جنگوں کی دنیا میں امن کی آخری امید کیا ہے؟

New Page 2
صبح کا وقت تھا جب غزہ میں تین بچوں کی ماں، مریم نے فضا میں ایک جانا پہچانا خوفناک شور سنا — چند لمحوں میں اس کی گلی، بیکری، اور ہمسایے کا زیتون کا درخت سب مٹی میں مل گئے۔ سینکڑوں میل دور یوکرین کے شہر خارکیف میں، آندری اپنے ضعیف والد کے ساتھ سرد تہہ خانے میں چھپا بیٹھا دھماکوں کے درمیانی وقفے گن رہا تھا۔ ایسے مناظر اب صرف جنگی علاقوں تک محدود نہیں رہے — یہ دکان داروں، طالب علموں، اور عام شہریوں کی نئی حقیقت بن چکے ہیں۔



جنگ کی عالمی لہر: خطرناک رجحان

پچھلے تین سالوں میں کئی بڑے تنازعات نے مکمل جنگ کی شکل اختیار کی۔ یوکرین پر روسی حملے نے نہ صرف اس ملک کو تباہ کیا بلکہ پورے یورپ کو توانائی، مہاجرین اور سلامتی کے شدید بحران میں مبتلا کر دیا۔ صرف 2022 میں 80 لاکھ یوکرینی بے گھر ہوئے۔ غزہ میں اسرائیلی بمباری نے ہزاروں افراد کی جان لی، 70% بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوا، اور 19 لاکھ سے زائد فلسطینی انسانی امداد پر منحصر ہو گئے۔

اسی دوران، مئی 2025 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی دوبارہ بھڑکی۔ میزائل حملے سرحد پار شہری علاقوں تک جا پہنچے، جس سے خطہ جنگ کے دہانے پر پہنچ گیا۔ اس کے فوراً بعد اسرائیل اور ایران کے درمیان محدود جنگ نے مشرق وسطیٰ کو مزید خطرے میں ڈال دیا۔ یہ سب واقعات اس بات کا اشارہ ہیں کہ اب ممالک بات چیت کی بجائے طاقت کے استعمال کو ترجیح دے رہے ہیں۔


پیشگی سفارت کاری: وقت کی ضرورت

تنازعے شروع ہونے کے بعد مذاکرات بے اثر یا تاخیر سے آتے ہیں۔ ہمیں ایسی سفارت کاری کی ضرورت ہے جو تنازعے سے پہلے حرکت میں آئے۔ پیشگی سفارت کاری، ابتدائی وارننگ سسٹمز، اور علاقائی مکالمے کو عالمی پالیسی کا بنیادی ستون بنایا جانا چاہیے۔

اقوام متحدہ، یورپی یونین، افریقی یونین اور سارک جیسے اداروں کو محض بحران کے بعد متحرک کرنے کی بجائے پہلے سے مؤثر بنایا جانا چاہیے۔ 2023 میں اقوام متحدہ نے دنیا کے 50 سے زائد مقامات پر مداخلت کی کوششیں کیں، مگر فنڈز اور سیاسی عزم کی کمی نے کئی اقدامات کو محدود کر دیا۔


کیا سفارت کاری ناکام ہو چکی ہے؟

ظاہری طور پر، سفارت کاری اکثر کمزور یا ناکام لگتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگ کے دوران بھی بالآخر مذاکرات کی میز پر واپسی ہوتی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کی بات چیت، یوکرین میں پس پردہ رابطے، اور بھارت و پاکستان کے درمیان غیر رسمی مکالمہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ سفارت کاری ہمیشہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ اکثر تب واپس آتی ہے جب حالات انتہائی خراب ہو چکے ہوں۔

یہی واپسی، گو دیر سے سہی، مگر ایک بڑی تباہی کو روکنے میں مدد دیتی ہے۔ یہی سفارت کاری کی اصل طاقت ہے: آخری موقع پر تباہی سے پہلے کا ایک دروازہ۔



طاقت کا نیا مطلب

ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہتھیاروں کی گھن گرج سے زیادہ اہم وہ آواز ہے جو سمجھوتے، برداشت اور سننے کے فن سے آتی ہے۔ آج دنیا کو طاقت کی نئی تعریف کی ضرورت ہے — طاقت وہ ہے جو جنگ کے راستے بند کرے، جو لفظوں کو گولیوں سے پہلے پہنچائے، اور جو دشمنی میں بھی انسانی رشتہ تلاش کرے۔

مکالمے کو نئی زندگی دینے کی ضرورت ہے:

عوامی سطح پر سفارت کاری، نوجوانوں اور خواتین کی شمولیت، ثقافتی و تعلیمی تبادلے، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر قابلِ اعتماد بات چیت کے نئے مواقع۔ اسی طرح، جدید ٹیکنالوجی جیسے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی early-warning سسٹمز، اور علاقائی امن مراکز بھی تنازعات سے پہلے رابطے کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ ہمیں ایسی سفارت کاری کی طرف بڑھنا ہوگا جو صرف حکومتوں تک محدود نہ ہو بلکہ عوام، اداروں، اور مقامی آوازوں کو بھی شامل کرے۔

آج سب سے بڑا سوال یہ نہیں کہ کیا سفارت کاری کام کرتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم اسے وقت پر استعمال کرنے کا حوصلہ اور حکمت رکھتے ہیں؟ اگر ہم پہلے قدم پر بات چیت کو ترجیح دیں تو شاید آخری قدم پر ہمیں کبھی جنگ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔


الفاظ کی طاقت ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو دنیا کو جنگ کے دہانے سے واپس لا سکتا ہے۔ سفارت کاری صرف میز پر بیٹھنے کا عمل نہیں بلکہ انسانیت کو خونریزی سے بچانے کی ایک امید ہے۔ یہ وہی راستہ ہے جس نے شمالی آئرلینڈ میں "گڈ فرائیڈے معاہدہ" (1998) کے ذریعے دہائیوں پر محیط فرقہ وارانہ تنازعے کو ختم کیا''، اور''کولمبیا میں 2016 کے امن معاہدے** کے تحت پچاس سالہ خانہ جنگی کا خاتمہ ممکن بنایا''۔ یہی اصل طاقت ہے سفارت کاری کی — آخری لمحے میں تباہی سے پہلے کا ایک دروازہ۔

اگر عالمی قیادت سنجیدگی سے پیشگی سفارتی اقدامات، امن کو اولین ترجیح، اور باہمی احترام پر مبنی مکالمے کو اپنائے تو غزہ اور یوکرین جیسے گہرے اور پیچیدہ تنازعات بھی بتدریج حل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ یہ صرف موجودہ بحرانوں کا علاج نہیں، بلکہ آنے والے وقتوں میں کسی نئی تباہ کن جنگ کے خطرے کو روکنے کا مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے

 

Mahnoor Raza
About the Author: Mahnoor Raza Read More Articles by Mahnoor Raza: 31 Articles with 8982 views As a gold medalist in Economics, I am passionate about utilizing my writing to foster positive societal change. I strive to apply economic knowledge t.. View More