چیف جسٹس آف پاکستان نے پنجاب پولیس کو حکم دیا ہے کہ
پنجاب بھر میں عطائی ڈاکٹروں کے خلاف ایکشن لے کر ان کے کلیننک بند اور ان
کو گرفتار کیا جائے جس کے بعد پورے پنجاب میں پولیس اور محکمہ صحت کی
انتظامیہ حرکت میں آ گئی ہے اس حکم کے تحت تحصیل کلرسیداں کی انتطامیہ نے
بھی لمبی خاموشی توڑ تے ہوئے کوئی تھوڑی بہت کاروائی شروع کر دی ہے اسسٹنٹ
کمشنر غلام مصطفے نے ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ کلرسیداں ڈاکٹر سید عابد شاہ
کے ہمراہ تحصیل میں موجود عطائی ڈاکٹروں کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا ہے انہوں
نے شاہ باغ میں فاطمہ ہسپتال میں موجود ڈسپنسری میں سو سے زائد انجکشن
اور30کے قریب ڈرپس جو پہلے سے بھری ہوئی تھیں اور ان میں انجکشن بھی بھرے
ہوئے تھے کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے چالان مرتب کرکے متعلقہ عدالت میں
کاروائی کیلیئے ارسال کر دیا ہے اور قبضہ میں لیا گیا سامان موقع پر ہی تلف
کر دیا گیا ہے چوکپنڈوڑی میں کاروائی کرتے ہوئے مریم ہسپتال میں جہاں پر
زائدالمعیاد ادویات موجود تھیں کو بھی سیل کر دیا گیا ہے بھاٹہ روڈ پر
موجود ایک ایان ڈینٹل کلیننک کو بھی سیل کر دیا گیا ہے اور مالک کے خلاف
بھی چالان مرتب کر دیا گیا ہے اس کے علاوہ چوکپنڈوڑی میں موجود اور بھی بہت
سے عطائی چھاپہ مار ٹیم کی اطلاح ملتے ہی اپنے کلیننک بند کرکے غائب ہو گئے
یہ کاروائیاں تحصیل میں موجود دیگر علاقوں میں بھی کی گئی ہیں اور مزید
جاری بھی ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کاروائیوں سے تحصیل میں موجود
تمام عطائی ڈاکٹرز کے ہسپتال بند کرا دیئے ہیں ایسا ہر گز نہیں ہے تحصیل
میں اب بھی بہت سارے عطائی موجود ہیں جنکے بارے میں محکمہ صحت کے افسران کو
پتہ بھی ہے مگر وہ ان سے اپنے تعلقات کی وجہ سے ان کے خلاف کاروائی کرنے سے
گریزاں ہیں اگر چند کلیننکس سے زائدالمعیاد ادویات برآمد ہوئی ہیں تو تحصیل
میں موجود تمام ہسپتال خواہ وہ اصلی ہی کیوں نہ ہوں کو بھی چیک کیا جانا
چاہیے کہ کہیں ان کلیننکس پر بھی تو ویسی ہی بے ظابطگیاں تو نہیں ہو رہی
ہیں اگر دیانتداری سے چکیکنگ کی جائے تو ہر ہسپتال ہر کلیننک میں اس طرح کی
کوتاہیاں اور نقائص سامنے آئیں گئے لیکن ایسا نہیں ہوا ہے صرف چند ڈاکٹرز
کے خلاف کاروائی کر نے کے بعد باقیوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ جو
مرضی ہو کرتے پھریں ان کے خلاف کوئی انسدادی قدم بھی نہیں اٹھایا گیا ہے
محکمہ صحت کی پالیسیاں ہی اس قدر ناقص ہیں جنکے تحت صحیح کام کرنا اس کے
افسران کی دسترس سے بہت باہر ہے صرف کاغزی کاروائی کو ہی ترجیح دی جاتی ہے
اور عملی اقدامات سے گریز کیا جاتا ہے محکمہ صحت میں بہت سے ایسے افسران
بیٹھے ہوئے ہیں جو عوامی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد میں لگے ہوئے ہیں اگر
ایسا نہ ہوتا تو عطائی ڈاکٹرز کے خلاف ایکشن صرف چیف جسٹس آف پاکستان کے
حکم پر کیوں ہو رہا ہے کیا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ کس
جہگہ کو سا عطائی بیٹھا ہو ا ہے ایسی کاروائیاں تو محکمہ صحت کو ہر وقت
جاری رکھنی چاہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جب چیف جسٹس اس معاملے کا
پیچھا چھوڑ دیں تو محکمہ صحت پھر خاموشی اختیار کر لے گا اور جو عطائی اس
کاروائی کے دوران اپنے کلیننکس بند کرکے غائب ہو گئے ہیں وہ تو سب سے اچھے
رہ گئے ہیں ان کی تو بچت ہو گئی ہے کیوں کہ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب
کچھ چیف جسٹس آف پاکستان کی دباؤ کی وجہ سے ہو رہا ہے جو صرف چند دن جاری
رہے گا اس کے معاملات جو ں کے توں ہو جائیں گئے اور محکمہ صحت کے افسران
دفتروں میں جم کر بیٹھ جائیں گئے اور ہم کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا
عطائی ڈاکٹرز کے خلاف ایکشن بلا امتیاز ہونا چاہیے جبکہ تحصیل کلرسیداں میں
ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ان کاروائیوں کے
دوران امتیاز برتا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ محکمہ صحت کے افسران کی ملی
بھگت سے ہو رہا ہے شاہ باغ میں فاطمہ ہسپتال کو سیل کر دیا گیا ہے اس میں
کوئی شک نہیں ہے کہ تھوڑی بہت کوتاہیاں تو ہر جہگہ موجود ہوتی ہیں لیکن اصل
بات یہ ہے کہ اس ہسپتال کو لوگ شفاء کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں اس
ہسپتال میں کام کرنے والے ڈاکٹر تہزیب شاہ انتہائی مخلص اور غریب پرور
انسان ہیں اور ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں ان کے بارے میں یہ بھی سننے میں آیا
ہے کہ وہ نادار مریضوں سے پیسے بھی نہیں لیتے ہیں اور ان کو فری دوائی اور
ٹیکہ کرتے ہیں کلرسیداں اور دور دراز علاقوں سے مریض ان کے پاس آتے ہیں اور
شفایاب ہو کر جاتے ہیں جو فیس اس کلیننک پر مریضوں سے وصول کی جاتی ہے اس
کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی ہے وہ اس قدر کم فیس لیتے ہیں ان کی فیس صرف
پچاس سے ساٹھ روپے تک ہے اور ان کی ایک ہی خوراک سے اکثر میرض ٹھیک ہو جایا
کرتے ہیں اس فقیر نما ڈاکٹر کو اس علاقہ کے لوگ مسیحا کے طور پر جانتے ہیں
ایسے نیک دل ڈاکٹر سے اگر کوئی تھوڑی بہت کوتاہی ہو بھی جائے تو درگزر سے
کام لیا جانا چاہئے تھا جس وجہ سے ان کا ہسپتال سیل کیا گیا ہے وہ کوئی
اتنی بڑی نہیں تھی اگر ان کو کوئی سخت وارننگ دے دی جاتی تو زیادہ بہتر تھا
جو ایکشن ان کے خلاف لیا گیا ہے وہ شاید بنتا نہیں تھااور میں یہ برملا
کہوں گا کہ ایسا کر کے غریب مریضوں کو مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ مہنگے
ڈاکٹرز سے اپنی کھال اتروائیں شاہ باغ میں اور بھی بہت سے ایسے ہسپتال
موجود ہیں جہاں پر مریضوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے لیکن محکمہ
صحت خاموش تماشائی بنا ہوا ہے اسی طرح چوکپنڈوڑی میں بھی صرف ایک ڈینٹل کے
کلیننک کو سیل کیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی بہت سے ڈینٹل موجود ہیں جن کو
چیک کرنا بہت ضروری ہے بصورت دیگر عوام یہ سمجھیں گئے کہ یہ کاروائی صرف
ایسے عطائیوں کے خلاف کی جارہی ہے جن کی کوئی اپروچ نہیں ہے اور جو با اثر
ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے حکومت پنجاب کو محکمہ صحت پر خصوصی
توجہ دینا ہو گی اور سرکاری ہسپتالوں کی حالت اس قدر بہتر بنانا ہو گی کہ
عوام سرکاری ہسپتالوں کو چھوڑ کر عطائیوں کے پاس جائیں ہی نہ ڈپٹی ڈسٹرکٹ
آفیسر ہیلتھ کلرسیداں کو عطائیوں کے خلاف ایکشن بلا امتیاز کرنا ہو گا ورنہ
ان کی کارکددگی پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو جائیں گی
|