شام پر حملے کے بہانے

اس وقت شام جو کہ وسطی ایشیا میں ایک اہم جغرافیائی مقام رکھتا ہے کو چاروں طرف سے گھیر کر چاروں شانے چت کرنے کی سازش عروج پر ہے اور دنیا ابھی دیکھ رہی ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس اسرائیلی سازش کے کئی ثبوت بھی مل چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سازش میں اسرائیل اکیلا شامل نہیں بلکہ پوری غیر مسلم دنیا بھی شامل ہے اور کچھ نام نہاد مسلمان ممالک بھی پیش پیش ہیں۔

شام اور روس کا کہنا بہت حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ ہومس کے قریب ائر بیس ٹی فور پر اسرائیل نے حملہ کیا جس کے بعد بشار الاسد پر الزام لگنے شروع ہو گئے کہ اس نے کیمیائی ہتھیاروں سے باغی فوجیوں کے زیر قبضہ علاقے پر حملہ کیا ہے۔ اسرائیلی حملے کا وقت معنی خیز ہے اور اس پہ مستزاد امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکی کہ وہ شام کو بڑا سبق سکھائے گا ۔

اسرائیل شام کی اس خانہ جنگی کے دوران کئی مقامات پر اور خاص طور پر اس جگہ پر بار بار حملے کر چکا ہے۔ اسرائیل نے اس الزام کی تائید یا تردید بھی نہیں کی ہے جو کہ اس بات کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ بشارالاسد کو پھنسانے کی اور اس پر حملے کو جائز قرار دلوانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اسرائیلیوں کا یہ ایک بہانہ بھی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ٹی فور ائیر بیس ایران استعمال کر رہا ہے اس لئے اس نے اس پر حملہ کیا۔ اسرائیل کی طرف سے ایران پر الزام لگانے کا صاف مطلب یہی بنتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ یا تو ایران امریکہ سے در پردہ ملا ہوا ہے یا پھر اسرائیل جھوٹا ہے۔اسرائیلی سازش ہے کہ شام کو کھنڈر بنا دیا جائے اور دجالی قوتیں سارے علاقے میں اپنا راج قائم کر لیں ۔ اس بات کی تائید ایک برطانوی مشاہدہ کار کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔

انسانی حقوق کے مشاہدہ کار جو کہ برطانیہ میں بیٹھ کر اس میدان جنگ کو مانیٹر کر رہا ہے کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کئی قومیتوں کے لوگ مارے گئے ہیں ۔ اس کا واضح اشارہ شیعہ کمیونٹی کی جانب تھا۔ یہ ایک اور سازش کی کڑی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ شام میں جنگ کی ایک بڑی وجہ شیعہ سنی تضاد بھی ہے۔ اس بیان سے شائد وہ تبصرہ نگار اسرائیل کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہا ہے لیکن اس کے ساترھ ساتھ وہ مسلمانوں میں تفرقہ بھی ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جو بھی ہو یہ تو طے ہے کہ یہ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے پیچھے شام نہیں بلکہ اسرائیل یا اس کے اتحدیوں میں سے کوئی ایک ہے۔

اس حملے نے اس بات کو پھیلانا بھی شامل تھا کہ اس خانہ جنگی میں کوئی ایک یا دو مخالفیں نہیں ہیں بلکہ اب یہ ایک بینالاقوامی معاملہ بنیا جا رہا ہے جس میں کئی ممالک اور کئی باغی اور سر اٹھانے والے گروہ بھی شامل ہیں۔

اس کیمیائی حملے کا وقت بذات خود معنی خیز ہے۔ یہ کیمیائی حملہ اس وقت آشکارہ ہوا جب چند گھنٹے پہلے صدر ٹرمپ نے بڑی قیمت چکانے کی دھمکی دی تھی۔ بس چند گھنٹے بعد ہی دوما پر یہ کیمیائی حملہ ہوا جس میں بچوں سمیت درجنوں افراد مارے گئے۔ یہ حملہ ٹرمپ کی دھمکی کے چند گھنٹوں بعد ہی کیوں ہو گیا ؟اس سوال کے جواب کی بھی ضرورت ہو گی کسی کو ان حملوں کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لئے۔

ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں اسد کو وحشی اسد کہا اور روس ایران پر الزام لگایا کہ وہ شام کے صدر کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے کہ روس شام کی پشت پناہی کر رہا ہے۔

شام کا موقف ہے کہ یہ حملے اسے قربانی کا بکرا بنانے کے لئے امریکہ نے اسرائیل سے کروائے ہیں نہ کہ بشار الاسد نے۔

دمشق نے ایسے کسی بھی الزام کی تردید کی اور روسی وزیر خارجہ نے ایسے الزامات کو شر انگیز قرار دیا۔ شامی ریاست نے امریکہ پر الزام لگایا کہ اس نے ٹی فور ائیر بیس پر حملہ کیا ہے۔ اس کی امریکہ اور فرانس دونوں نے تردید کی ۔ یہ تردید سچ ہو سکتی ہے کیونکہ انہوں نے خود حملہ نہیں کیا ہو گا بلکہ اسرائیل سے کروا دیا ہو گا۔

روس اور شام اس بات پر مصر ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ ہی اس کیمیائی حملے کے زمہ دار ہیں۔ کیونکہ اسرائیل کو خدشہ تھا کہ ایران ٹی فور بیس پر اپنا کوئی کیمپ بنا رہا ہے تا کہ حزب اللہ اور اپنے دوسرے حلیفوں کو اسلحہ پہنچا سکے۔

اسرائیلی اپوزیشن کی ایک رکن نے کہا کہ اسرائیل کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ ایران شام میں قیام کرے بلکہ اس نے تو ایرانی موجودگی کو بھی نا قابل قبول قرار دے دیا۔ یہ بیان بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کیمیائی حملہ شام نے نہین بلکہ کسی شام مخالف نے ہی کروایا ہے۔

اسرائیلی وزیر ہائوسنگ نے تو برملا کہ دیا کہ اسرائیل شام کو کبھی اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ اس کے خلاف کوئی بھی کاروائی کرنے کی جسارت کرے نہ ہی وہ شام میں ایرانی موجودگی کو برداشت کریں گے کہ لبنان کو جہاں سے اسلحہ فراہم کیا جا سکے یا جولان کی پہاڑیوں پر ایک نیا محاز کھل جائے۔

اس سارے قصے کو چھیڑنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف تو عالمی میڈیا اور مغربی طاقتیں کیمیائی حملے کی مذمت کر رہی ہیں اور دوسری طرف بشارالاسد کو ہلا شیری بھی دے رہی ہیں کہ اس حملے کے بعد اس کی پوزیشن بہت مظبوط ہو گئی ہے اور اسے جنگ جاری رکھنی چاہیئے۔ یہی ستم ظریفی شام کو بلکہ دنیا کے ہر اس ملک اور خطے کو غیر محفوظ بنا رہی ہے۔ ایک طرف تو انسانی حقوق کی بات کی جاتی ہے اور امن قائم کرنے کی کوششوں کو سراہا جاتا ہے اور دوسری طرف امن خراب کرنے والے اور انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرنے والے کو اسلحہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہی کچھ پچھلی ایک صدی سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔ روس اور امریکہ جس معاملے میں ایک دوسرے کے مخالف ہو جاتے ہیں وہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہو پاتا بلکہ اسے ہمیشہ طول دیا جاتا ہے۔ ایک مقررہ حدف رقم بٹورنے کا مقرر کر کے اس کو پورا کرنے کی سعی کی جاتی ہے نہ کہ امن قائم کرنے کی یا اس مسئلے کے حل کی۔ ایسا اب پھر شام میں ہو رہا ہے اور امریکہ اور روس کی موجودگی میں اس مسئلے کا حل مشکل ہی سے نکل پائے گا۔

akramsaqib
About the Author: akramsaqib Read More Articles by akramsaqib: 76 Articles with 65625 views I am a poet,writer and dramatist. In search of a channel which could bear me... View More