ٓگزشتہ دنوں حکومتی اتحادی جماعت جے یو آئی
(ف) میں ذراسی بات پر جو اُبال آیا تھا اِس کو جے یو آئی برداشت نہ کرسکی
اور اِسے بنیاد بناتے ہوئے جے یو آئی (ف)نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی
جس کے بعد حکومتی چائے کی پیالی میں بھی ایک بھونچال پیدا ہوگیا ہے اِس سے
آج جمہوری اور عوامی خدمت کے لاکھ دعوے کرنے والی کثیرالاتحادی برسرِاقتدار
جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی ٰ قیادت پریشان ہوکر رہ گئی ہے اور اِسے
اپنا اقتدار ہاتھ سے جاتا نظر آرہا ہے یوں حکومتی حلقے ناراض مولانا فضل
الرحمان کو ماننے اور اِنہیں زیادہ سے زیادہ حکومتی امارات اور زائد وزراتو
ں کی پیشکش کر کے حکومت میں دوبارہ شامل ہونے کی کوششوں میں مصروف ِ عمل
ہیں مگر دوسری جانب مولانا ہیں کہ وہ اپنی بات پر اٹل اور جمے ہوئے ہیں کہ
اَب وہ کسی بھی صُورت میں حکومت سے باعزت طریقے سے نکل جانے کے بعد دوبارہ
حکومت میں شامل نہیں ہوں گے جس سے حکومت کو یہ خدشات لاحق ہوگئے ہیں کہ
کہیں وفاق سے نکلنے کے بعد مولانا صوبائی حکومتوں سے بھی نکلنے کا اعلان نہ
کردیں جس کے بعد یہ صوبائی حکومتوں کو گرانے کے لئے بھی خطرہ نہ بن جائیں
اِن خدشات کے پیشِ نظر حکومت کی مولانا فضل الرحمان کو منانے کی پوری طرح
سے کوششیں جاری ہیں۔
جبکہ حکومت کی اِن لاکھ کوششوں اور جتن کے بعد بھی مولانا اپنے فیصلے پر
ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ حکومت میں دوبارہ نہیں جائیں گے مگر اِس کے باوجود بھی
حکومت ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کو راضی کرنے کی اپنے تئیں پوری کوششوں
کے ساتھ اڑی ہوئی ہے کہ وہ ہر حال میں مولانا کو منا کر ہی دم لے گی۔ جس کا
ایک اور بین ثبوت یہ ہے کہ ایک خبر کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم
رئیسانی نے بلوچستان حکومت بچانے کی غرض سے حال ہی میں حکومتی اتحاد سے
منحرف ہونے والی جماعت جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے اِن
کے گھر پر ایک اہم ملاقات کی جس میں اُنہوں نے التجایہ انداز سے مولانا سے
کہا کہ وہ بلوچستان کی حکومت نہیں گرائیں گے جس پر حکومتی اتحاد سے نکلنے
والے مولانا فضل الرحمان نے اِنہیں (وزیراعلیٰ بلوچستان کو)یہ یقین دہانی
کراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بلوچستان کی حکومت نہیں گرائیں گے اور ساتھ ہی
اُنہوں نے نواب اسلم رئیسانی کو یہ بھی کہتے ہوئے یقین دلانے کی کوشش کی کہ
واللہ!بلوچستان حکومت کی تبدیلی کی بات شجاعت نے کی ہے ہم نے نہیں .....اور
بھلا ہم کیوں بلوچستان کی حکومت گرائیں گے.....؟ اور اِس کے ساتھ ہی ایک
بار پھر مولانا نے وزیراعلی ٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کو یہ کہتے ہوئے
ہنسی خوشی اپنے گھر سے رخصت کیا کہ وہ بلوچستان کی حکومت کو نہیں گرائیں
گے۔ پھر اِس کے بعد وزیراعلی ٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے میڈیا سے
گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان صوبائی حکومت کے لئے خطرہ نہیں
بلکہ میں خود خطرناک ہوں اور اِس کے بعد نواب اسلم رئیسانی مولانا کے کہے
ہوئے الفاظ پر مطمئن ہونے کے بعد مولانا فضل الرحمان کے گھر سے اعتماد کے
ساتھ روانہ ہوگئے۔
جبکہ یہاں میرا خیال یہ ہے کہ وزیر اعلی ٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کو
مولانا کی اِس بات پر اتنا زیادہ مطمئن بھی نہیں ہونا چاہئے کہ جتنا مطمئن
وہ نظر آرہے تھے اور مولانا کے کہے ہوئے الفاظ پر آنکھیں بند کر کے بغیر
چُون چرا کے مولانا کے گھر سے چلے گئے۔
یہاں نواب اسلم رئیسانی کو وہ الفاظ بھی ضرور یاد رکھنے چاہئے تھے کہ ایک
نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے جے یو آئی (ف)کے سربراہ
مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حُسین نے واضح
اور دوٹوک الفاظ میں بلوچستان میں اِن ہاؤس تبدیلی سے اتفاق کیا اور
بلاجھجک کہا تھا کہ اِس مقصد کے لئے یہ دونوں پارٹیاں مل کر لائحہ عمل تیار
کرسکتی ہیں“مگر بیچارے معصوم وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی مولانا
کی گول مول باتوں کو سمجھے بغیر خاموشی سے مولانا فضل الرحمان کے گھر سے
روانہ ہوگئے۔
اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ ڈھائی تین سالوں سے حکومتی اتحادی بننے
رہنے کے دوران جے یو آئی (ف)پر ملکی اور عالمی سیاست کے حوالوں سے کئی ایسے
مواقع آئے کہ اِس جماعت کی اعلیٰ قیادت بالخصوص مولانا فضل الرحمان کو نہ
ملک کی عوام کی فلاح کی کوئی فکر لاحق ہوئی اور نہ بین الاقوامی بدلتی ہوئی
سیاسی اور معاشی صورت حال کا کوئی غم اِنہیں متزلزِل ہی کرسکا اِن تمام
نشیب وفراز کے باوجود بھی مولانا حکومت کے ساتھ کسی گم لگے کمبل کے مانند
چپکے رہے اور ہر اچھے بُرے حکومتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی سیاست
چمکاتے رہے حتیٰ کہ اِس سارے عرصے کے دوران اِن کے اِس بے حس رویوں پر ملکی
اور عالمی میڈیا اِنہیں کھلم کھلا ہدف تنقید بھی بناتا رہا مگر ایک جے یو
آئی(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہی تھے کہ وہ اپنے کانوں میں تیل ڈالے
اور اپنی زبان بند کئے یہ سب کچھ سُنتے رہے مگر پھر اِنہیں یکایک پتہ نہیں
کیا ہوگیا کہ مولانا فضل الرحمان چیخ پڑے اور وہ کچھ کر گزرے جس کا کسی کو
وہم وگمان بھی نہ تھا اور مولانا فضل الرحمان اپنا گریبان چاک کرتے دھول
اڑاتے اور اپنا سر پیٹتے اپنی اتنہائی گرجدار آواز میں اپنی جماعت کے دو
وفاقی وزرا سے استعفیٰ دینے کا کہہ کر خود کو حکومت سے علیحدہ ہونے کا
اعلان کر بیٹھے نہ صرف اُنہوں نے اپنے شدتِ جذبات سے ایسا کیا بلکہ حکومت
کو واضح اور دو ٹوک الفاظ میں یہ تک کہہ دیا کہ اَب ہماری برداشت کی حد ختم
ہوگئی ہے اور آج کے بعد سے ہمارے اور حکومت کے راستے جُدا جُدا ہیں یوں
مولانا فضل الرحمان نے غصے اور جذبات میں آکر اتنا کہہ کر حکومت سے اپنی
ڈھائی تین سالہ اچھی بھلی رقابت پل بھر میں خاک میں ملا دی اور اِس طرح
مولانا فضل الرحمان اپنی جماعت جے یو آئی (ف ) پر ہونے والی ملکی اور عالمی
میڈیا کی جانب سے مسلسل بننے والی تنقیدوں سے بچانے اور اپنے سیاسی کیریئر
کو عوامی سطح پر بحال کرانے میں جہاں کامیاب دکھائی دیتے ہیں تو وہیں وہ یہ
بھی ثابت کرانے میں پوری طرح سے کامیاب نظر آتے ہیں کہ وہ ایک صبروتحمل اور
برداشت کے پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے سیاستدان بھی ہیں جو ہر دفعہ تو
نہیں مگر بعض مرتبہ کچھ اچھے فیصلے کرنے کی صلاحیت بھی ضرور رکھتے ہیں بلکل
ایسا ہی ایک اچھا فیصلہ جیسا اُنہوں نے گزشتہ دنوں اپنے جماعت کے ایک وزیر
اعظم سواتی جن کا تعلق وفاقی وزرات سے تھا اور اِن کا قصور صرف یہی تو تھا
کہ اُنہوں نے دوسرے وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی کے حج اسکینڈل کو حکومت اور
عوام الناس میں اجاگر کرنے میں اپنا ایک بڑا اہم کردار ادا کیا تھا اور بس
.....اعظم سواتی کی صرف اتنی سے غلطی ہی تو تھی جس کو بنیاد بناکر ہمارے
ملک کے بھولے بھالے اور جاذب نظر وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے
چہیتے وفاقی وزیر حامد سعید کاظمی کا حج اسکینڈل اچھالنے کی باداش میں اعظم
سواتی کو بغیر کچھ کئے دھرے یکذمبشِ قلم اِنہیں اِن کی وزرات سے برطرف
کردیا اور پھر اِس کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے بھی انتقاماََ خود کو
حکومت سے علیحدہ کرنے کا اعلان کر کے جو کیا ہے......؟؟ وہ بھی آج سب کے
سامنے ہے۔ اور ملک کے سترہ کروڑ عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ مولانا نے اپنا
یہ فیصلہ درست کیا ہے یا غلط.....؟ بہرحال! جیسا بھی کیا ہے یہ مولانا فضل
الرحمان اور اِن کی جماعت کا مسئلہ ہے اِس کا جواب بھی یہی لوگ دیں گے اور
عوام کو مطمئن بھی یہ کریں گے۔
ویسے تو ایک بات ضرور ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل
الرحمان کی شخصیت ملکی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرنے والی وہ عظیم
شخصیت ہے جو بہت کچھ کرنے کی صلاحیت تو ضرور رکھتی ہے مگر مصالحتوں کا شکار
ہوکر وہ کچھ نہیں کر پاتی جو اِسے کرنا چاہئے مگر مولانا کے حالیہ فیصلے سے
یہ بات عوام الناس میں ضرور واضح ہوگئی ہے کہ مولانافضل الرحمان جب اپنے
اُصول اور اپنی ضد پر آجائیں تو یہ وہ سب کچھ بھی کرسکتے ہیں جس کی عوام
اِن سے توقعات رکھتی ہے جیسا کہ وہ ایک بڑے عرصے حکومتی اتحادی بننے کے بعد
حکومتی ہر غلط فیصلے پر خاموش رہے اور اِس کے ساتھ چلتے رہے مگر جب یہ اپنی
پر آئے تو ایک ذراسی بات سے یہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔
بہرکیف! مولانا نے جیسا اپنے لئے بہتر سمجھا وہ کیا مگر کیا ہے مگر کیا ہی
اچھا ہوتا کہ وہ اُس وقت حکومت سے یہ علیحدگی اختیار کرلیتے جب حکومت ملک
میں عوام دشمن اقدامات کررہی تھی اور امریکی دباؤ میں آکر ملک میں بے تحاشہ
ڈرون حملے کروا رہی تھی اور ملک میں کرپشن اور مہنگائی کو بے لگام کرنے
جیسے اقدامات کررہی تھی اگر اُس وقت اِن تمام باتوں کو بنیاد بناکر مولانا
فضل الرحمان حکومت سے علیحدہ ہوتے تو کیا بات ہوتی۔ جبکہ آج یوں ذرا سی سے
بات پر جے یو آئی (ف)کا حکومت سے نکلنے پر عوام کا خیال یہ ہے کہ مولانا
فضل الرحمان کا اپنے ایک وفاقی وزیراعظم سواتی کو وزیراعظم سید یوسف رضا
گیلانی کی جانب سے برطرف کئے جانے کو جواز بنا کر حکومت سے نکلنے کا اعلان
یہ اِن کی ذاتی لڑائی ہے جبکہ مولانا کو عوام کی فلاح اور ملک ترقی سے کوئی
غرض نہیں ہے۔
اِس موقع پر مجھے یہ کہنے دیجئے کہ ایک ہمارے ملک پاکستان کے جے یوآئی (ف)
کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں جن کی ساری عمر ملکی سیاست میں گزری ہے
جو ہمارے یہاں اپنے سیاسی قول وفعل کے لحاظ سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتے
ہیں اور جو اپنی ذات سے بہت کچھ کرنا بھی چاہیں تو کرسکتے ہیں مگر وہ نہیں
کرتے ہیں جبکہ دوسری طرح ایک مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے امریکی
شہریت کے حامل انجینئر فضل الرحمان تھے جنہوں نے 1966میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر
کا ٹیوبلر اسٹرکچر ڈیزائن تیار کیا تھا جس کے مطابق یہ عمارت اسٹیل اسٹرکچر
پر تعمیر کی گئی تھی یوں آج انجینئر فضل الرحمان کا شمار امریکہ سمیت دنیا
کے اُن بہترین اسٹرکچر ماہرین میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے امریکہ سمیت ساری
دنیا میں یہ ثابت کردیا کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بلند وبالا عمارت کو
اسٹیل اسٹرکچر سے بھی بنایا جاسکتا ہے۔
اِس کے بعد اگر آج ہم اپنے مولانا فضل الرحمان کا مقابلہ انجینئر فضل
الرحمان سے کریں تو دونوں میں یہ بات قدرے مشترک دکھائی دیتی ہے کہ دونوں
دنیا میں کچھ نہ کچھ اچھا کرنے کے لئے آئے ہیں انجینئر فضل الرحمان تو وہ
کام کر گئے جو رہتی دنیا تک امر رہے گا مگر اب مولانا فضل الرحمان سے
پاکستانی قوم یہ قوی اُمید رکھتی ہے کہ وہ بھی پاکستانی قوم اور عالمِ
انسانیت کے لئے کچھ اچھا کر جائیں جس سے اِن کی شخصیت بھی عالمِ انسانیت کے
لئے مشعلِ راہ بن جائے۔ |