ایسی جگہ جہاں آپ نے اپنی ابتدائی زندگی کے حسین ترین دن
گزارے ہوں، وہاں سے دورجانا یا اپنی زمین سے الگ ہونا کسی کے لیے بھی اتنا
آسان نہیں ہوتا ۔ ایک اجنبی دیس میں الگ زبان بولنے والوں کے ساتھ اپنی
پوری زندگی گزار دینا بھی آسان نہیں ہوتا۔مگر وہ کون سا جذبہ ہے جو انسان
کو اپنی زمین سے بھی دور ایک اجنبی جگہ رہنے پر مجبور کر سکتا ہے؟ وہ
انسانوں کی بے لوث خدمت کا جذبہ ہے، اﷲ تعالیٰ کا بھی فرمان ہے کہ ’’تم
زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ اسی جذبہ کی بھرپور
عکاسی ڈاکٹر رتھ فاؤکی صورت میں نظر آتی ہے۔
1958 ء میں پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت کے باعث علاج کی بنیادی سہولتوں
کا بھی فقدان تھا، وہیں کوڑھ(جذام) جیسے مرض میں مبتلا افرادکی تعداد بھی
ہزاروں میں تھی۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ نے ان مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی،
کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں انسان کا جسم گلنا شروع کر دیتا ہے، جسم میں پیپ
پڑ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے،
کوڑھی کے جسم سے شدید بُو بھی آتی ہے، کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے
ہاتھوں ، ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں،
یہ مرض لاعلاج سمجھتا جاتا تھا۔اس مرض میں مبتلا شخص کے پاس جانا تو درکنار،
ان مریضوں کے اپنے سگے رشتے دار انہیں شہر سے باہر پھینک آتے اور انہیں سسک
سسک کر مرنے یا خود کشی کرنے پر مجبور کر دیتے۔
پاکستان میں 1960 ء تک کوڑھ کے ہزاروں مریض موجود تھے۔ڈاکٹر رتھ فاؤ نے
صورتحال دیکھتے ہوئے جرمنی سے کراچی کا سفر طے کیا اور آخر دم تک یہاں پراس
مرض کے خلاف جہاد میں مصروف رہیں۔
انہوں نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک، اپنی جوانی ، اپنا خاندان
اور اپنی زندگی تیاگ دی۔کراچی میں 1963ء میں میری لپریسی سنٹر بنایا، جو
کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرتا تھا۔ 1965ء تک یہ سنٹر ہسپتال کی شکل اختیار
کر گیا۔ڈاکٹر رتھ فاؤ کا ارادہ نیک اور نیّت صاف تھی، اﷲ نے ان کے ہاتھ میں
بہت شفاء دی۔ وہ کوڑھیوں کے مریضوں کو اپنے ہاتھ سے دوا کھلاتیں اور ان کی
مرہم پٹی بھی کرتیں۔
حکومت پاکستان نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کی طب کے شعبے میں خدمات پر انھیں 1988ء
میں پاکستان کی شہریت بھی دی۔ان کی بے لوث خدمت کے نتیجے میں اس مرض پر
1996ء میں قابوپا لیا گیا تھا اور عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو ــــ’’لپریسی
کنٹرولڈ‘‘ملک بھی قرار دیا۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ نے اردو زبان میں بھی مہارت حاصل کی، جس کی وجہ سے انھیں
اپنے مریضوں اور روزمرہ امور پر بے حد آسانی ہوتی تھی۔ انھوں نے جرمن زبان
میں چارکتابیں بھی تحریر کیں، جس میں اپنے کام کے حوالے سے مختلف تجربات
قلم بند کیے۔انھوں نے پاکستان میں تقریباً170 جذام سنٹرزقائم کیے۔اس کے
علاوہ تپ دق یعنی ٹی بی جیسے خطرناک مرض کے حوالے سے بھی کام کیا۔وہ اپنی
شفقت، خدمت لگن اور خلوص کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور تھیں۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ
کی اس ملک سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی
زندگی ہی میں پاکستان میں تدفین کی وصیت کی تھی۔
1968ء میں انھیں جرمنی میں آرڈر آف دی کراس عطا کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے
ڈاکٹر رتھ فاؤ کو 1969ء میں ستارہء قائداعظم کا اعزاز دیا۔جرمنی کی جانب سے
اس عظیم خاتون کو 1985ء میں کمانڈرز کراس آف میرٹ وِدھ اسٹار سے نوازا گیا۔
1989ء میں حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں ہلال پاکستان کا اعزاز دیا گیا۔
فلپائن کی حکومت کی جانب سے انھیں2002ء میں رامن میگسے ایوارڈ دیا گیا۔
اپریل 2003ء میں ڈاکٹر رتھ فاؤ کو جناح سوسائٹی نے جناح ایوارڈ سے
نوازا۔2004ء میں انھیں آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹر آف سائنس کی
اعزازی ڈگری ملی اوراسی سال روٹری کلب آف کراچی نے انھیں لائف ٹائم
ایچیومینٹ ایوارڈدیا۔ 2006ء میں صدرِ پاکستان نے بھیڈاکٹر رتھ فاؤ کو لائف
ٹائم ایچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا۔ 2010ء میں انھیں نشان قائداعظم بھی ملا۔
کراچی میں جرمن قونصل خانے میں انھیں جرمن حکومت کی جانب سے سونے کا اسٹیفر
میڈل بھی دیا گیا جو اپنی نوعیت کا بہت منفرد اعزازتھا۔
57 برس تک پاکستانیوں کی بلا امتیاز خدمت میں مصروفِ عمل رہنے کے بعد ڈاکٹر
رتھ فاؤ88 برس کی عمر میں10 اگست کو کراچی میں انتقال کر گئیں۔ ان کی تدفین
کا عمل مکمل سرکاری اعزاز اور قومی پرچم کے ساتھ کراچی کے گورا قبرستان میں
ادا کیا گیا۔تدفین میں صدرِ مملکت ممنون حسین، آرمی چیف جنرل قمر جاوید
باجوہ، ائیر چیف مارشل سہیل امان اور دیگراہم سیاسی اور سماجی شخصیات نے
شرکت کی۔
بلاشبہ ڈاکٹر رتھ فاؤ نے طب کے شعبے میں وہ لازوال خدمات انجام دی ہیں جن
کی جتنی پذیرائی کی جائے وہ کم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والی نسلوں
کو قوم کی ان عظیم ہستیوں کے کارناموں سے متعلق آگاہی دی جائے تاکہ اقوام
عالم میں ہم فخر سے سر بلند کر کے موذی امراض سے بچاؤ کے لیے کام کرنے
والوں کو خراج تحسین پیش کر سکیں۔ |