نائن الیون کے بعد دنیا کی بدلتی صورتحال اور دہشت گردی ،
انتہاء پسندی کی آڑ میں امریکی مزموم عزائم نے مسلم ورلڈ کو بہت سی
دشواریوں کا شکار کیا اور جب امریکہ نے افغانستان کو بدمست ہاتھی کی طرح
تاراج کرنے کا فیصلہ کیا اورنئی ابھرتی ہوئی طاقت طالبان حکومت کے خلاف طبل
جنگ بجایا (یہ بات اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب
امریکہ طالبان کی حریت فکر اور جدو جہد آزادی کا قولا ًو فعلاً مداح تھا
بلکہ پاکستان کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو مرحوم کو طالبان کے بارے
میں نرم گوشہ رکھنے کی تلقین بھی کرتا رہتا تھا)تو پاکستان کے سابق ڈکٹیٹر
اور کمانڈو ریٹائر آرمی چیف و سابق صدر جناب پرویز مشرف نے امریکی دباؤ میں
آکر افغان پالیسی سے یوٹرن لیااور پاکستان کی آزاد فضاؤں کو خون کی ہولی
اور بارود کے سپرد کردیاچنانچہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں عوامی سطح پر
اس کا شدید رد عمل سامنے آیا(کہ پہلے افغان جنگ ہماری جنگ تھی اور پھر یک
لخت افغان کے خلاف امریکی جنگ ہماری جنگ میں تبدیل ہوگئی) اور جب انتخابات
نزدیک آئے تو چند مذہبی جماعتوں نے نفاذ اسلام ،مظلومیت طالبان کے عنوان پر
امریکہ مخالف اتحاد قائم کیا جسے’’ متحدہ مجلس عمل‘‘ کا نام دیا گیا،یاد
رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور
پیپلز پارٹی کے قائدین سمیت سرکردہ رہنما یا تو ملک سے باہر تھے یا پابند
سلاسل تھے اور سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو اپنے مخالف ایک ایسے مذہبی اتحاد
کی ضرورت تھی جس کا ہوا کھڑا کرکے اقتدار کو طوالت دی جاسکے اور بوقت ضرورت
وہ کار سرکار میں مداخلت بھی نا کرے ۔
چنانچہ 10اکتوبر 2002کو سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے عام انتخابات کروائے جس
کے نتیجہ میں متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی میں 57سیٹیں حاصل کیں جو بعد
میں اقلیتی اور خواتین کی ملا کر 63 تک پہنچ گئیں اور صوبہ سرحد (موجودہ کے
پی کے)میں چند ایک کے علاوہ ساری سیٹیں جیت گئی اور وہاں حکومت قائم کی
،صوبہ بلوچستان میں بھی پارٹنر شپ میں حکومت ایم ایم اے کے ہاتھ آئی ،متحدہ
مجلس عمل مرکز میں بوجوہ حکومت نہ بنا سکی مگر مولانا فضل الرحمن صاحب
اپوزیشن لیڈر ضروربن گئے،اسی طرح فروری 2003میں سینٹ الیکشن میں متحدہ مجلس
عمل نے18نشستیں حاصل کیں اور یوں پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی دفعہ
مذہبی قوتیں اتنی بڑی کامیابی حاصل کرسکیں۔
اب وہ وقت تھا جب عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جاتا اور ووٹ لینے کے
لئے جو نعرے لگائے تھے انہیں عملی جامہ پہنایا جاتا خصوصاًتعلیم ،صحت اور
روزگار کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین کے حوالے سے پیش رفت کی جاتی،حقوق نسواں
کا حقیقی اسلامی رول ماڈل پیش کیا جاتا ،افغانستان میں جاری امریکی مظالم
کا کچھ نہ کچھ سدباب کیا جاتا اور ساتھ ساتھ مدارس و مساجد اور خانقاہوں کی
بہتری کے لئے اقدامات کئے جاتے ،تشنگان علوم دینیہ اور مختلف شعبہ ہائے
زندگی میں تعلیم مکمل کرنے والے طالب علموں کے لئے بہتر مواقع فراہم کئے
جاتے، دینی مدارس سے فاضل علماء کی ڈگری کو کوئی قانونی شکل دی جاتی ،صوبہ
بھر میں موجود یتیم و مساکین اور بیوگان کے نان نفقہ کے لئے کوئی ابتدائی
ڈھانچہ ترتیب دیا جاتا ،سود کے خاتمہ کے لئے اصولی اقدامات کئے جاتے یہ اور
اس طرح کے عوامی فلاح و بہبود کے بہت سے اقدامات کرنا ان کے لئے کوئی مشکل
کام نہی تھا کیونکہ ان کو ووٹ دینے والے ان سے اس طرح کی توقع رکھتے تھے کہ
یہ صاحب جبہ و دستارکچھ نہ کچھ نیا اور بہتر کریں گے جو آج تک نہی ہوسکا
،لوگ ان سے توقع رکھتے تھے کہ یہ ان کی زندگیوں میں ایک انقلاب لے آئیں گے
جس کے بعد راوی چین ہی چین لکھے گا مگر انہوں نے بھی عوام کو مایوس کیا جس
کا نتیجہ اگلے الیکشن میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔
خصوصاًاس وقت جب ستمبر 2003 میں وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال نے نصاب تعلیم
سے قرآنی آیات نکالنے کا بل پیش کیا تو ایم ایم اے کے تقریباًچالیس کے قریب
ارکان موجود تھے جب وہ بل لے کر سپیکر قومی اسمبلی کی طرف بڑھیں تو مولانا
اعظم طارق مرحوم نے ان کے ہاتھ سے بل لے کر ناصرف پھاڑدیابلکہ یہ بھی کہا
کہ میرے جیتے جی قرآنی آیات نصاب تعلیم سے نہیں نکالی جاسکتیں اس کے
تقریباً ایک ماہ بعدملک دشمن قوتوں نے مولانا اعظم طارق کو قتل کردیا اور
تین ماہ بعد وہی بل ایم ایم اے کے ساٹھ ارکان کی موجودگی میں پاس ہوگیا
،اسی طرح طالبان کی مظلومیت کا ووٹ حاصل کرنے والی ایم ایم اے کا کردار
نیٹو سپلائی پر بھی خاصا مایوس کن رہا اورپاکستانی صدرو امریکی سفیر کے
ساتھ ملاقات کے فوراً بعد ایم ایم اے کے موقف میں واضح لچک نظر آئی اسی طرح
حدود آرڈیننس سے لیکر عافیہ صدیقی کی امریکہ کو حوالگی ،محسن پاکستان ڈاکٹر
عبدالقدیر کی بے توقیری(’’ــسچ تو یہ ہے ‘‘میں چوھدری شجاعت صاحب تفصیل لکھ
چکے ہیں) شریعت بل کو شرارت بل کہنے،لال مسجد و جامعہ حفصہ کے ساتھ ہونے
والی بربریت تک ایم ایم اے کا کردار انتہائی مایوس کن اورعوامی توقعات کے
قطعاً خلاف تھا ۔
ایم ایم اے نے مولانا نورانی ؒ کی سربراہی میں ایل ایف او کی مخالفت اور
باوردی صدر کو نامنظور کرنے کا اصولی فیصلہ کرلیابعد میں یہ معاملہ شدت
اختیار کرگیا اور حکومت مخالف تحریک کا اعلان کردیا گیا11دسمبر کو مولانا
نورانی ؒ حرکت قلب بند ہونے سے اپنے خالق حقیقی سے جاملے تو ان کی وفات کے
چند ہفتوں بعد ہی ایم ایم اے کے معاملات سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے طے
پاگئے اور مشرف کو گالیاں دینے والوں نے برضاو رغبت سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف
کو باوردی صدر تسلیم کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اے پی ڈی ایم اور چند ایک
اپنے رہنماؤں کے استعفوں کے باوجود سرحد اسمبلی کو برقرار رکھا تاکہ
الیکٹورل کالج مکمل رہے بلکہ سرحد حکومت کے 31ارکان نے مشرف کے حق میں ووٹ
بھی دیئے اور یوں رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی کے مصداق بنے ۔ اورہاں
یاد آیا کہ ان کے دور حکومت میں کے پی کے میں قائم ایک شراب کی فیکٹری
(Murree Brewery) پورے آب وتاب سے ناصرف شراب بناتی رہی بلکہ پوری دنیا میں
سپلائی بھی کرتی رہی اور ان کی صوبائی حکومت اس کو پروٹیکشن بھی فراہم کرتی
رہی شاید کوئی صوبائی ٹیکس بھی ادا کرتی ہو؟اور سینیٹر طلحہ کی فیکٹری کے
مواد کو لے کر بھی آج کل کچھ نا کچھ چل رہا ہے ۔یعنی عوام ابھی تک حیران ہے
کہ ایم ایم اے نے مذہب کو متبادل سیاسی بیانیہ کے طور پر پیش کیا یا صرف
اقتدار کے سنگاسن پر براجمان ہونے کا ذریعہ بنایا۔
متحدہ مجلس عمل کی موجودہ پوزیشن یہ ہے کہ اس کی دوبڑی جماعتیں جے یو آئی
(ف)بدستور نواز شریف حکومت کا حصہ ہے اور جماعت اسلامی کے پی کے میں عمران
خان کی حکومت کا مزہ لے رہی ہے اور ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن صاحب عمران
خان کو یہودی لابی کہتے ہیں اور سراج الحق صاحب سابق وزیر اعظم میاں نواز
شریف کو کرپشن کنگ کہتے ہیں دوسری طرف کشمیراور سینٹ الیکشن میں اتحادی بھی
ہیں،مولانا فضل الرحمن صاحب پانامہ لیکس کو عالمی سازش قرار دیتے ہیں اور
سراج الحق صاحب پانامہ کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں نواز شریف کے خلاف کیس
لڑ رہے ہیں ، مولانا فضل الرحمن صاحب فاٹا انضمام کے سخت مخالف ہیں اور
سراج الحق صاحب شدید حمایتی ۔ان کی چھتری میں ایک تیسری کالعدم جماعت نئے
نام سے شریک ہے جس کاسربراہ پچھلی کئی دھائیوں سے ملک عزیز میں فرقہ واریت
پھیلانے سمیت مولانا فضل الرحمن صاحب کے مسلک کے کئی لوگوں کے قتل کے
مقدمات میں ملوث سمجھا جاتا ہے اور ان کی جماعت دو دفعہ کالعدم ہوچکی ہے،
ان میں سے جے یو آئی (ف)کی قیادت اور کارکنان پاکستان میں اسلام کی بقاء کے
لئے اپنے علاوہ کسی اور کی قربانیوں کو سراہنا تو دور کی بات سرے سے تسلیم
کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے اور ہر اچھے کا م کی نسبت اپنی طرف اور برے کی
دوسرے کی طرف نسبت کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں اور اگر ان کے کسی قول و
فعل سے اختلاف کیا جائے یا نتقید کی جائے تو یہ اس کو اسلام کے خلاف نا صرف
سمجھتے ہیں بلکہ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگاتے ہیں ہاں
البتہ جماعت اسلامی ان معاملات میں کافی بہتر ہے دیکھا جائے تو جے یو آئی
(ف)اقتدار میں حصہ داری کے ذریعہ حکومت کے ممکنہ غیر اسلامی اقدامات کی
قائل ہے (اگر شراکت داری خراب نہ ہوتی ہو)اور جماعت اسلامی سیاست کو
اشرافیہ کے قبضہ سے آزاد کرواکر ایمان دار قیادت فراہم کرنے کی خواہاں
ہے(اگر ممکن ہوسکے)۔
متحدہ مجلس عمل حالیہ الیکشن میں 2002 جیسے نتائج حاصل کرتی نظر نہیں آتی
کیونکہ اس کی سب سے پہلی وجہ اس کی ناقص کارکردگی ہے دوسری بڑی وجہ پاکستان
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ناصرف پاکستان میں موجودہیں بلکہ بھر پور
انتخابی تیاریوں میں ہیں ،تیسری بڑی وجہ تحریک انصاف جو اس وقت اپنی
مقبولیت کے بام عروج پر ہے اور اس کے سامنے ایم ایم اے کوئی بھی قابل ذکر
کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور چوتھی بڑی وجہ ابھرتی ہوئی دیگر
مذہبی جماعتیں ہیں مثلاً اہلسنت والجماعت پورے پاکستان میں کافی مضبوط ووٹ
بنک رکھتی ہے اور اپنے مخالف کی ایم ایم اے میں موجودگی پر سخت نالاں بھی
ہے ،تحریک لبیک یارسول اﷲ ؐ بھی سیاسی طور پر کافی ووٹ بنک بنا چکی ہے اور
ملی مسلم لیگ بھی پاکستان میں کافی ووٹ بنک رکھتی ہے اور یہ جماعتیں ملک کی
مختلف چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک مضبوط اتحاد بناسکتی ہیں ۔ |