متاثرین سانحہ بارہ مئی انصاف کے منتظر

پاکستان اپنے قیام کے بعد سے بڑے بڑے سانحات سے گذرا اور تاریخ میں سیاہ باب رقم ہوئے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی معاشی شہ رگ کو کمزور کرنے کیلئے بھی مختلف اوقات میں ہمہ اقسام کی سازشوں نے سانحات کو ناقابل فراموش بنا دیا۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، چائنا کٹنگ، رشین کٹنگ، پارکوں، میدانوں پر قبضے، اغوا برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائم جیسے واقعات نے روشنیوں کے شہر کو کھنڈرات اور تاریکی کا شہر ِ ناپرساں بنا دیا ہے۔اہل کراچی کو پاکستان کی بقا و سلامتی کے لئے ملک دشمن عناصر نے کئی غم دیئے ہیں۔ اہل کراچی کو کبھی لسانیت، کبھی نسل پرستی تو کبھی فرقہ وارنہ خانہ جنگی کا اکھاڑہ بنانے کی کئی بار کوشش ہوچکی ہیں۔ باشعور عوام کے تاریخی امیج کو برباد کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ ان گنت سانحات میں 12 مئی2007کا سانحہ ایک ایسا دلسوز داغ بن چکا ہے کہ اس رستے زخم پر گیارہ برس گذر جانے کے باوجود مرہم نہیں رکھا جاسکا۔12 مئی کا سانحہ اہل کراچی کے لئے ہر برس ایک خوف کی علامت کی صورت میں سامنے آتا رہا ہے۔ جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے شہر میں 12مئی کے سانحے پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ تو کی جاتی رہی ہے لیکن اس سانحے کے ذمے داروں کو ابھی تک کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔ سانحہ 12مئی اُس وقت رونما ہوا جب ججز بحالی تحریک کے لئے پاکستان کی عوام و وکلا ء ملک بھر میں احتجاج کررہے تھے۔ وطن عزیز میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے مختلف شہروں کے دوروں اور بار کونسل سے خطابات پر کراچی کے شہریوں کی طرح بربریت و سفاکیت کے ریکارڈ قائم نہیں ہوئے۔حاکم وقت کی جانب سے کراچی میں اُس وقت نسلی قتل و غارت اپنے عروج پر پہنچی جب معزول چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری، سندھ ہائی کورٹ بار سے خطا ب کے لئے کراچی کے ائیر پورٹ پہنچے اور انہیں شہر میں داخل ہونے اور بار کونسل سے خطاب سے روک دیا کہ آپ واپس چلے جائیں۔ یہی وقت تھا جب ججز بحالی کی تحریک اپنے عروج پر پہنچ رہی تھی اور سیاسی جماعتوں نے ارباب ِ اختیار کے خلاف پُر امن احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہوا تھا۔ کراچی آمد کے موقع پر معزول چیف جسٹس آف پاکستان کے استقبال کے لئے سیاسی جماعتوں نے کراچی ائیر پورٹ پر استقبال کا پروگرام ترتیب دے دیا تھا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی اپنے کارکنان کی ریلیوں کی قیادت کررہی تھیں۔ عین اسی وقت ایم کیو ایم نے بھی تبت سنیٹر پر ریلی و جلسے کا اعلان کردیا۔ لیکن یہ ریلی و جلسہ چیف جسٹس کے استقبال کے لئے نہیں بلکہ کراچی میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرے کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔کراچی میں لسانی کشیدگی اُس نہج پر نہیں تھی کہ گلی کوچوں میں نہتے و بے گناہ انسانوں کو بے سبب لسانیت کے نام پر قتل کردیا جاتا تھا۔ ایم کیو ایم اُس وقت سابق صدر پرویز مشرف اور چوہدری شجاعت حسین کی اتحادی حکمران جماعت تھی۔ ایم کیو ایم کے پاس سندھ کے وزرات داخلہ کے مشیر کا قلم دان تھا۔ شہر کراچی میں ہائی کورٹ جانے والے تمام راستوں کو رات گئے ہی کنٹینرز لگا کر بند کردیا گیا تھا۔ استقبال کے لئے جانے والی سیاسی ریلیوں کے لئے روٹ میں بھی رکاؤٹیں کھڑی جا چکی تھیں۔ ائیر پورٹ سے سندھ ہائی کورٹ کے راستے کو مکمل طور پر سیل کیا جاچکا تھا۔ تاہم سیاسی جماعتوں نے تہہ کرلیا تھا کہ افتخار محمد چوہدری کو سندھ ہائی کورٹ بار کونسل ضرور لے جایا جائے گا۔ سندھ کی انتظامیہ سابق چیف آف پاکستان کو کراچی سے واپسی کے لئے دباؤ ڈال رہی تھی اور انہیں مجبور کیا جا رہا تھا کہ وہ واپس چلے جائیں۔ جواز بنا یا گیا کہ شہر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ان کی سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔ لیکن معزول چیف آف پاکستان مصر تھے کہ کسی بھی صورت براستہ سڑک اپنے مقررہ مقام تک جائیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ انہیں ہیلی کاپٹر سے لے جانے کی بھی پیش کش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اس پیش کش کو اس لئے مسترد کردیا کیونکہ انہیں شک تھا کہ ہیلی کاپٹر میں انہیں کراچی سے فضائی راستے کے ذریعے واپس بھیج دیا جائے گا۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے کارکنان کو متحرک قائدین نے اپنے اپنے علاقوں سے نکلنے والی ریلیوں کی قیادت کی اور ریلیوں میں سب سے آگے رہے، پارٹی پرچموں کے ساتھ ہزاروں سیاسی کارکنان روایتی انداز میں کراچی ائیر پورٹ کے لئے روانہ ہونا شروع ہوئے۔ کراچی کا میڈیا اُس وقت مکمل یرغمال نہیں ہوا تھا اس لئے تقریباََ تمام میڈیا ہاؤسز نے ریلیوں اور جلسوں کی کوریج کے خاص انتظامات کئے ہوئے تھے۔اورمعزول چیف آف پاکستان کے متوقع خطاب کے علاوہ سابق صدر پرویز مشرف کا عوامی جلسے میں باوردی خطاب اور ایم کیو ایم کے جلسے کی کوریج کا بھی خاص اہتمام کیا گیا تھا۔شاہراہ فیصل پر کراچی ائیر پورٹ پر جانے کے راستے میں کئی فلائی اوور آتے ہیں، جس میں ایف ٹی سی بلڈنگ، بلوچ کالونی اور شاہ فیصل کالونی پر واقع ٹریفک پل بھی راستے میں تھے۔ لیکن ایف ٹی سی اور بلوچ کالونی فلائی اوور تھے اور ان ریلیوں کو ان فلائی اوور کے نیچے سے گذر کر جانا تھا۔ قیامت صغری تھی کہ جب سیاسی جماعتوں کی ریلیاں ان فلائی اوور کے نیچے سے گذرنے لگی تو ان فلائی اوورز کے ساتھ قائم بلڈنگوں اور فلائی اوورز پر لسانی جماعت کے جھنڈے لہراتی موٹرسائیکل سواروں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ اسنائپر شوٹرز نے سیاسی رہنماؤں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جس میں کئی رہنما شدید زخمی ہوئے اور پھر اس بربریت کو پاکستان کے میڈیا نے براہ راست دیکھانا شروع کردیا، ایک پُر امن ریلی اور سیاسی کارکنان پر مشتمل سیاسی کارواں کو نشانے پر رکھ دیا گیا۔ پی پی پی اور اے این پی کے معروف رہنما فائرنگ کا نشانہ بنے اور اُس دن قیامت صغری میں 52سے زائد سیاسی کارکنان جاں بحق اور 150سے زائد زخمی ہوگئے۔کئی جگہوں پر مسلح تصادم بھی ہوئے کیونکہ ریلی میں شریک سیاسی رہنماؤں کے سیکورٹی گارڈز نے دہشت گردوں کو جواب دینا شروع کردیا تھا۔ اس تمام عمل کو خاص لسانی تناظر میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جارہا تھا۔ اُس وقت ایف ٹی سی بلڈنگ فلائی اوور، بلوچ کالونی شاہراہ فیصل اور شاہ فیصل کالونی کے علاوہ گرومندر(نمائش) پر واقع ایک نجی نیوز چینل ایف ٹی سی فلائی اوور کے سامنے نجی سندھی نیوز چینل کو دہشت گردوں کی سرگرمیاں براہ راست دکھانے پر نشانے پر رکھ لیا گیا اور پوری عمارت پر اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنانا شروع کردیا، نجی نیوز چینلز نے ایک ایک دہشت گرد کے چہروں اور ان کی قابل مذمت کاروائیوں کو براہ راست راست نشر کیا۔ کئی دوسرے نجی نیوز چینل بھی سانحہ بارہ مئی کی براہ راست کوریج کررہے تھے تو دوسری جانب حکمراں جماعت ان واقعات کی تردید اور لاعملی کا اظہار کررہی تھی، سابق صدر وردی میں اپنے مکے لہرا کر کہہ رہے تھے کہ یہ ہے ان کی عوامی طاقت۔سانحہ باہ مئی کی ذمے داری لسانی جماعت پر عائد کی گئی اور اُسے ہی ذمے دار قرار دیا گیا۔ اسی جماعت کے کارکنان نے میڈیا ہاؤسز میں جاکر دہشت گردی کی تمام فوٹیج کو زبردستی چھین کر ضائع کیا تاہم کراچی میں بیٹھے کچھ اینکرز نے قیامت صغریٰ کی فوٹیج کو اسلام آباد لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن اُس وقت کراچی پر اس قدر خوف طاری کردیا گیا کہ میڈیا ہاؤسز کے کارکنان اور مالکان شدید ہراس کا شکار ہوچکے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے تین روزہ ہڑتال کا اعلان کرکے حکمراں لسانی جماعت کو آگ بگولہ کردیا۔ اس ضمن میں اے این پی کی مرکزی قیادت نے کراچی کا ہنگامی دورہ کیا اور ایک ایک ہلاک و زخمی ہونے والے کارکن کے گھر گئے۔ اور صوبائی قیادت کو سختی سے منع کیا کہ وہ اتنے بڑے سانحے کے بعد کراچی کی عوام کو مزید کسی پریشانی میں مبتلا نہ کریں۔ کیونکہ ڈر تھا کہ اگر ہڑتال کی کال ہوتی ہے تو اس میں مزید جانی و مالی نقصانات بھی ہونے کا خدشہ ہے۔ پہلے ہی کافی جانی و مالی نقصان ہوچکا تھا۔ حکومت نے جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے لئے مالی امداد کا اعلان کیا تو بہت کم تھا۔ اس لئے پختون لویہ جرگہ کے پلیٹ فارم سے فنڈ اکھٹا کرکے اے این پی نے اپنے کارکنان کی مالی مدد کی۔ لیکن رقم چاہے کروڑوں میں ہو کسی بھی قیمتی جان کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ پی پی پی، اے این پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے سانحہ بارہ مئی کے ذمے داروں کے خلافقانونی کاروائی اور انصاف کا مطالبہ کیا۔ لیکن کراچی کی اعلیٰ عدلیہ میں لسانی جماعت کی جانب سے اتنی ہنگامہ آرائی کی گئی کہ آج بھی بارہ مئی کے متاثرین کو انصاف نہیں مل سکا۔ ایم کیو ایم اُس وقت25 برس سے اقتدار میں تھی، ایم کیو ایم نے سابق چیف آف پاکستان کو کراچی کا دورہ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ پی پی پی اور اے این پی نے افتخار محمد چوہدری کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔بارہ مئی کا وہ دن ایک قیامت کا ایسا دن تھا جس میں سیاسی کارکنان کو ٹارگٹ کرکے نشانہ بنایا جارہا تھا اور ان سیاسی کارکنان کو اپنی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں مل رہی تھی۔ گاڑیوں کے نیچے تو کبھی کسی کے گھر میں تو کبھی منی بسوں کی سیٹوں میں جان بچانے والوں کو بربریت کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ سانحہ بارہ مئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا شکار ہوگیا اور جب بھی سانحہ بارہ مئی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے تعزیتی جلسے کا اعلان کیا جاتا۔ ماہ مئی بے گناہ اور نہتے بے قصور انسانوں کی ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوجاتا۔ کئی برسوں تک اس میں اتنی شدت آچکی تھی کہ سانحہ بارہ مئی میں اتنے کارکنان جاں بحق نہیں ہوئے جتنے سانحہ بارہ مئی کو منانے کے اعلان کے بعد نہتے افراد کو دہشت ھردی کا نشانہ بنا دیا جاتا۔ سینکڑوں بے گناہوں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان دیگر ججز کے ساتھ بحال ہوگئے اور اہل کراچی نے امید باندھ لی کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جو اس موقع کے جشم دید گواہ و متاثر بھی تھے۔ سانحہ بارہ مئی کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے لیکن ان کے از خود نوٹس ائیر پورٹ میں بیگ سے نکلنے والی غیر ملکی شراب پر تو جاری ہوتے لیکن سانحہ بارہ مئی پر ان کی ریٹائر منٹ اور اس کے بعد بھی سانحہ بارہ مئی کا کیس ری اوپن نہیں ہوسکا۔ یہاں تک کہ سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ نے سانحہ بارہ مئی کیس کی ساعت سے معذرت کر لی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ میں سانحہ بارہ مئی از خود نوٹس کیس ری اوپن کرنے کے معاملے کی ساعت کو بینچ کے سربراہ نے کیس سننے سے انکار کر دیا تھاچیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ سانحہ بارہ مئی کے متاثرین میں شامل ہوں کیس نہیں سن سکتا۔ 148میرے ڈرائیور نے ا س پر بیتنے والی روداد لکھی تھی147۔ آج بھی اہل کراچی کا یہ کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کی توہین سمیت مشہور ایشوز پر ایکشن لے لیتی ہے اور چند دنوں میں فیصلہ ہوجاتا ہے آخر کیا وجہ ہے کہ گیارہ برس گذر جانے کے باوجود سانحہ بارہ مئی کا مقدمہ سرد خانے میں پڑا ہے۔ گو کہ سانحہ بارہ مئی کے کئی ملزمان گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ ملزمان اقرار جرم کرچکے ہیں۔ اپنے سرپرستوں کے احکامات پر اپنے جرم کا اعتراف بھی کرچکے ہیں لیکن سانحہ بارہ مئی کی فائل انصاف کے تاریک گوشوں میں دھول میں اٹی پڑی ہے اور سانحہ بارہ مئی کے شہدا کو انصاف دلانے والا دور دور تک نظر نہیں آتا۔سندھ اسمبلی میں سانحہ بارہ مئی کے حوالے سے مذمتی قرارداد منظور کی تھی۔ قرادادسینئر وزیر نثار کھوڑو نے قرارداد ایوان میں پیش کی تھی۔ اپنے خطاب نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ نہتے لوگوں کو مارا جا رہا تھا اور پرویز مشرف اسلام آباد میں مکے اٹھا اٹھا کر اپنی طاقت کا اظہار کر رہا تھا، کراچی 12 مئی کا داغ کبھی نہیں بھول پائے گا۔بارہ مئی 2007 کراچی کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین دن میں شمار ہوتا ہے۔ معزولی کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آ مد پرشہر میدان جنگ بنا۔شہر کی شاہراہوں پر خطرناک اسلحے کا آزادانہ استعمال دیکھنے میں آیاجس کے نتیجے میں 52 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے،150 سے زائد زخمی ہو گئے، درجنوں گاڑیاں اور املاک نذر آتش کردی گئیں۔ایک طرف یہ سب کچھ ہوتا رہا اور دوسری طرف اسے روکنے کے لیے پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ سامنے نہیں آیا۔معزول چیف جسٹس ایئرپورٹ سے باہر نہیں نکل سکے اور انہیں شام کی فلائٹ سے واپس جانا پڑا۔سانحہ 12 مئی کو 11 سال گزر گئے ہیں،سانحہ میں سیاسی رہنماؤں سمیت درجنوں ملزمان کو مقدمات میں نامزد بھی کیا گیا اور گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں، جن میں سے کچھ ضمانت پررہا تو متعدد مفرور ہیں۔سانحے میں اپنے پیاروں کو کھودینے والے آج بھی قاتلوں کے کیفر کردار تک پہنچنے کے منتظرہیں۔رواں برس بارہ مئی کے حوالے سے انصاف کی فراہمی کے لئے دبی چنگاری ایک بار پھر شدت سے اُس وقت سامنے آئی جب پشتون تحفظ موومنٹ نے پشاور، لاہور جلسوں کے بعد کراچی میں بارہ مئی کے دن ہی جلسے کا اعلان کردیا۔سانحہ بارہ مئی کئی سیاسی جماعتوں اور اہل کراچی کی دکھتی رگ ہے۔ پرانے زخم پھر تازہ ہوگئے او ر عام انتخابات میں عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے لئے کئی برس تک خاموش رہنے والی جماعتوں نے اسی دن عوامی جلسوں کا اعلان کردیا۔ اے این پی نے باچا خان مرکز، پی پی پی نے بلدیہ اور تحریک انصاف نے بھی اُسی جگہ جلسے کا اعلان کردیا جہاں پی پی پی اعلان کرچکی تھی۔ جلسے کے لئے باقاعدہ ریلی بھی نکالی گئی۔ اے این پی کی ہمیشہ خواہش رہی کہ نشترپارک میں انہیں جلسہ کرنے کی اجازت دی جائے لیکن انتظامیہ نے اے این پی کی صوبائی انتظامیہ کو نشتر پارک میں جلسے کرنے کی اجازت کبھی نہیں دی۔ جبکہ نشتر پارک میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے جلسے ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اے این پی کے لئے خاص نکتہ نظر برتا گیا۔پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین اپنے متنازعہ بیانات اور ریاستی اداروں کے خلاف سخت موقف رکھنے کے سبب انتہائی متنازعہ ہوچکے ہیں۔ اس لئے سانحہ بارہ مئی کے حوالے سے کراچی میں جلسے کا اعلان پر عوامی حلقوں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ خاص طور پر سوات میں جس طرح پاکستانی پرچم پر پابندی کا افسوس ناک واقعہ چند عناصر کی وجہ سے سامنے آیا۔ اس کے بعد متنازعہ تحریک کے خلاف عوام اپنی نا پسندگی کا اظہار کرچکے ہیں اور باقاعدہ یہ مہم بھی چل رہی ہے کہ اگر منظور پشتین نے کراچی میں جلسہ کیا اور انتظامیہ نے اجازت دی تو کراچی کی عوام پاکستانی جھنڈوں کے ساتھ جلسہ گاہ جا ئے گی۔ لہذا ان خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کراچی جو کئی عشروں پر امن کی راہ پر چل نکلا ہے۔ ملک دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لئے ایک بار پھر لسانی چپقلش کو ہوا دے سکتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک بار پھر لسانی نعروں نے اہل کراچی کے غم و غصے میں اضافہ کردیا ہے کہ لسانی سیاست کے نام پر کراچی کو کرچی کرچی کرنے والے ایک بار پھر قبرستانوں کو اپنے کارکنان کی لاشوں سے بھرنے کے لئے مکروہ سیاست شروع کررہے ہیں۔ جس کا نتیجہ پہلے بھی بھیانک نکلا تھا اور اگر ان کی اشتعال انگیز تقاریر و جلسوں میں ماضی کی روش کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے دوبارہ استعمال کیا گیا تو اس کے نتایج خطرناک نکل سکتے ہیں۔ اس بار بھی اے این پی ایک چھوٹے سے اسکول گراؤنڈ میں رسمی تعزیتی جلسہ کررہی ہے۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی گلشن اقبال میں مقام جلسہ پر تصادم نے کراچی کی سیاسی فضا پھر مکدر رہی۔ اس سے قبل پی پی پی بلدیہ میں جبکہ پی ٹی آئی مزار قائد میں جلسہ کا اعلان کرچکی تھی۔ تاہم تصادم کے بعد دونوں جماعتوں نے اپنا شیڈول تبدیل کرلیا۔منظور پشتین کاا علان لاہور کے جلسہ میں سب سے پہلے کرچکا تھا۔پی ٹی ایم کے وفد نے اے این پی کی صوبائی قیادت سے جلسے کی تاریخ پر نظر ثانی کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اسی طرح اس متنازع تحریک نے سرکردہ رہنما یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ کراچی جلسے کے بعد عام انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ بھی کیا جائے گا۔ اس حوالے سے لسانی ووٹ کے حصول کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کی جا ئے گی اس سمت کا بھی تعین ہوسکے گا۔تاہم سانحہ بارہ مئی کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو جلسوں سے زیادہ اُن نامزد ملزمان کے خلاف قانونی کاروائی اورسانحہ بارہ مئی کے ذمے داروں کے تعین کے لئے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے گریز کرنا چاہیے۔ اس وقت عدلیہ آزاد ہیں۔ میڈیا بھی فعال ہے اور ماضی کے مقابلے میں صوبائی اور وفاقی حکومت پر کسی ایسی تنظیم کا کوئی ایسا دباؤ بھی نہیں ہے جس میں مفاہمت کی پالیسی اپنا کر سانحہ بارہ مئی کے متاثرین کو انصاف فراہم نہ کیا جاسکے۔ جانی نقصانات کا کچھ مدوا تو کردیا گیاتھا لیکن آج تک املاک و گاڑیوں کے نقصانات کا ازالہ نہیں کیا گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ سانحہ بارہ مئی پر کئی برسوں سے صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی روش کو ختم کرکے عملی اقدامات کریں اور ان گیارہ برسوں میں کس جماعت نے کیا کوشش کی اس سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔ اگر سیاسی جماعت اپنا کردار کماحقہ ادا کرتی تو شمالی مغربی سرحدوں سے کوئی متنازعہ تحریک اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے کراچی میں سانحہ بارہ مئی پر سیاست نہیں کرتی۔ ہمیں اس حوالے سے اپنے کردار پر نظر ِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہی ہم سب کے لئے بہتر ہے۔
 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744072 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.