مداری "سنسکرت " زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ہاتھوں
کےاستعمال سے کرتب دیکھنا۔ پچپن میں ہم سب نے سانپ ، بندر، ریچھ اور بکری
کے تماشے بڑے شوق و ذوق سے دیکھیں ہوں گئے ۔ مداری کا پیشہ زیادہ تر خانہ
بدوش کا خاندانی کام بن چکا ہے جو چھوتی عمر میں جانوروں کےبچوں کو سدھارتے
ہیں ۔ صبح سے شام تک مداری اپنے کندھے پر ایک تھیلہ لٹکائے ، ایک ہاتھ میں
چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں بندر اور ریچھ کی نکیل تھام کر گلی و محلے کا چکر
کاٹتے نظر آتے ہیں ۔ اکثر کسی چوراہوں یا گلی کونے میں بیٹھ کر اپنے تھیلے
سے بین اور ڈگ ڈگی نکال کر بجانا شروع کر دیتے جس کا مقصدتماشبین خصوصا
بچوں کو متوجہ اور اکٹھے کرنا ہوتا ۔ کئی مرتبہ ان کے ساتھ ان کے اپنے بچے
بھی ساتھ ہوتے ۔ بندر اپنے مالک کے فرضی نام سے کئی کرتب(بابو بن گیا جنٹ
مین، سسرال جانے کی تیاری، باڈر پر فوجی بمباری و دیگر اداکاری )سے دیکھنے
والوں کے چہروں پر خوشی کے لمحات مہیا کرتا۔ ریچھ کا بین پر ناچنے کے ساتھ
،شاہی سواری اور لڑائی کی اداکاری کرنا ۔ بکری کا گلے میں گھنرو پہنے ہوئے
ایک چھوٹے ڈبے پر کھڑے ہونا حیرت و پریشان کا باعث بنتا ۔ تماشے کےآخر میں
مداری بندر اور ریچھ کو لوہے کا ڈبہ پکڑا کر سب لوگوں کے پاس جانے کا کہتا
اور یہ جانور اپنے پیٹ پر ہاتھ مار کر پیسے ڈالنے کی اداکاری بھی کرتے
ہیں۔تماشہ ختم ہونے کے بعداپنا سامان لپٹنے اور لوہے کے ڈبہ سے پیسے نکال
کر اپنی جیب میں ڈالنے کے بعد کسی نئی منزل کی جانب روانہ ہو جاتا۔ کئی برس
گزر جانے کے بعد آج بھی یہ مداری اپنے انہی سدھائے ہوئے جانوروں کے ساتھ
اکثر نظر آتے ہیں ۔ اب مداریوں کے ساتھ ان کے چھوٹے بچوں نے بندر، ریچھ،
بکری کی نکیلیں ہاتھوں میں تھام رکھیں ہیں ۔
پاکستان کےستر سال ہونے کے باوجود ہ ہماری عوام کی حالت بھی مداری کے ان
تماش بین کی طرح ہے جو الیکشن کے دنوں میں سیاسی جماعتوں اور حکمرانوں کے
منشور، ارادے ، وعدے و وعید کو سچ سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس بناء پر اپنا
ضمیر کا سودا کر دیتے ہیں ۔۔
عوام کب تک یوں ہی شیخ چلی کےخیالی پلائو پکنے کا انتظار کرتے رہیں گئے ۔
حکومتی سیاسی اننگز کا خاتمہ ان قریب ہے، سیاسی پارٹیوں ااور حکمرانوں کے
انھی مداریوں کی طرح وہی پرانےگھسے پٹے، رونے دھونےاور شکوے و شکایات کا
سلسلہ دوبارہ شروع ہوچلا ہے ۔ اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتیں چاہے وہ
وفاق میں ہوں یا صوبوں میں اپنے مخالفین پر الزام عائد کر دئیے گئیں کہ
انہیں کام کے مواقع نہیں مل سکے کئی نے تو ابھی سے اپنے ووٹروں سے معافی
مانگنے اور ان کو دوبارہ رام کے منصوبات شروع بھی کر دئیے ہیں۔ یہ میوزک
چیئر گیم کئی دہائیوں سے اس طرح جاری ساری ہے اورپتا نہیں کب تک ہم کو اسی
طرح برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ عوام کے حقوق و فرائض اور ملکی ترقی و خوشحالی
کی نہیں بلکہ اقتدار اور اختیارحاصل کرنے کی جنگ ہے جس کے لئے تمام سیاسی
پارٹیوں کی لیڈر شپ نے حکومت میں آنے کے بعد اپنے کاموں اور کارناموں سے
ثابت کیا ہے کہ وہ سب اپنے مفادات کی خاطر ایک ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے حکومت
میں آنے کے بعد سیاسی پارٹیوں کے منشور، اعلانات ، ارادےاور وعدے سب بھول و
بھلیاں اور اڑان چھو ہو جاتے ہیں ۔ پاکستانی عوام کا یہ بچپن، بلکہ صاف
لفظوں میں بےوقوفی اور ناسمجھی کی عمر سترسالوں سے زیادہ تک جا پہنچا ہے
لیکن آج بھی ہم اپنے مسائل اور حقوق کی آواز اٹھانے کی بجائے یہ کھیل و
تماشے آج بھی چپ چاپ برداشت کر رہیں ہیں ۔ پاکستانی عوام اپنے بچپن سے سفر
کرتے کرتے شعور و سمجھ داری کی عمر کو کب پہنچے گئے ۔ ہم کب ان سیاسی
مداریوں کے چہرے پڑھ پائے گئے آج بھی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اپنے
اقتدار کے تماشے کے لئے اپنے حواری کے ساتھ اپنے اپنے کھیل تماشوں میں
مشغول ہیں۔
ملک کا دیوالیہ نکل چکا ہے ۔ قوی اداروں کو خساروں کا سامنا ہے، آئے روز نت
نئےانکشافات دیکھنے کو مل رہیں ہیں ۔ کرپشن ، رشوت ، فراڈ ، دھوکہ دہی اور
منی لانڈرنگ پر سوال کیا تو سب کی کنڈلی ایک ہو جاتی ہے اور شور اٹھاتا ہے
کہ غیر سیاستی طاقتیں جمہوریت کو ختم کرنے کی سازش کر رہی ہیں ۔ ملک کی
عوام بے روزگاری ، غربت ، مفلسی اور تنگی کے باعث اپنے بچے تک بیچنےکو
مجبور ہیں لیکن سیاستدانوں کو صرف غرض ہے جمہوریت کے حسن سےجس میں ان کے
پاس اقتدار اور اختیار ہوں ۔ بس کسی بھی طرح جمہوریت کی یہ کرپٹ گاڑی چلتی
رہنا چاہیے تا کہ ان سیاسی مداریوں کی دکان چلتی رہے اور جائدادیں ، لوٹ
کھسوٹ، دھوکہ دہی اور فراڈ کے موقع ملتے رہیں ۔
پاکستان جغرافیائی اعتبار سے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے ہمارے دشمنوں کی
ہر ممکن کوشش ہے کہ پاکستان کو مزید مسائل و پریشانیوں میں ا لجھایا جائے ۔
موجودہ سیاسی پارٹیوں کے سیاستدانوں سے یہ امید چھوڑدیں وہ کسی بھی خطرناک
صورتحال میں ملک بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ہیں۔ ان سیاستدانوں کی حالت تو
یہ ہے کہ اپنی فیملی ، جائدادیں ، بینک بیلنس و اکاونٹ تک بیرون ملک میں
ہیں کہ برے وقت میں وطن عزیز سے بھاگنے پر اپنی عیاشیوں میں کوئی تنگی و
پریشانی نہ آئے ایسے نظریات و سوچ کے سیاستدان ملک کو کیا خاک بچائیں گے۔
عوام الناس کی بھی ذمہ داری ہے کہ الیکشن کے تماشے میں ڈگ ڈگی پر دھمال نہ
ڈالیں بلکہ سیاسی وفاداری، تعلقات ، برادری اور لالچ کو چھوڑ کر ملکی مفاد
میں ووٹ کی طاقت کا استعمال کریں۔ تعلیم یافتہ نوجوان نسل اور پڑھے لکھے
افراد کی ذمہ داری ہے وطن عزیز میں اپنا رول ادا کرتے ہوئے اپنے حقو ق و
فرائض کے لئے آواز اور شعور کا جذبہ اجاگر کریں ۔تمام قومی ملکی اداروں کے
سربراہان کرپشن ، دھوکہ دہی ، فراڈ، رشوت جیسے کرائمز کےجڑ سے خاتمے کے لئے
اپنا فرض ادا کریں۔
اب وقت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اندر سے لوٹے ، مفاد پرست اور کرپٹ
عناصر کو فارغ کر کے صالح ، پڑھے لکھے اور بااصول افراد کو الیکشن میں ٹکٹ
دیں ۔ عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ آنے والے الیکشن میں سیاسی مداریوں کے
روایتی ٹکٹ ہولڈر ز سے جان چھڑائیں اور الیکشن کے دوران اپنے اپنے علاقوں
سے پڑے لکھے، تعلیم یافتہ، باکردارافراد کو منتخب کرکے اسمبلیوں کا حصہ
بنائیں تاکہ ملکی و ترقی کے ابواب میں اضافہ ہو۔ |