا کے تمام صوفی دانشوروں کو معلوم نہیں کہ کون
سا صوفیانہ درس دے رہی تھیں اور فریال تالپور کا صوفی کانفرنس میں آنا خود
سندھ کے عوام کو حیرتناک بنادیا ہے کہ اب سندھ کے لوگوں کو صوفی ازم کے نام
پر بھی ووٹوں کی سیاست کی جائے گی جو کہ خود لمحہ فکریہ ایک سولیہ نشان بن
گیا ہے جبکہ سندھ کا بچہ بچہ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت کی مہا کرپشن سے
آگاہ ہے اور بھٹو کی عقیدت کے نام پر عوام کی ہمیشہ آنکھیں بند رکھی گئی
ہیں ، اب یہ انکھیں رفتہ رفتہ کھل رہی ہیں ، اب وہ سوچنے پر مجبور ہوگئے
ہیں کہ جیئے بھٹو کے نعرے لگانے والی پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت نے انہیں
نہ ہی روزگار دیا، نہ ان کی معیارِ زندگی کو بہترکیا، ان کے بچوں کو بہتر
تعلم و صحت کی سہولیات نہیں دی گئیں، ان کو بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ، گیس کی
کمی اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی، سماجیات میں ترقی و دیگر زندگی کے
شعبوں میں ترقی تو نہ دی الٹا پیپلزپارٹی کی قیادت نے عوام دشمن وڈیروں
بالخصوص ادی فریال تالپور کے منظور نظر وڈیروں اور بد کردار افراد کو نوازا
گیا جن سے لوگ اکتاہت کا شکار تھے اوریہ ہی بنیادی اسباب ہیں جن پر سندھ کے
خواندہ و ناخواندہ لوگ اب غور بچار کر رہے ہیں، جس کے باعث سندھ کا
عوام2018ء کے عام انتخابات میں اپنے قیمتی ووٹ سے متعلق حکمت عملی کو تبدیل
کرنے کیلئے حکمت عملی پر غور و خوص کر رہا ہے۔ |