“کیا پاکستان میں بڑے ڈیم بنا وقت کی ضرورت ہے”



“کیا پاکستان میں بڑے ڈیم بنا وقت کی ضرورت ہے”


انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ

پاکستان میں جب بھی سیلاب کی صورتحال ہوتی ہے پھر ہماری عوام اور حُکمرانوں کو ڈیم کی ضرورت یاد آتی ہے اس وقت موجودہ سیلابی صورت حال کی آڑ لے کر ایک مخصوص لابی یہ ڈیم مخالف جذبات ابھارنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ ڈیم سیلاب کو نہیں روک سکتے ۔ میری رائے میں تو جو بندہ ایسی عامیانہ بات کرتا ہے شائد وہ ڈیم کے کام کرنے کی سائنس سے نابلد ہے.

‎ورلڈ کمیشن آن لارج ڈیمز کے ڈیم رجسٹر کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں بنائے گئے ڈیموں کی کل تعداد 58,000 سے زائد ہے جس میں سے آدھے سے زیادہ ڈیم صرف ہمارے دو پڑوسی ملکوں چین اور ہندوستان میں ہیں۔ جی ہاں 24,000 سے ذائد ڈیم چین میں اور 4،400 سے زائد انڈیا میں ہیں.

‎پاکستان کے ڈیموں کی تعداد 500 بھی نہیں بنتی جس میں اصلی نسلی بڑے ڈیم ایک درجن بھی نہیں اور ہمارے ہاں ڈیم نہ بنانے کی تحریک کئی دہائیوں سے چل رہی ہے اور ہمیں ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں امریکہ میں ڈیم ختم کرنے کی مثالیں دی جاتی ہیں جس نے خود 10,000 سے شاید ڈیم بنا رکھے ہیں۔

دنیا میں ‎کوئی بھی بڑا ڈیم کثیر المقاصد ہوتا ہے۔ ڈیم کا بنیادی کام پانی کو ذخیرہ کرنا ہوتا ہے جسے بعد ازاں آب پاشی اور زراعت، بجلی بنانے ،صنعتی اور گھریلو استعمال ، ماحولیاتی بہتری ، ماہی گیری ، سیاحت اور زیر زمین پانی کی سطح بلند کرنے کے کام میں لایا جاتا ہے۔

‎ان مقاصد کے ساتھ ساتھ ڈیم مفت میں سیلاب کا زور توڑنے کا کام بھی کرتا ہے اور ایک سے زیادہ ڈیم اوپر نیچے ہوں تو وہ سیلاب کا سارا پانی ذخیرہ کرکے سیلابی کی وہ تباہی روک لیتے ہیں جو اگست کے مہینہ میں کے پی کے اور پنجاب کے علاقوں میں ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے.

‎دنیا کے ہر ڈیم خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، اس کے ڈیزائن کا بنیادی مقصد ہی پیچھے سے آنے والے بڑے سیلابی ریلے کا زور توڑ کر اسے چھوٹے کمزور ریلے میں بدل کر آگے بھیجنے کے اصول پر بنایا ہوتا ہے اور اگر دریائی گزرگاہوں پر اوپر تلے ایسے ڈیم بنا دئے جائیں تو بڑے سیلابی ریلے اپنی موت آپ مر جاتے ہیں ۔ ٹیکنیکل زبان میں اسے فلڈ راوٹنگ یا پھر فلڈ پیک اٹینوایشن کہتے ہیں.

دنیا نے دیکھا ‎امریکہ کی معیشت ہوور ڈیم کے بعد ہی سنبھلی اور ہمارے پڑوسی ملک چین نے سنبھلتے ہی دنیا کا سب سے بڑا تھری گور جز ڈیم کے نام سے بنایا اور تو اور ( ہمیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے افریقہ کے قحط زدہ ملک ایتھوپیا نے سنبھلتے ہی دریائے نیل پر میکینئیم ڈیم بنا دیا ہے)۔ صرف یہ ایک ڈیم 6,000 میگاواٹ تک بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو کہ تربیلا ڈیم سے بہت زیادہ ہے۔

‎پاکستان میں بارشیں سال کے صرف تین مہینوں میں آتی ہیں مگر اب جس طرح موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارش جس طرح سے برس ہے اور سیلاب جس طرح سے تباہی پھیلا رہے ہیں. اس سے ہمارے حُکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے سوچنا تو پڑے گا مگر اب پاکستان کے پاس بالکل ٹائم نہیں ہے .

ہم نے بہت وقت سیاست وہ تختے اُلٹنے اور بیٹھا نے میں ضائع کردیے اب ہمیں وہ سب کچھ کرنا ہے جو ملک اور عوام کے مُستقبل کے لیے بہتر ہے. پاکستان کے کسانوں کو اپنی فصلوں کو سارا سال پانی چاہئے ہوتا ہے۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کے فرق کو صرف اسٹوریج سے ہی پورا کیا جا سکتا ہے لہذا پاکستان جیسے زرعی ملک کے لئے تو ڈیم زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے.

عمران خان کے دورِ حکومت میں مہمند ڈیم سمیت 10 دیگر چھوٹے آبی ذخائر کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا تھا جن کی تکمیل 2028 تک متوقع ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق 25 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ آبی ذخائر ناکافی ثابت ہوں گے۔

ڈنڈے کے زور پر آپ کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا سکتے ھیں. اس کے لیے آپ کو پنجاب میں جو دریا ستلج /بیاس/راوی/جہلم یا جو بھی ھیں ان پر بھی مخصوص جگوں پر چھوٹے ڈیم بنا سکتے ھیں ویسے بھی یہ دریا چھ ماہ سے زیادہ خشک ہی رہتے ہیں ان پر بآسانی ڈیم بن سکتے ھیں.

رہی بات کالا باغ ڈیم کی پاکستان میں جب بھی نئے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے ذہنوں میں کالا باغ ڈیم کا ہی نام آتا ہے، جو کہ اپنی تعمیر کے آغاز سے قبل ہی متنازع ہو کر اب تک صرف فائلوں کی زینت بنا رہا ہے۔ اس سے قبل کہ اس بات کا جائزہ لیں کہ اس ڈیم پر کیا تنازعات ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ کالا باغ ڈیم منصوبہ ہے کیا؟

مجوزہ کالا باغ ڈیم میانوالی میں کالا باغ کے مقام پر بننا ہے۔ اس مقام پر دریائے سندھ ایک قدرتی ڈیم کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس کے اطراف پہاڑیوں کا سلسلہ ہے اور دریا کے آگے صرف ایک دروازہ لگا کر اسے ڈیم کی شکل دی جاسکتی ہے۔

اس ڈیم کے لیے پہلا سروے برطانوی حکومت نے 1873 میں کیا تھا، قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل قائداعظم کی اجازت سے فروری 1948 میں میانوالی کے مقام پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ تعمیر کیا گیا جسے جناح بیراج کہا جاتا ہے ایوب دور میں دیگر آبی منصوبے تعمیر کیے گئے لیکن کالا باغ کا منصوبہ کاغذات کی حد تک رہا جس پر جنرل ضیا الحق کے دور میں کام شروع ہوا لیکن وہ بھی اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ پاسکا.

سابق صدر ضیا الحق کے دور حکومت میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی بنائی گئی جس نے 1983 میں رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق ڈیم کی اونچائی 925 فٹ، پانی کی اسٹوریج 6.13 ملین ایکڑ فٹ ہوگی، 50 لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کرے گا اور سستی ترین 5 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اس کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ 5 سال اور کم سے کم 3 سال کا عرصہ لگ سکتا تھا۔ اسی دور حکومت میں کالا باغ کے منصوبے کی تعمیر کیلیے دفاتر تعمیر کیے گئے، روڈ بنائے اور مشینری لگائی گئی۔ لیکن پھر کئی دہائیاں گزر گئیں اور یہ سب کچھ اب تباہ و برباد ہوچکا ہے۔

کالا باغ ڈیم منصوبے پر تنازع اور اس کے بعد اب تک اس کی تعمیر نہ ہونے کا مسئلہ! جب کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا تو برطانیہ سے ایک ٹیم نوشہرہ آئی جس نے سیٹلائٹ ایمیجنگ کے لیے علاقے میں عمارتوں کی چھتوں پر نشانات لگائے تاکہ ریسرچ اسٹڈی مکمل کرکے تعمیر شروع کی جاسکے، جس کے بعد نوشہرہ ڈوبنے کی جھوٹی افواہ اڑائی گئی۔ یوں پاکستان دشمنوں کو یہ جھوٹا پروپیگنڈہ مفت میں مل گیا اور اسی کی آڑ میں سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنا شروع کردیا گیا، اور اس کے بعد لسانی جماعتوں نے ان افواہوں کو اپنے سیاسی جلسوں و ریلیوں میں کیش کراتے رہے تب سے یہ افواہیں پھیلنا شروع ہوئیں کہ کالا باغ ڈیم بنا تو صوبے کے شہر نوشہرہ، چارسدہ، صوابی، مردان اور پبی ڈوب جائیں گے، اس کے ساتھ ہی سندھ نے کہنا شروع کردیا کہ اس ڈیم کے بننے سے سندھ بنجر ریگستان میں تبدیل ہو جائے گا۔

ضیا دور میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) نے اعتراض اٹھایا کہ اس ڈیزائن سے نوشہرہ ڈوب جائے گا، اعتراض دور کرنے کیلیے ڈیم کی اونچائی کم کر کے 925 سے 915 فٹ کردی گئی، اس صوبے کی بات مانی گئی تو سندھ نے اعتراض کر دیا کہ پنجاب سندھ کو پانی کا حصہ نہیں دے گا۔ اس اعتراض کو دور کرنے کیلیے صوبوں کو پانی کی تقسیم کے قابل عمل معاہدے پر راضی کیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق دریائے سندھ سے پنجاب 37 فیصد، سندھ 33، کے پی کے 14 اور بلوچستان 12 فیصد پانی لیں گے۔

یہ دو بڑے اعتراضات دور کرنے کے بعد بھی بات آگے نہ بڑھی اور کالا باغ ڈیم منصوبہ وقت کے ساتھ ساتھ تیکنیکی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن گیا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے ساتھ قوم پرست جماعتوں نے قومی مفاد کی آڑ میں ذاتی سیاست چمکانے کے لیے اس کا نام استعمال کر کے یہ ڈیم نہیں بننے دیا اور جنرل ضیا بھی کالا باغ ڈیم بنانے کا خواب لیے دنیا سے چلے گئے۔ 1999 میں اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرویز مشرف نے کالا باغ سمیت چھ بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ڈیم نہیں بنائیں گے تو مرجائیں گے لیکن طاقت ہونے کے باوجود وہ بھی اس خواب کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔

دنیا بھر کے ماہرین یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ اس ڈیم سے نوشہرہ اور مردان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس سے سندھ کی زمینیں بھی متاثر نہیں ہوں گی۔ وہ یوں کہ کالا باغ ڈیم کا سب سے اونچا حصہ 915 فٹ ہے یعنی ڈیم مکمل بھر بھی جائے تو کسی شہر کو نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ ڈیم سے نوشہرہ کا نچلا ترین حصہ 25 فٹ بلند، چار سدہ کا نچلا ترین حصہ 40 فٹ، پبی کا 45 فٹ، مردان کا 55 اور صوابی کا نچلا ترین حصہ 85 فٹ بلند ہے۔ جو کالا باغ ڈیم کی بلند ترین سطح سے کہیں زیادہ اونچے ہیں اور ان کے ڈوبنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ماہرین کے مطابق میانوالی جہاں یہ ڈیم بننا ہے سطح سمندر سے 688 فٹ بلند ہے جب کہ نوشہرہ کی بلندی 889 فٹ بلند ہے، ڈیم کی تعمیر سے کل 27 ہزار 500 ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا، جس میں پنجاب کا کل رقبہ 24500 ایکڑ پنجاب جب کہ کے پی کے کا صرف 3 ہزار ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا یعنی یہ ڈیم بنا تو نقل مکانی کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی پنجاب سے ہی ہوگی۔

اس وقت پاکستان کے تین بڑے ڈیمز تربیلا، منگلا ڈیم اور چشمہ بیراج کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 13 ملین ایکڑ فٹ جب کہ کالا باغ تنہا چھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرسکتا ہے، 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب، سالانہ 15 ارب ڈالر کی زرعی پیداوار ملے گی جب کہ زرعی اجناس میں ملک خود کفیل ہوجائے گا۔ صرف یہی نہیں درآمدات میں کمی اور برآمدات کے اضافے کے ساتھ ایک لاکھ افراد کو روزگار میسر آئے گا۔ ڈیم کے قریبی علاقوں میں درجۂ حرارت میں کمی واقع ہو گی۔

کے پی کے اور پنجاب کے جنوبی علاقے سندھ کے زیریں اور بلوچستان کے مشرقی حصے ڈیم کے پانی سے قابل کاشت بنائے جاسکتے ہیں۔ کے پی کے، کے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، لکی مروت، ٹانک، ڈی آئی خان کو مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی، سندھ کو اضافی 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملے گا، جس سے سندھ کے ریگستانی علاقوں کی پیاس بجھ سکتی ہے اور 8 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوگی۔ بلوچستان کو اس سے 15 لاکھ ایکڑ پانی اضافی مل سکتا ہے، مشرقی بلوچستان کا سات لاکھ ایکڑ رقبہ اضافی سیراب ہوسکے گا۔

پاکستان میں جو بھی حکومت آئی، اُس نے یہ کہا کہ کالا باغ ڈیم ضرور بننا چاہیے کیونکہ یہ قومی مفاد میں ہے، لیکن جیسے ہی اس منصوبے کی بازگشت شروع ہوتی ہے تو اس کے مخالف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر احتجاج، دھرنوں، دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور شاید ڈیم کے مخالف حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہیں کہ تمام حکومتوں نے اُن کے آگے سر جھکایا اور اس پر عمل درآمد سے باز رہیں۔ پاکستان کے تین صوبے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف کئی متفقہ قراردادیں پاس کر چکی ہیں۔ بلوچستان کا براہ راست اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں مگر صوبے کا یہ موقف ہے کہ چونکہ وہ اپنا پانی صوبہ سندھ سے لیتے ہیں، اس لیے معاملے میں سندھ کے موقف کی تائید کریں گے۔

سیاسی اور علاقائی مخالفتوں کے علاوہ اس منصوبے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ وہ عالمی قانون برائے تقسیم آب ہے جس کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصے پر موجود فریق کا یہ قانونی اور قدرتی حق ہے کہ اس تک پانی کی ترسیل ممکن رہے اسی وجہ سے دریائے سندھ کے آخری حصے پر موجود فریق یعنی صوبہ سندھ کی مرضی کے بغیر اس کی تعمیر ممکن ہی نہیں، البتہ اس قانون میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق دریا کے پانی کو استعمال میں نہیں لاتا تو بند کی تعمیر ممکن بنائی جاسکتی ہے۔

پانی کے ضیاع کے حوالے سے آبی ماہرین کہتے ہیں کہ 2010 کے سیلاب میں پانی کا بہاؤ 100 ملین ایکڑ فٹ تھا جو 12 خالی ڈیموں کو بھرنے کے لیے کافی تھا، ہر سال 35 ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹری بیراج سے گزر کر سمندر میں چلا جاتا ہے اس سے کالا باغ جیسے 6 ڈیم بھرے جاسکتے ہیں۔

یہاں یہ سوچنے کی بات ضرور ہے کہ دریائے سندھ پر ڈیم بنانے پر کچھ ملک گیر سیاسی جماعتیں اور کچھ قوم پرست یک زبان ہو کر اس کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ڈیم کو تین صوبوں کو بنجر بنانے کا منصوبہ قرار دے کر اسے متنازع بنا دیا جاتا ہے لیکن بھارت نے پاکستان میں داخل ہونے والے دریاؤں پر 14 ڈیم بنائے اور مزید بنانے جا رہا ہے، جس پر یہ جماعتیں کوئی آواز بلند نہیں کرتیں اور ان کو چُپ سادھ جاتی ہے کیا وہاں سے ہنگامی صورت میں پانی پاکستان میں نہیں داخل ہوتا؟ اس پر یہ سیاسی جماعتیں اور قوم پرستوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا یہ کُھلا تضاد نہیں اپنے مُلک پاکستان کے لیے جس کو اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے بڑے ڈیم بنانا اشد ضروری ہے نہیں تو ان موسمیاتی تبلیوں اور گلیشیر پگھلنے سے اس خطہ میں جس ملک کو سب سے زیادہ ہر سال نقصان ہوئیگا وہ پاکستان اور اس ملک میں رہنے والے وہی غریب پاکستانی جن کو یہ سیاسی جماعتیں اور لسانی جماعتیں ورغلا کر جزباتی تقریر و نعرے لگاکے روڈوں پر لاتی ہیں دھرنے دلوائے جاتے ہیں مگر ان بیچاروں کو کیا پتہ جو ان کے لیڈران ہیں ان کی دولت و اولادیں تو مغرب میں اپنی آمجگاہ بنالی ہیں یہ تو کبھی بھی ملک سے چلے جایں گے تم عوام اور تمھاری آنے والی نسلیں کیا اس ہی طرح افریقہ کے قحط زدہ علاقوں جیسی صورتحال میں آئندہ ادوار میں رہے سکیں گی.

اس وقت دنیا میں جن ملکوں کی پانی زخیرہ کرنے گنجائش ہے ان امریکا کی پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد 900 دن ہے۔ آسڑیلیا کی 600 دن اور بھارت کی 170 دن ہے جب کہ پاکستان کی صرف 30 دن کی ہے اور منگلا تربیلا بالترتیب اپنی 20 سے 35 فیصد پانی ذخیرہ کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ اس لیے کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ کیونکہ پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو ’پانی کی شدید قلت‘ کا سامنا ہے جس کے لیے سنجیدہ بنیادوں پر فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں اس وقت ایک بڑا ڈیم دیامر بھاشا زیرتعمیر ہے دیگر چھوٹے ڈیموں‌ کے منصوبے فورا کام شروع کردینا چاہیے لیکن اس سے ملک میں‌ پانی کی ضرورت پھر بھی پوری نہیں‌ ہوسکتی اور یہ آبی وسائل ناکافی ہیں۔ اس لیے اب ہمیں کالا باغ ڈیم کی طرف بڑھنا چاہیے اور اس کے لیے فورا ہنگامی بنیادوں پر قومی سطح‌ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تمام تر مصلحتیں بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں پاکستان کی ترقی کی سوچ کے ساتھ اس حوالے سے آگے بڑھنا ہو گا اور جب تک اس کا کوئی حل نہیں نکلتا ہمیں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ تیز کرنا ہوگا۔

کیونکہ پاکستان کے پاس اب وقت نہیں رہا اس وقت پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے لیکن پاکستان اس کلائمیٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ ماہرین ارضیات اور موسمیات اس حوالے سے پیشگوئی کرچکے ہیں کہ ہر آنے والے برسوں میں مون سون مزید شدت اختیار کرے گا، دوسرے معنوں میں زیادہ تباہی لائے گا۔ اب یہ مسند اقتدار پر براجمان سیاست دانوں اور بااختیار افراد اور اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ سنجیدگی سے ملک اور قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے آگے بڑھیں اور کالا باغ سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی جائے۔

پاکستان میں بھی ایسی مناسب جگہیں ہیں جہاں دنیا کے سب سے بڑے ڈیم تھری گور جز سے بھی بڑا ڈیم بن سکتا ہیں لیکن ایسے مواقع کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔عالمی فنڈنگ ادارے بھی ایسے منصوبوں کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں جب کہ ہمارے پڑوس میں وہ ایسے منصوبوں کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں۔

اب یہ مسند اقتدار پر براجمان سیاست دانوں اور بااختیار افراد اور اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ سنجیدگی سے ملک اور قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے آگے بڑھیں اور کالا باغ سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی جائے۔

‎ سوال یہ نہیں کہ کیا ڈیم سیلاب کو روک سکتے ہیں ؟
‎بلکہ
‎ اصل سوال یہ ہے کہ سیلاب کو روکنے کے لئے ہم کثیر تعداد میں ڈیم کیوں نہیں بناتے؟ وہ کون لوگ ہیں جو پانی کی کمی پیدا کرکے ہمارے زرعی معیشت کی کمر توڑناچاہتے ہیں اور پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے ہر سال مون سون میں پاکستان تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے

اگر اب بھی ذاتی خواہشات اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی مفاد میں فیصلے نہیں کیے تو ہمارا جو انجام ہو گا،

پھر ہمارا نام بھی نہیں ہوئیگا داستانوں میں



 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 482 Articles with 303267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.