جب پاکستان بنا تو اس وقت صرف پاکستان ہی تھا۔ اور
اس میں رہنے والے اپنے آپ کو پاکستانی قوم ہی شمار کرتے تھے۔ لیکن اب چاروں
صوبوں کے لوگ اپنے آپ کو پاکستان کا نہیں بلکہ اپنے اپنے صوبے کا فرد خیال
کرتے ہیں۔ سندھ میں رہنے والے اپنے آپ کو پاکستانی نہیں سندھی کہلانے پر
فخر محسوس کرتے ہیں۔ پنجاب والے پنجابی ہیں اور بلوچستان والے بلوچی شمار
کیے جاتے ہیں۔ ہمارے تعصب کی مختلف شکلیں ہیں اور ہم نے علاقائی زبانوں کو
اہم سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ ہم رنگ و نسل اور زات پات کے اس قدر پابند ہو
گئے ہیں کہ اس محدود سوچ سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ چونکہ اسلام ایک مکمل
ضابطہ حیات ہے لہذا اس نے رنگ اور خون کے اعتبار سے پیدا ہونے والے ہر قسم
کے فخر کو ختم کر دیا ہے۔
ہمارے ہاں صوبہ پرستی کا موجودہ نظریہ انگریز حاکموں کی حکمت عملی کا نتیجہ
ہے۔ انگریز حکمرانوں نے متحدہ ہندوستان کو نہ صرف مختلف صوبہ جات میں اراضی
کے اعتبار سے تقسیم کیا بلکہ اس نے ہمیشہ کوشش کی کہ ان صوبوں کے لوگوں میں
صوبائیت کی بنا پر آپس میں نفرت پیدا کی جائے اور ان کے دلوں کو جدا کر دیا
جائے۔ بعض دشمن اور خود غرض سیاستدان بھی اپنے سیاسی مفاد کے لیے صوبائی
تعصبات کے فتنوں کو ہوا دیتے ہیں۔ بعض اوقات علاقائی زبانوں کو بھی صوبہ
پرستی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اس کے
علاوہ ہر علاقے کی اپنی اپنی بولی اور ثقافت ہوتی ہے۔ اس بات کو یوں سمجھنا
چاہیے کہ جیسے ایک گل دستے میں رنگا رنگ پھول سجے ہوتے ہیں اور ہر پھول کی
اپنی خوشبو ہوتی ہے۔مختلف زبانیں اور ثقافتیں آپس میں اتحاد پیدا کر کے ملک
کی ایک بہت بڑی طاقت بن سکتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم علاقائی تعصب کا شکار
ہو کر ایک دوسرے کو مٹانے کے درپے ہوتے ہیں۔
صوبہ پرستی کے زیر اثر لوگ ایک دوسرے کے حقوق پر ہر طرح سے قبضہ جمانے کی
کوشش کرتے ہیں اور ملک میں ہر طرف ایک خود ساختہ قسم کی لوٹ مار کا بازار
گرم ہو جاتا ہے۔ یہ لوٹ مار صرف عوام کی زندگیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس
کا بڑا مرکز حکومت کا ادارہ ہوتا ہے۔ یہاں سیاستدان اپنے ہاتھ خوب رنگتے
ہیں اور صوبہ پرستی کے نام پر کئی ایسے کام کر جاتے ہیں جو مجموعی طور پر
ملک اور قوم کے لیے نقصان دہ ہوتا ہیں۔
حالاں کہ دنیا میں صرف پاکستان ہی نہیں اور بھی بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں
رنگ و نسل، زات پات اور زبان کے لحاظ سے مختلف قومیں آباد ہیں مگر اس ظاہری
تفریق کے باوجود ملک صدیوں سے ایک ہیں اور متحد ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں کبھی
سندھو دیش، کبھی گریٹر بلوچستان اور پختونستان کا نعرہ لگتا ہے۔ الگ الگ
صوبوں کے نعرے ملک کی اجتماعیت کو ختم کرنے کے لیے ہوتے ہیں، جو ہمارے لیے
تباہ کن ہیں۔ ہمیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ مشرقی
پاکستان کی علیحدگی میں بھی دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ صوبائی عصبیت کار فرما
تھی۔
پاکستان کو قائم ہوئے ایک عرصہ ہو چکا ہے لہذا اس وقت تک تو ہمیں ایک ہو
جانا چاہیے تھا اور ہم بجائے بلوچی،سندھی،پنجابی اور سرحدی ہونے کی بجائے
صرف اور صرف پاکستانی ہوتے۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہے اور ہم
اسلام کے آفاقی نظریے کو چھوڑ کر زبان کے جھگڑے ابھارتے رہتے ہیں۔ ہم ایک
دین، ایک خدا اور ایک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ماننے والے ہو کر بھی
آپس میں متحد ہونے کی بجائے اختلاف و انتشار کا شکار ہیں۔
صوبہ پرستی کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سے ملک کی ترقی رک جاتی ہے
کیونکہ ملکی و قومی طاقت چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور یہ
انتشار بڑی بڑی حکومتوں کو تہس نہس کر دیتا ہے۔ یہ نفسا نفسی کا عالم قومی
اتحاد کو ختم کر دیتا ہے۔ صوبہ پرستی کی ایک یہ لعنت بھی ہیکہ لوگ حکومت کے
ہر شعبے میں اپنا اپنا حصہ قابلیت کی بناہ پر نہیں بلکہ اپنے اپنے صوبے کے
نام پر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے یہ نقصان ہوتا ہے کہ لائق اور
ذہین لوگ صرف اس لئے حکومت میں نہیں لیے جاتے کہ ان کی جگہ پر دوسرے صوبہ
کے نالائق لوگوں کو ان کے صوبے کے نام پر منصب دینے پڑتے ہیں۔ اس سے نظام
حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ اسے دوسرے لوگ بھی مایوسی کا شکار
ہوتے ہیں۔ اجتماعیت ختم ہونے کی بناہ پر ملک کی طاقت کو دیمک لگ جاتی ہے
اور ایسا ملک جلد یا بدیر کسی غیر ملک کی طاقت بن جاتا ہے۔
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور مملکت اسلامی کے طور پر دنیا میں جانا
پہچانا جاتا ہے۔ اس لیے صوبہ پرستی پاکستان میں مسلمانوں کو ہر گز زیب نہیں
دیتی کیونکہ اسلام کی نگاہوں میں تمام مسلمان یکساں اور آپس میں بھائی
بھائی ہیں۔ صرف صوبوں ہی کے نہیں بلکہ ساری دنیا کے تمام ملکوں کے آپس میں
بھائی بھائی ہیں۔ مگر آج کل مسلمان اسلامی اصولوں سے روگردانی کی وجہ
صوبائی عصبیت اور صوبہ پرستی کی لعنت کا کار ہیں۔
ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں، اس کی محبت کو ہر چیز پر
مقدم رکھیں۔ قومی تعصب، صوبائی عصبیت اور صوبہ پرستی کے رحجانات سے کوسوں
دور رہتے ہوئے وطن عزیز سے محبت کا ثبوت دیں۔ اسی میں ہماری بقا ہے۔۔۔ |