واشنگٹن بمقابلہ بیجنگ

چین اور بھارت کی بڑھتی قربتیں کیا پاکستان کو پریشان کر سکتیں ہیں یا یہ صرف وقتی تعلقات ہیں تاکے بھارت امریکہ کو بتا سکے کے ہمارے پاس اور بھی آپشن ہیں جبکے پاکستان کیسے دو بڑی طاقتوں کے درمیان دوستی کا توازن برقرار رکھتا ہے

تحریر : محمد واجد عزیز

دنیا کی سیاست شطرنج کی ایک ایسی بساط ہے جس پر ہر
چال سوچ سمجھ کر کھیلی جاتی ہے اور ہر قدم کے پیچھے کئی پردہ دار مقاصد چھپے ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھارت اور امریکہ کے درمیان تجارتی کشیدگی اسی بساط کی ایک تازہ چال ہے۔ امریکہ نے بھارتی مصنوعات پر پچاس فیصد ٹیرف لگا کر نہ صرف دہلی کو جھٹکا دیا بلکہ یہ پیغام بھی دیا کہ واشنگٹن اب پرانی روایتی دوستی کو معاشی اصولوں کی بھینٹ چڑھانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ اس فیصلے سے بھارت کی برآمدات کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچنے کا امکان ہے اور معاشی ماہرین کے مطابق اس کا براہ راست اثر بھارتی جی ڈی پی پر پڑے گا۔
اس تناؤ نے نئی دہلی کو ایک غیر معمولی قدم پر مجبور کر
دیا ہے اور وہ ہے بیجنگ کی طرف جھکاؤ۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات اور برسوں کی بدگمانیوں کے باوجود دونوں ملک اس وقت ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں چینی وزیر خارجہ کی نئی دہلی آمد اس بات کی علامت ہے کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات بھارت کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ چین کے ساتھ اپنے روابط بڑھائے تاکہ امریکی دباؤ کا توڑ کیا جا سکے۔ یہ صورت حال جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن ایک نئی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
پاکستان کے لیے یہ سب کچھ ایک نئے موقع کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ دہائیوں بعد اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات میں وہ گرمی دیکھنے کو ملی ہے جو شاید کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ امریکہ کے ساتھ توانائی، تجارت اور سرمایہ کاری کے معاہدے اس بات کا ثبوت ہیں کہ واشنگٹن اب پاکستان کو ایک اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھنے لگا ہے۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا امریکہ واقعی پاکستان کو وہی درجہ دے سکتا ہے جو وہ بھارت کو دیتا آیا ہے؟ اور کیا پاکستان اتنا مہنگا امریکی اسلحہ خریدنے کی مالی سکت رکھتا ہے؟ فی الحال اس کا جواب نفی میں دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کی معیشت ابھی تک اس قابل نہیں کہ وہ اربوں ڈالر کے دفاعی سودے برداشت کر سکے، اسی لیے اسلام آباد کے لیے چین کا کردار بدستور ناگزیر ہے۔
چین نے گزشتہ برسوں میں پاکستان کے ساتھ دفاعی، اقتصادی اور اسٹریٹجک تعلقات کو اس حد تک مضبوط کیا ہے کہ ان کی جڑیں صرف کسی وقتی ضرورت پر مبنی نہیں رہیں بلکہ اب ایک گہری شراکت داری میں ڈھل چکی ہیں۔ سی پیک، ہتھیاروں کی فراہمی، ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری ایسے شعبے ہیں جنہیں کسی بھی قیمت پر ترک نہیں کیا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ چین بھارت کے ساتھ وقتی تعاون بڑھا سکتا ہے تاکہ امریکہ کو جواب دیا جا سکے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پاکستان کو پسِ پشت ڈال دے گا۔ پاکستان چین کے لیے اس خطے میں ایک مستقل اور قابلِ اعتماد پارٹنر ہے۔

اصل کھیل اس بات پر ہے کہ پاکستان اس بدلتے ہوئے منظرنامے میں اپنی حکمت عملی کس طرح ترتیب دیتا ہے۔ اگر اسلام آباد نے محض ایک ملک پر انحصار کیا تو نقصان اٹھا سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھتے ہوئے چین کے ساتھ اپنی دیرینہ دوستی کو بھی برقرار رکھتا ہے تو یہ توازن اسے خطے میں مزید اہم بنا سکتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ دفاعی سودوں میں جذباتی ہونے کے بجائے اپنی معاشی طاقت کو بڑھائے، کیونکہ طاقتور معیشت کے بغیر کوئی بھی فوجی طاقت دیرپا نہیں رہتی۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ تین بڑے ستونوں پر کھڑی رہی ہے: سلامتی، معیشت اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات۔ ان میں امریکہ اور چین ہمیشہ کلیدی کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ سوال ہمیشہ اہم رہا ہے کہ وہ کس طاقت کے قریب جائے، کس سے دور رہے، اور کس کے ساتھ توازن قائم کرے۔ آج جب دنیا ایک بار پھر نئی سرد جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے، پاکستان کے لیے یہ فیصلہ اور بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی امریکہ کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے۔ 1950 کی دہائی میں پاکستان نے سیٹو (SEATO) اور سینٹو (CENTO) جیسے امریکی اتحادی فوجی معاہدوں میں شمولیت اختیار کی تاکہ سوویت یونین کے اثر و رسوخ کو روکا جا سکے۔ اس وقت پاکستان نے اپنی سلامتی اور معیشت کو امریکہ کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔

امریکہ نے پاکستان کو فوجی امداد، زرعی پیکجز (گرین ریولوشن)، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں مدد دی۔
1960 کی دہائی میں ایوب خان کے دور میں امریکہ کے ساتھ تعلقات عروج پر تھے، لیکن 1965 کی جنگ کے بعد جب امریکہ نے ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دی، پاکستان کے دل میں بداعتمادی پیدا ہوئی۔
اسی دور میں پاکستان نے چین کی طرف دیکھنا شروع کیا، اور یہی وہ وقت تھا جب بیجنگ اور اسلام آباد کے تعلقات میں قربت آئی۔

پاکستان اور چین کے تعلقات کی بنیاد 1960 کی دہائی میں پڑی۔ پاکستان وہ پہلا مسلم ملک تھا جس نے 1950 میں چین کو تسلیم کیا۔ 1962 کی چین-بھارت جنگ کے بعد پاکستان اور چین مزید قریب ہو گئے۔
ستر کی دہائی میں پاکستان نے چین اور امریکہ کے درمیان خفیہ سفارت کاری میں اہم کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں صدر نکسن کا تاریخی دورہ چین ممکن ہوا۔
چین نے پاکستان کو فوجی ٹیکنالوجی، ہتھیار، میزائل پروگرام اور جوہری تعاون میں ہمیشہ مدد دی۔
حالیہ دہائیوں میں، چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) پاکستان کی معیشت میں چین کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کے طور پر سامنے آیا۔
یوں چین پاکستان کے لیے صرف ایک دوست نہیں رہا بلکہ ایک ایسا "اسٹریٹیجک پارٹنر" بن گیا ہے جو ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا۔

پاکستان کی معیشت ہمیشہ بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کرتی رہی ہے۔
امریکہ نے پاکستان کو اربوں ڈالرز کی فوجی اور معاشی امداد دی، خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران۔ لیکن امریکہ کی امداد ہمیشہ شرائط کے ساتھ آتی رہی، جس میں سیاسی دباؤ بھی شامل رہا۔
چین نے پاکستان کو انفراسٹرکچر، توانائی، اور ٹرانسپورٹ کے بڑے منصوبے دیے، جیسے کہ گوادر پورٹ اور CPEC۔ تاہم چین کے قرضوں کے بارے میں خدشہ ہے کہ یہ پاکستان کو Debt Trap میں نہ دھکیل دیں۔
حالیہ برسوں میں پاکستان کی معیشت بار بار بحران کا شکار ہوئی، اور ہر بار پاکستان نے کبھی IMF (جس کے پیچھے امریکہ کا اثر ہے) اور کبھی چین کی مالی مدد پر انحصار کیا۔
آج پاکستان ایک نازک مقام پر کھڑا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان چین کے بڑھتے اثر کو کم کرے اور مغربی اتحاد کے قریب رہے۔ دوسری طرف چین پاکستان کو خطے میں اپنی سب سے بڑی اسٹریٹیجک سرمایہ کاری سمجھتا ہے۔

امریکہ کے ساتھ تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد واشنگٹن کا رویہ سرد ہو گیا ہے۔
چین نے پاکستان کو مشکل وقت میں سپورٹ کیا ہے، لیکن چین بھی پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سی پیک اور دوسرے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرے۔
پاکستان کی قیادت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ امریکہ اور چین کے درمیان توازن کیسے قائم کرے ب

پاکستان کا مستقبل تین بڑے عوامل پر منحصر ہے
اگر پاکستان اپنی معیشت کو مضبوط کرتا ہے تو وہ امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ زیادہ برابری کی سطح پر بات کر سکے گا۔ اگر امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی مزید بڑھی تو پاکستان کے لیے نیوٹرل رہنا مشکل ہو جائے گا۔
پاکستان کو ایک واضح طویل مدتی خارجہ پالیسی اپنانا ہوگی، ورنہ وہ ہمیشہ "ادھر ادھر" جھولتا رہے گا۔ 
Wajid aziz
About the Author: Wajid aziz Read More Articles by Wajid aziz: 10 Articles with 11295 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.