4 مئی 1799ء مسلمانانِ ہند کے لیے تاریک ترین دن تھا۔ جب
شیر میسور اپنوں کی سادگی و دغابازی اور غیروں کی مکاری و عیاری کا شکار ہو
گیا۔ اپنا ’’آج‘‘ سنوارنے والوں نے ملت کا ’’کل‘‘ داؤ پر لگا دیا۔ مملکت
خداداد میسور چاروں جانب دشمنوں میں گھری ہوئی تھی۔ باہر نظام دکن، مرہٹے
اور انگریز تھے تو اندر میر صادق، پورنیا اور غلام علی جیسے غدار۔ سلطان
فتح علی ٹیپو اپنے دشمنوں کا ادراک اچھی طرح کر چکے تھے۔ لیکن جو قوم زوال
کی گہرائی میں چھلانگ لگانے کے لیے بضد ہو، اسے ملاح کی چابک دستی کام نہیں
دیتی۔ مملکت ہند کی گلیوں میں آزادی کی شام ہو گئی لیکن نہ تو اس پر
آسمان رویا، نہ ہی زمین پھٹی۔ نوحہ کرنے والیاں اپنے حال میں مست سوتی
رہیں اور بدباطن فرنگی سونے کی چڑیا کا آخری پر تک نوچ کر لے گیا۔
سلطان ٹیپو 20 نومبر 1750ء کو بنگلور کے قریب ایک قصبہ دیوان ہلی میں نواب
حیدرعلی کے گھر پیدا ہوئے۔ والد نے آپ کو اعلی تعلیم دلوائی اور جدید ترین
فنون سے روشناس کروایا۔ اردو، ہندی، فارسی، عربی، انگریزی اور فرانسیسی
زبان پر آپ کو دسترس تھی۔ ذاتی کتب خانے میں دو ہزار کے قریب کتب موجود
تھیں۔ فنون حرب اور صنعت و حرفت سے ایسی واقفیت تھی کہ اس موضوع پر کئی کتب
لکھیں۔ جن میں ’’فتح المجاہدین‘‘ اور ’’احکام‘‘ زیادہ مشہور ہیں۔ کلکتہ کی
’’ایشاٹک سوسائٹی بنگال‘‘ میں سلطان کی چودہ کتب موجود ہیں۔
سلطان ٹیپو عالم ہونے کے ساتھ ساتھ متقی و پرہیزگار بھی تھے۔ واضح رشید
ندوی صاحب کے مطابق آپ کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی اور نہ ہی کبھی صبح کی
تلاوت چھوٹی۔ اسی طرح ہمہ وقت باوضو رہتے۔ ایک مرتبہ مسجد کا افتتاح ہونے
لگا تو سلطان بولے ’’مسجد کا سنگ بنیاد وہ رکھے ، جس کی نماز کبھی قضا نہ
ہوئی ہو۔‘‘ بڑے بڑے صاحب جبہ و دستار دم بخود رہ گئے۔ پھر سلطان آگے بڑھے
اور اپنے ہاتھ سے سنگ بنیاد رکھا۔ (کیوں کہ آپ کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی
تھی۔)
سلطان نے 1782ء میں تخت سنبھالا اور اپنی ریاست کو جدید ترین بنیادوں پر
استوار کر دیا۔ حتی کہ ایک فرانسیسی سیاح بول اٹھا ’’خدا کرے کہ فرانس کو
بھی سلطان ٹیپو جیسا راہ نما مل جائے ۔‘‘ انگریز مؤرخ کیپٹن لٹل لکھتا ہے
’’ٹیپو اپنی فوج اور اس کی تنظیم میں یورپ کے کسی بھی مہذب ملک سے پیچھے
نہیں ہے۔ اس زمانہ میں وہ تمام مشرقی حکمرانوں میں سب سے بہترین منتظم ہے۔
اس نے بیک وقت مغلوں کے قدیم تجربات اور یورپ کے جدید نظریات سے اپنے
انتظامی امور میں بھرپور فائدہ اٹھایا۔‘‘
سلطان ٹیپو نے اپنے سترہ سالہ دور حکومت میں ایسے جدید کارنامے سرانجام دیے
کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ مثلا آپ نے یہ سمجھ لیا تھا کہ جب تک شعبہ صنعت
کو فروغ نہیں ملتا، مادی ترقی ناممکن ہے۔ اس لیے اپنی ریاست میں کئی ایک
صنعتیں قائم کیں۔ بینکنگ کی بنیاد رکھی۔ تجارت کو فروغ دیا۔ جاگیرداری سسٹم
کو انتہائی محدود کر دیا ۔ انتظامیہ کو از سرِ نو مرتب کیا۔ فوری اور سستا
انصاف مہیا کیا۔ چھوٹے موٹے مقدموں کے حل کے لیے جگہ جگہ پنچایتی نظام قائم
کیا ۔ سماج کو باشعور بنانے کے لیے تعلیم کو عام کیا اور رسوم و رواج کے
خاتمے کی جانب توجہ دی۔ شراب و نشہ آور اشیاء پر پابندی لگا دی اور وطن کی
حفاظت کی خاطر نوجوانوں کی بڑی تعداد کو فوج میں بھرتی کیا۔ ’’ماڈرن
میسور‘‘ کے مصنف کے مطابق ریاست میسور کی فوج تین لاکھ بیس ہزار جوانوں پر
مشتمل تھی۔ سمندری فوج اور بحری بیڑے بنانے پر زر کثیر خرچ کیا اور جدید
اسلحہ ایجاد کرنے کی جانب توجہ دی۔ راکٹ اور بکتر بند گاڑی سلطان ٹیپو کی
ایجادیں ہیں، جن سے آج ساری دنیا مستفید ہو رہی ہے۔
سلطان نے عوام کو آزادی کا شعور دیا۔ ’’ہندوستان، ہندوستانیوں کا ہے۔‘‘ یہ
وہ مقبول عام نعرہ ہے جو آج بھی آزادی کے متوالوں کے دلوں پر راج کرتا
ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کے درج ذیل مقولے بھی ضرب المثل بن چکے ہیں:
٭… شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔
٭… جو لوگ کسی بھی مذہب کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کرتے ہیں، دنیا ہی میں
بداعمالی کی سزا پالیتے ہیں۔
٭… لوگ بدی کو ہنس ہنس کر کرتے ہیں، لیکن اس کے نتائج رو رو کر بھگتتے ہیں۔
٭… انگریز ہندوستان اور مسلمان، دونوں کے لیے خطرہ ہیں۔ ان کے وجود سے وطن
کی سرزمین کو پاک کرنا، اسلام اور ملک دونوں کی سب سے بڑی خدمت ہے۔
سلطان ٹیپو نے 32 سال کی عمر میں زمامِ اقتدار سنبھالی اور 49 سال کی عمر
میں دنیا کو داغِ مفارقت دے گئے۔ لیکن اپنے کارناموں، جہدِ مسلسل، بہادری
اور افکارو نظریات کی بناء پر آج بھی دلوں پر راج کر رہے ہیں۔ اپنے ساتھ
غداری کرنے والوں کو آخری پیغام یہ دیا ’’اس غداری کا نتیجہ تمہیں اس وقت
معلوم ہوگا جب تم اور تمہاری آئندہ نسلیں اس ملک میں محتاج اور ذلیل ہو کر
ایک ایک دانہ چاول اور پیاز کی ایک ایک گٹھی کو ترسیں گی۔‘‘ سلطان کی یہ
پیش گوئی نہ صرف حرف بہ حرف پوری ہوئی بل کہ اس غداری کے ثمرات آج بھی اہل
برصغیر بھگت رہے ہیں۔ سلطان کے غداروں سے زیادہ سمجھ دار تو انگریز جنرل
ولنگٹن (لارڈ ویلزلی) اور جنرل ہارس تھے، جنہوں نے سلطان کی میت پر کھڑے ہو
کر کہا تھا ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘ شاعرِ مشرق نے فرمایا تھا؎
آں شہیدانِ محبت را امام آبروئے ہند و چین و روم و شام
نامش از خورشید و مہ تابندہ تر خاک قبرش از من و تو زندہ تر
از نگاہِ خواجہ بدر و حنین فقر سلطان وارث جذب حسینؓ
٭٭٭ |