پاکستان اور افغانستان دو پڑوسی مسلمان ممالک ہیں لیکن
حیرت انگیز طور پر حکومتی سطح پر زیادہ تر دونوں کے تعلقات کشیدہ ہی رہے
ہیں۔ عوامی طور پر بھی اکثر اوقات خانہ جنگی کے شکار اس ملک کے عوام کو جب
پناہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو پاکستان کی طرف دوڑتے ہیں اور جب دوران جنگ
ذرا دم لیتے ہیں تو ان میں ایک طبقہ پاکستان کے خلاف بولنے لگ جاتا ہے اور
پھر ایک نئی خانہ جنگی میں الجھ جاتے ہیں اور اپنی اس جنگجویانہ فطرت پر
انتہائی فخر محسوس کرتے ہیں یعنی ان کے لیے قابل فخر امن نہیں جنگ ہے لیکن
حیرت ہے یہی افغان قوم جو اپنے ملک اور اپنی زمین کو نہیں سنبھال سکتی وہ
پاکستان کے ایک پورے صوبے اور بہت بڑے حصے پر اپنا حق جتا نے لگتی ہے او’’ر
لر او بر یو افغان‘‘ یعنی یہاں سے وہاں تک ایک افغان کا نعرہ لگانے لگ جاتے
ہیں کوئی اُن سے یہ پوچھے کہ افغان تو افغانستان کے اندر بھی ایک نہیں یہ
تو وہاں بھی الجھے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج کی جدید دنیا میں بھی آپ
کو افغانستان میں نہ تو وہ سہولتیں نظر آتی ہیں جو باقی دنیا کو میّسر ہیں
اور نہ ہی وہاں کے عام شہری باقی دنیا کے مقابلے پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ان
کا تعلیمی معیار باقی دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہے ان کے ہاں صحت، رسل و
رسائل شہری سہولیات سب تباہ حال ہیں پشتون اور دری ازبک تاجک سب ایک دوسرے
سے ناراض اور انتہائی دور ہیں بلکہ یوں کہیے کہ پوری افغان قوم ایک دوسرے
کے خلاف صف آرا ہے۔ مجھے اس صورت حال پر کوئی خوشی نہیں بلکہ دکھ اور تشویش
ہے دکھ اس لیے کہ یہ سب میرے مسلمان بہن بھائی ہیں افغانستان ہمارا برادر
اسلامی ملک ہے اور ایک نمایاں اور شاندار اسلامی تاریخ رکھتا ہے اس زمین نے
کئی عظیم علماء اور شخصیات کو جنم دیا جن کا علم و فضل اسلامی دنیا کے لیے
باعث فخر ہے اور تشویش مجھے اس لیے ہے کہ پاکستان میں بدامنی کی ایک بڑی
وجہ افغانستان میں بدامنی ہے اگر ہماری حکومت اور عسکری قیادت کہہ رہی ہے
کہ پُر امن افغانستان پاکستان کے حق میں ہے تو افغان حکومت اور قیادت کو اس
بات میں چھپے خلوص کو مان لینا چاہیے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ افغانستان
پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہوتے ہوئے مسلم دشمن بھارت کے دائرہ اثر میں
ہے وہاں سے ہدایات وصول کرتا ہے اور بڑی تابعداری سے اُن پر عمل کرتا ہے
اپنی زمین بھارتی مقاصد کے لیے پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے پاکستان کو
مطلوب دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے ان کی تر بیت کرتا ہے اور پاکستان بھیج
کر معصوم لوگوں کاقتل عام کرتا ہے اُس کے ہاں امریکہ بھی حملہ کرے اور
حالیہ حملے کی طرح مدرسے کے معصوم طلباء اور اساتذہ کوشہید کرے تو
انتقاماََ وہ پاکستان میں حملہ آور ہوتا ہے ۔یہ تو وہ دہشت گرد کاروائیاں
ہیں جو اُس نے پچھلے بیس سال سے جاری رکھی ہوئی ہیں اور اس کی وجہ وہ اُن
کے ملک میں پاکستانی مداخلت بتاتے ہیں لیکن پاکستان بنتے ہی کونسی گستاخیاں
تھیں جو پاکستان سے سرزد ہوئیں کہ خود کو اسلام کے بڑے علمبردار کہنے کے
باوجود ایک اسلامی ملک کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ،کبھی فاٹا کبھی خیبر
پختونخواہ اور کبھی بلوچستان میں مسائل پیدا کرتا رہا وہ کبھی پشتونستان کا
نعرہ لگواتا ہے اورکبھی گریٹر بلوچستان کو ہوا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ بین
الا قوامی سرحد کو پھلانگتا ہوا اٹک تک کا دعوے دار بننے کی کوشش کرتا ہے
ڈیورنڈ لائن کے معاہدے پر اس کے حکمرانوں کے دستخط موجود ہیں۔ 1893 سے 21
19 تک تین بار افغان حکمرانوں نے اس معاہدے پر دستخط کیے لیکن اب بھی جب
کسی افغان حکمران کا دل چاہے اس سرحد کو مٹانے کی بات کرنے لگ جاتا ہے اور
افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے اندر سے انہیں کچھ بکاؤ مال مل ہی جاتا
ہے ۔ویسے بیس کروڑ میں کچھ ایسے لوگوں کا مل جا نا کچھ اچھنبے کی بات نہیں
اور یہی جو اپنی زمین اور اپنے آپ سے وفا کرنے کے قابل نہیں ہوتے اپنی
اٹھارویں پشت کے افغان جدِامجد سے وفا شروع کر دیتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ
افغانستان کبھی بھی ایک مستحکم اکائی نہیں رہا مختلف قبائل اور سردار مختلف
علاقوں کے حاکم تھے اور آپس میں باہم دست وگریباں رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ
کیا اُس وقت بھی یہ پاکستان کی شرارت تھی قبائلی زندگی کے عادی یہ افغان
ایک مرکزی حکومت کے تحت مشکل ہی سے رہ سکتے ہیں اگرچہ ان کے لیے دعا ہے کہ
وہ ایسا کرسکیں اور اپنی سرحدوں کے اندر پُر امن زندگی گزار سکیں اور ساتھ
وہ حقائق قبول کر سکیں جن کے اوپر ان کے بزرگوں نے دستخط کیے ہیں۔ڈیورنڈ کی
لکیر کھینچ کر اُس وقت کے ہندوستان کے انگریز حکمرانوں کے فیصلے کو مان لیا
تھا کہ افغان حکومت اپنے آپ کو اس لکیر کے اُس طرف کے علاقے کا حقدار سمجھے
گی اِس طرف یعنی موجودہ پاکستان کی طرف اُس کی کوئی دخل اندازی نہیں ہو گی
۔2430 کلومیٹر کی یہ سرحد بین الاقوامی سرحد کی ہر تعریف کے مطابق ایک بین
ا لا قوامی سرحد ہے یہ اُس وقت کی دونوں حکومتوں سے تسلیم شدہ تھی اور ایک
نئی بننے والی ریاست تک اُسی صورت میں منتقل ہوئی جس کو دونوں حکومتوں میں
سے کسی نے نہ چھیڑا اور ویانا کنونشن کے مطابق ایسی سرحد ایک بین ا لاقومی
سرحد تسلیم کی جائے گی اور ایک پارٹی کے انکارسے اس کی صحت پر کوئی فرق
نہیں پڑے گا۔اس فیصلے کو اس وقت اس صوبے کے عوام نے ریفرنڈم میں پاکستان کے
حق میں ووٹ دے کر مزید مضبوط کیا ورنہ جو لوگ آج بھی افغان حکمرانوں کی
آواز میں اپنی دبی دبی زیرلب آواز شامل کرتے ہیں ان کے آباواجداد نے اس وقت
بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اسے بدلنے کی کوشش کی تھی۔افغان حکمرانوں کو
نوشتہء دیوار پڑھ لینا چاہیے اور اپنے آقا بھارت کی طرح پاکستان کے اندر
مداخلت کا وطیرہ چھوڑ دینا چاہیے، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان ایک
مستحکم ر یاست اور مملکت ہے افغانستان کی طرح بکھرے ہوئے قبائل نہیں لہٰذا
وہ تسلیم کر لے کہ غلطی خود اس کے اندر ہے اگر وہ اپنے عوام کو جدید دنیا
کی شہری ضروریات اور سہولیات فراہم کرے تو وہ پاکستان میں مہاجر کی زندگی
گزارنے کی بجائے اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دیں گے اور ایسا تب ہی ممکن ہے
جب افغان حکمران دہشت گردی کی ترویج سے توجہ ہٹا کر اپنے ملک کی ترقی پر
اپنی توجہ مرکوز کر دے اگر وہ یہ سمجھتے رہیں کہ بھارت یا امریکہ کے کام سے
ان کا ملک ترقی کرے گا تو یاد رکھے کہ قومیں اپنے زورِبازو سے عظیم بنتی
ہیں دوسرے اپنے مفادات کے لیے آپ کے ملک میں آتے ہیں اور یہ بھی کہ آپ دوست
دشمن کی پہچان کریں،پاکستان ہر مشکل میں افغانستان کے لیے سہارا اور پناہ
گاہ بنا ہے اور مستقبل میں بھی دونوں ملکوں8 کے تعلقات امن اور ترقی کا
باعث بنیں گے لہٰذا معاملات کو بگاڑیں نہیں سدھاریں۔
|