لفظ حکمت کی وضاحت
حکمت کالفظ قرآن مجید میں متعدد معانی کے لئے استعمال ہواہے جیسے علم ،عقل،حلم
و بردباری ،نبوت اور اصابت رائے۔
ابوحیان کاقول ہے کہ حکمت سے مراد وہ کلام ہے جس سے لوگ نصیحت حاصل کریں
اور ان کے دلوں پر مو ثر بھی ہو اور جس کو لوگ محظوظ ہوکر دوسروں تک
پہونچائیں۔
ابن عباس نے فرمایا:حکمت سے مراد عقل و فہم اور ذہانت ہے ۔
بعض دیگر حضرات نے فرمایا:علم کے مطابق عمل کرناحکمت ہے ۔(معارف القرآن ،مفتی
محمد شفیع جلد ۷ صفحہ ۳۵تا۳۶طبع ادارۃ المعارف ،کراچی ،پاکستان )
نوٹ :ترجمہ کی تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ یہ روایت تفسیر انوارالبیان میں بھی
موجود ہے اور ذہانت کے لفظ کی جگہ سمجھداری کا استعمال ہواہے ۔
علامہ راغب اصفہانی نے روح المعانی میں تحریر کیاہے کہ اس سے مراد موجودات
کی معرفت اور اچھے کام کرناہے ۔
رازی نے کہاکہ علم کے مطابق عمل کرنا مراد ہے اور بعض دیگر حضرات کا کہناہے
کہ علم او ر عمل دونوں کی پختگی مراد ہے ۔(تفسیر انوار البیان ،محقق ،محمد
عاشق الٰہی جلد۴ صفحہ ۳۳۹طبع دارالاشاعت اردو بازار ،ایم اے جناح روڈ ،کراچی
پاکستان )
جناب لقمان نبی تھے یاحکیم ؟
حضرت لقمان کا نام قرآن مجید کی سورہ لقمان کی دو آیات میں آیاہے ۔آیا آپ
پیغمبر تھے یا صرف ایک دانا اورصاحب حکمت انسان ؟قرآن کریم میں ا س کی کوئی
وضاحت نہیں ملتی لیکن اس کا لب ولہجہ اس بات کی طرف نشاندہی کر رہا ہے کہ
وہ پیغمبر نہیں تھے جیساکہ اکثر مورخین نے اس کی تائید کی ہے ۔لیکن بعض
حضرات جیسے عکرمہ،اسدی اورشعبی وغیرہ ان کی نبوت کے قائل ہیں ۔(تفسیر فیضان
الرحمٰن مفسر الشیخ محمد حسین نجفی جلد ۷ صفحہ ۳۳۱طبع ثناء پریس سر گودھا)
عام طور پر پیغمبروں کے بارے میں جو گفتگو ہوتی ہے اس میں رسالت ،توحید کی
طرف دعوت ،شرک اورماحول میں موجود بے راہ روی سے نبرد آزمائی،رسالت کی
ادائیگی کے سلسلے میں کسی قسم کی اجرت کاطلب نہ کرنا،نیز امتوں کوبشارت
وانذار کے مسائل وغیرہ دیکھنے میں آتے ہیں ۔جبکہ آپ کے بارے میں ان مسائل
میں سے کوئی بھی بیان نہیں ہوا ہے ۔صرف ان کے پند و نصائح بیان ہوئے ہیں۔جو
اگر چہ خصوصی طور پر تو اپنے فرزند کے لئے ہیں لیکن ان کامفہوم عمومی حیثیت
کا حامل ہے او ر یہی چیز اس بات پر گواہ ہے کہ وہ صرف ایک مرد حکیم و
داناتھے،جو حدیث پیغمبر گرامی سے نقل ہوئی ہے اس طرح درج ہے ۔
’’حقا اقول لم یکن لقمان نبیاولکن کان عبداکثیرالتفکر،حسن الیقین،احب اﷲ
فاحبہ ومن علیہ بالحمکۃ‘‘ سچ تو یہ ہے کہ لقمان پیغمبر نہیں تھے بلکہ وہ اﷲ
کے ایسے بندے تھے جو زیادہ غور وفکر کیاکرتے تھے ۔ان کاایمان و یقین اعلیٰ
درجہ پر فائز تھا ۔خداکو دوست رکھتے تھے اور خدا بھی ان کو دوست
رکھتاتھااور اﷲ نے انہیں اپنی نعمتوں سے مالامال کردیا تھا ۔(تفسیر نمونہ
زیر نظر آیۃ․․․ناصر مکارم شیرازی جلد ۹صفحہ ۴۳۱ناشر مصباح القرآن ٹرسٹ )
’’و عن سعید بن مسیب․․․اعطاہ اﷲ الحکمۃومنعہ النبوۃ‘‘
اﷲ نے ان کو اگر چہ نبوت نہیں عطاکی لیکن حکمت و دانائی سے حصہ وافر عطا
فرمایاتھا ۔(تفسیر ابن کثیر بحوالہ قصص القرآن ․․․)
’’والمشھور عن الجمھور انہ کان حکیما ولیا ولم یکن نبیا‘‘
اور جمہور کا مشہور قول ہے کہ لقمان خداکے ولی اورحکیم ودانا تھے لیکن نبی
نہیں تھے ۔(قصص القرآن ،تالیف محمد حفظ الرحمان ،جلد ۳اور۴ صفحہ ۴۲طبع
دارالاشاعت اردو بازار ،ایم اے جناح روڈ ،کراچی پاکستان)
بغوی نے کہاہے کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ فقیہ اور حکیم تھے لیکن نبی
نہیں تھے ۔
ابن کثیر نے قنادہ سے اس سلسلے میں ایک عجیب و غریب روایت نقل کی ہے کہ اﷲ
نے جنا ب لقمان کو اختیار دیا تھا کی نبوت لے لو یا حکمت تو انہوں نے حکمت
کواختیار کیا ۔
بعض دوسر ی روایت میں ہے کہ ان کو نبوت کا اختیار دیاگیا تھا ۔انہوں نے عرض
کیا کہ اگر قبول کرنے کا حکم ہے تو میرے سر آنکھوں پر ورنہ مجھے معاف
فرمائیں ۔(معارف القرآن ،مفتی محمد شفیع جلد ۷ صفحہ ۳۴طبع ادارۃ المعارف
،کراچی ،پاکستان ) |