بھارت کی ریاستی دہشتگردی

1990میں بھارت نے اپنے آئین کی دفعہ 356کی آڑ لے کرکشمیر میں صدر راج نافذ کیا ۔ پارلیمنٹ نے’’ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ ‘‘(افسپا)نامی کالا قانون منظور کیا جوایک سپاہی کو جنرل کے اختیارات دینے اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا باعث بنا۔افسپا کی شق 4کے تحت ایک بھارتی فوجی کسی بھی کشمیری کو شک کی بنیاد پرجب چاہے گولی مار کر شہید کرسکتا ہے۔گزشتہ 30سال سے کشمیریوں کی نسل کشی جاری ہے۔کشمیر میں آج1990سے بھی زیادہ سنگین حالات ہیں۔بھارتی فورسز نے نہتے اور معصوم عوام کا قتل عام، پے در پے گرفتاریاں، چھاپے، تشددمیں اضافہ کر دیا ہے۔بھارتی فوجی سر عام لوگوں کے گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔ گاڑیوں اورمکانوں کی کھڑکیاں شیشے توڑ رہے ہیں۔ گھروں پر اور مظاہرین پر پیلٹ، پاوا، مرچی گیس، زہریلے ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو پکڑ کر چوراہوں پر ان پر تشدد ہو رہا ہے۔اہلکارتعلیمی اداروں میں گھس کر طلباء وطالبات پر ڈنڈے برساتے ہیں اور شیلنگ کرتے ہیں۔بھارتی فورسز کشمیریوں کے خلاف تمام وحشیانہ حربے آزما رہے ہیں۔ بھارتی پالیسی ساز حقائق کا سامنا کرنے سے خوف زدہ ہیں۔ اس وجہ سے کشمیریوں کے جذبات روز افزوں مشتعل ہو رہے ہیں۔ بھارت کی نسل کشی پالیسی اس کی بڑی وجہ ہے۔ وادی کشمیرمیں مزید گمنام اور اجتماعی قبریں دریافت ہورہی ہیں۔جن میں دفن کشمیریوں کو بھارتی فوجیوں نے فرضی جھڑپوں میں شہید کر کے دہشت گرد اور درانداز قرار دیا تھا۔جنگ بندی لائن پر بھی مزیددرجنوں گمنام اجتماعی قبروں کا پتہ چل رہاہے۔جبکہ بھارتی فوجیوں کی حراست میں گمشدہ کشمیریوں کی تعداد15ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس قت مقبوضہ وادی میں یتیم بچوں کی تعداد دو لاکھ ہے ۔ چالیس ہزار بیوائیں ہیں۔ان میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔نیم بیوہ خواتین بھی ہزاروں ہیں۔

کشمیر میں بھارت کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے کے پاداش میں نوجوانوں کی زبان بند ی کی گئی ہے۔ سر عام نوجوانوں پر تشدد اور وحشیانہ سلوک اسی کی کڑی ہے۔لاتعداد کم سن بچے انٹروگیشن مراکز اور جیلوں میں ہیں۔ ایک ایسا ملک جو جمہوریت کا دعویدار ہے۔ وہاں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی ایک مثال یہ ہے کہ کشمیر میں پورے بھارت سے لاکھوں ہندو یاتری امرناتھ کے درشن کے لئے پہنچتے ہیں۔ان کو حکومت کی طرف سے مکمل سکیورٹی اور سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔اس کے برعکس وادی کشمیر میں لوگوں کو پرامن جلوس نکالنے اور اجتماع کی اجازت نہیں۔سید علی شاہ گیلانی سمیت متعدد حریت رہنما مسلسل گھروں میں نظر بند ہیں۔محمد یاسین ملک پولیس سٹیشن میں قید ہیں۔مسلمانوں کے خلاف کرفیو اور دفعہ 144کا ہی سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ ان پرمشین گنوں اور بندوقوں، پیلٹ اور پاوا بندوقوں کے دھانے کھول دینا معمول بن چکا ہے۔پر امن اور نہتے لوگوں کو گرفتار کر کے کال کوٹھریوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔بھارت کی جیلوں اور انٹروگیشن سنٹرز میں ہزاروں کشمیری سڑ رہے ہیں۔افسپا،ٹاڈا اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کشمیریوں کو سالہاسال تک بغیر کسی ٹرائل کے قید میں رکھا جا رہا ہے۔

پاک بھارت مذاکرات ڈیڈ لاک کے شکار ہیں۔ مگر ماضی میں مذاکرات کے دوران بھی اور ڈیڈ لاک کے عرصہ میں بھی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا نشانہ کشمیری بنتے ہیں۔ ان پر بھارتی فورسز کے مظالم تیزہو جاتے ہیں۔گو کہ کشمیریوں کو پاکستان سے دور کرنے کی پالیسی بھارت کی پہلی ترجیح ہے۔مگر اس سے کشمیری نئی دہلی سے مزید کنارہ کش ہو رہے ہیں۔ گذشتہ ماہ اسلام آباد میں نیم رانا نامی سلوگن کے تحت بیک ڈور ڈپلومیسی کے لوگ جمع ہوئے۔مگر یہ بھارت کی دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ بات چیت اور ان نام نہاد مذاکرات کا کشمیریوں کو اب تک کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ جس وقت اسلام آباد میں بھارتی حکمرانوں کا ریڈ کارپٹ استقبال ہوتا ہے اور گارڈ آف آنر پیش کیا جا تا ہے، عین اس وقت بھارتی فوجی اندھا دھند فائرنگ کر کے کشمیریوں کو شہید اور معذور کررہے ہوتے ہیں۔بھارت کا ماضی گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات،اعتماد سازی ،دوستی اور تجارت کے آڑ میں کشمیریوں کا قتل عام کیا۔پاکستان کو اگر چہ اندرونی اور بیرونی مسائل کا سامناہے۔ مگر سب سے زیادہ خطرہ بھارت کی جانب سے ہے۔ اس کے جاسوس افغانستان میں سرگرم ہیں۔کلبھوشن یادو کی طرح ایران سے بھی یہ پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں۔بھارت اس خطے کے ام و سلامتی کے لئے بڑا خطرہ بن رہا ہے۔ اس کا نشانہ سی پیک بھی ہے۔ سی پیک کی روٹ بھارتی فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں ہے۔ جب کہ اس علاقے میں بھارت کا جبری قبضہ ہے۔ بھارتی قبضے کو ختم کرنے اور سی پیک کی کامیابی کے لئے پاکستان کے پاس بیک وقت سیاسی، سفارتی، معاشی اور عسکری محازوں پر کام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان میں سول اور عسکری سمیت تمام سٹیک ہولڈرز اداروں کا تمام باہمی اختلافات بھول کر ایک پیج پر آنا بنیادی شرط ہے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485887 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More