ایک اجتماعی حماقت

سابق وزیر اعظم کے بیانیے کو اس وقت تقویت مل جاتی ہے جب عدالتوں سے کوئی متنازعہ ریمارکس سامنے آتے ہیں۔جب نوازشریف کیمپ سے متعلق ذرا سخت ہاتھ رکھے جانے کا تاثر ملے۔یا ان کے مخالف کیمپ کو ریلیف ملتا محسو س ہوتو نوازشریف کا بیانیہ اور زیادہ ارتعاش دینے لگتاہے۔ نااہلی کیس میں جب دوران سماعت نوازشریف اور عمران خاں کے وکلاء کو قریبا ایک سا عدالتی ترش رویہ ملا۔دونوں کی قریبا برابر خوب ڈانٹ ڈپٹ ہوئی۔دونوں فریقوں کو پورا پورا حساب نہ دینے والا قراردیا جاتارہا۔تاہم فیصلہ سنایا گیا تو ایک کے حصے نااہلی آئی اور دوجے کو صادق اور امین قراردے دیا گیا۔اسی طرح عمران خاں کے گھر کی تعمیر غیر قانونی قرار پائی مگر عدلیہ نے محض یہی فرمایا کہ اس گھر کی تعمیر کو جرمانہ وغیر ہ بھر کر قانونی کروالیا جائے۔سابق وزیر اعظم کو اس امتیاز اور تفریق پر گلہ ہے۔اسی قسم کے گلوں کا سلسلہ جاری ہے۔تازہ ترین جو وقوعہ عدلیہ مخالف تقریروں پر پابندی سے متعلق ہے۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نوازشریف اور مریم نوازشریف کی تقاریر پر پابندی نہیں لگائی۔ہائی کورٹ نے پیمرا سے عدلیہ مخالف تقاریر روکنے کا کہا۔مگر اس کے آڈر کی جھوٹی خبریں چلوائی گئیں۔خبر عدلیہ کو بدنام کرنے کی منظم سازش ہے۔فیصلہ پڑھے بغیر ڈھول پیٹا گیا۔بتایا جائے کس نے اصل خبر کو تبدیل کروایا۔سپریم کورٹ کے یہ ریماکس ہماری لاابالی اوربے سمت اجتماعی طبیعت کے عکاس ہیں۔

تین بار عوام کے بھاری مینڈیٹ سے وزیر اعظم بننے والے کی طرف سے عدلیہ پر اس طرح کے سنگین الزام لگانا معمولی بات نہیں۔نوازشریف ایک لیجنڈ ہیں۔ملک بھر میں وہ سب سے مقبول اور سب سے قابل قبول قومی لیڈر ہیں۔انٹرنیشنل لیول پر بھی ان کی اچھی پہچان ہے۔ان کے بیانیے کو کسی عام آدمی کا بیانیہ نہیں سمجھناچاہیے۔وہ ستر سال سے جاری کسی شیطانی کھیل کا ذکر کررہے ہیں۔اس بڑے معاملے پر بات کرتے ہوئے سبھی ڈرتے ہیں۔نوازشریف اپنے قوت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ مسئلہ اٹھا رہے ہیں۔عام آدمی ان کی باتوں سے اتفاق کررہاہے۔وہ سمجھتاہے کہ ایک باقاعدہ سازش کی جارہی ہے کہ پاکستان میں کوئی مناسب نظام نہ قائم ہوپائے۔ کچھ لوگ روز اول سے کنفیوژ ن پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ہمیں کبھی بھی کسی مناسب نظام کی ترتیب و قیام کا موقع نہیں دیا گیا۔آسان بات تھی کہ ہم کسی ایک نظام کو لیکر اس سے نتھی ہوجاتے اس میں اگر کچھ کمیاں کوتاہیاں ہو تی بھی تو انہیں دور کرلیا جاتا۔ صدارتی نظام ہوتا یا پارلیمانی ہم کسی ایک کو اپناچکے ہوتے۔وحدانی نظام ہوتا یا صوبوں پر مشتمل ہم جس کسی ایک سسٹم کو بھی چنتے۔اس کو اپنی ضروت اور ماحول کے مطابق ڈھال چکے ہوتے۔ایسا ہونہیں پایا۔ ایک شرارتی اور شیطان صفت دھڑا ہمیشہ یہاں کسی مستقل نظام کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا۔

سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ عدالت نے نوازشریف اور مریم نوازشریف کی تقریروں پر پابندی نہیں لگائی۔عدالت کے اس بیان کے بعد اب میڈیا اور دیگر حلقے بھی سابق وزیر اعظم کی تقریروں پر پابندی نہ ہونے کا پراپیگنڈا شروع کردیں گے۔مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا۔ہم کب تک کہہ مکرنیوں میں پڑے رہیں گے۔اب سبھی سابق وزیر اعظم کی تقریروں پر پابندی لگنے سے انکاری ہوچکے۔مگر فائدہ۔جو سودا بیچنا مقصود تھا۔بیچ لیا گیا۔سابق وزیر اعظم کی تقریروں پر پابندی کے ڈراوے سے جو شعبدے بازیاں دکھانا تھی دکھالی گئیں۔جو غلاظتیں اگلنا تھیں۔اگلی جاچکیں۔اب یہ تردیدیں اور وضاحتیں کس کام کیں۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے سپریم کورٹ نوازشریف کو تنخواہ ظاہرنہ کرنے کے جرم میں وزار ت عظمی سے فارغ کرچکی آج جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء اقرار کررہے ہیں کہ سابق وزیر اعظم پر تنخواہ کی وصولی ثابت نہیں ہوئی۔فرض کیجئے اگر احتساب عدالت سابق وزیر اعظم کے تنخواہ لینا ثابت نہ ہونے کا فیصلہ سنادیتی ہے۔تو سابق وزیر اعظم کی معزولی کو کس کھاتے میں ڈالا جائے گا۔کنفیوژن پیدا کرنے والا دھڑا پوری طرح سرگرم ہے۔نوازشریف کا بیانیہ اسی غیر حقیقت پسندانہ رویے کے خلاف ہے۔ریاست کا ہر ادارہ عوام کی سوچ کے مطابق اوراس کے فائدے کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔عوام جسے سب سے برتر قرار دیتی ہے۔کچھ نام نہاد سیاسی لیڈران اسے سب سے غیر محترم ثابت کرنے کی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ایک سرگاری ملازم کی توہین تو ناقابل برداشت ہے۔مگراس ملازم کے باس کی توہین پر کچھ مسئلہ نہیں۔ہم اجتماعی طور پر بڑا احمقانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ کسی جج اور کسی جرنیل کی تذلیل پر تو سکتے میں آجاتے ہیں۔مگر عوام کے منتخب چیف ایگزیکٹو کی تذلیل پرکچھ غم نہیں۔یبحیثیت قوم ہم غلامہ سوچ پال رہے ہیں۔چھوٹے کو بڑا اور بڑے کو چھوٹا سمجھنے کی یہ حماقت پچھلے ستر سال سے ہمیں محرومیوں سے دوچار کررہی ہے۔یہی ہمیں کسی کروٹ بیٹھنے نہیں دے رہی۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141123 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.