جو انسان جتنا زیادہ بھاگتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ تھکتا ہے
مگر وہ اتنا ہی زیادہ حاصل کرتا ہے زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے یہ اصول
انتہائی ناگزیر ہے بے شک ایک بامقصد زندگی جس میں محنت اور مشقت جیسے فیکٹر
ہوں انسان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں ۔بامقصد زندگی سمجھنے کے
لیے مقصد کا شعور سمجھنا ناگزیر ہے اگر لوگوں کے اندر مقصد کا شعور زندہ ہو
جائے تو وہ ایک جاندار قوم کے روپ میں نظر آئیں گے اگر مقصد کا شعور ہو تو
انسان غیر معمولی محنت اور مشقت سے وہ سب کچھ حاصل کر لیتے ہیں جو ان کے
لیے بالکل غیر متوقع ہوتا ہے مقصد ہی انسان کے اندر چھپی قوتوں کو جگاتا ہے
اور اس کو ایک نیا انسان بناتا ہے بے مقصد زندگی تو انسان کو بے کار بنا
دیتی ہے ۔
حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ جب میں کسی آدمی کو دیکھتا ہوں اور وہ مجھے پسند
آتا ہے لیکن جب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتا تو وہ میری
نگاہوں میں گر جاتا ہے ۔حقیقتاّّ بے کاری اور بے مقصدیت نہایت بری چیز ہے
یہ انسان کی تمام صلاحیتوں کو کھا جاتی ہے بے کار آدمی بظاہراّّ تو زندہ
معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقتاّّ وہ ایک مرا ہوا انسان ہوتا ہے اس کے اندر وہ
تمام لطیف احساسات ختم ہو جاتے ہیں جو کسی انسان کو حقیقی معنوں میں انسان
بناتے ہیں ۔بے کار انسان محنت اور مشقت سے گھبراتا ہے لیکن زندگی کی حقیقت
یہ ہے کہ محنت ہی انسان کی عظمت کو بڑھاتی ہے اور انسان کو حقیقی معنوں میں
ایک اچھا انسان کا نام دیتی ہے۔
انگریزی کے ایک شاعر نے کہا ہے کہ جس شخص کو دنیا میں بڑا آدمی بننا ہوتا
ہے وہ اس وقت کام میں مصروف ہوتا ہے جس وقت سارے لوگ سو رہے ہوتے ہیں ۔
بل گیٹس نے کہا تھا اگر آپ غریب پیدا ہوئے ہیں اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں
ہے اور اگر آپ غریب مر گئے تو پھر آپ کا قصور ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ
انسان کو اپنی غیر معمولی محنت اور انتھک مشقت سے وہ مقام حاصل کرلینا
چاہیے جو ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہو ۔امام غزالی ؒ کا قول ہے
کہ انسان دنیا میں محنت اور مشقت کرنے کے لیے آیا ہے یہی چیزیں انسان کی
عظمت اور عزت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں ۔
محنت مقصد کی مرہونِ منت ہے مقصد کا شعور ہی انسان کے اندر محنت اور مشقت
کے جذبے کو فزوں تر کرتا ہے بڑا انسان بننے کے لیے بڑا بچہ پیدا ہونا ضروری
نہیں معمولی حیثیت سے آغاز کر کے آدمی بڑی بڑی کامیابیا ں حاصل کر سکتا ہے
بشرطیکہ وہ جدوجہد کی شرطوں کو پورا کرے بلکہ وہ انسان زیادہ خوش قسمت ہے
جن کو مشکل مواقعوں پر زندگی میں محنت اور مشقت کرنی پڑے کیونکہ مشکل حالات
عمل کا محرک ہوتے ہیں وہ انسان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کرتے
ہیں ۔
البرٹ آئن سٹائن جس نے سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کیا اس کی زندگی کا
آغاز انتہائی معمولی تھا تین سال تک وہ بولنا نہ شروع کر سکا پڑھائی میں
سست ہونے کی وجہ سے اس کے ٹیچر نے اسے یہ کہہ کر کلاس سے باہر کردیاکہ۔۔۔
Albert was a lazy dog
یعنی البرٹ ایک سست کتا ہے مگر اس واقعے کے بعد آئن سٹائن کی زندگی کا ایک
نیا دور شروع ہوااور اس کی غیر معمولی محنت اس کی اپنی شخصیت اور اس کے علم
کو شہرت کی بلندیوں تک لے گئی اسرائیل کی صدارت کی پیشکش کو ٹھکرانے والا
یہ معمولی بچہ اپنے اندر غیر معمولی صلاحیتوں کو پیدا کر کے ایک عظیم انسان
کے رتبے پر فائز ہوگیا اس نے اپنی زندگی ایک مقصد کے لیے وقف کر دی جس میں
اسے ناقابل یقین حد تک اسے کامیابی ملی۔
وہی لوگ زندگی میں حقیقی کامیابی حاصل کرتے ہیں جو دنیا کی باتوں سے بے
پراہ اور بے نیاز ہو کر صرف اپنے مقصد کے حصول کی تکمیل میں مصروف رہتے ہیں
۔کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے یہی اس دنیا کا قانون ہے جو لوگ دنیا
کے اس قانون کے ساتھ موافقت کر لیتے ہیں وہی لوگ خدا کی دنیا میں کامیا ب
ہوتے ہیں کسی جاپانی سے پوچھا گیا کہ امریکہ نے تمہارے دو بڑے شہروں کو
صفحہ ہستی سے مٹا دیا آپ کی قوم کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا اس کی کیا
وجہ ہے جاپانی نے جواب دیا کہ احتجاج کرنا کمزور قوموں کا شیوہ ہے وائٹ
ہاوس میں رکھا ہوا سونی کا ٹیلی وژن اور پینا سونک کا ٹیلی فون ہی ہماری
کامیابی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کی اس دنیا میں امکانات کی کوئی حد نہیں یہاں کسی کو
اپنے عمل کے لیے (باالفاظِ دیگر اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے) معمولی
آغاز بھی ملے اور کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے کا اصول بھی میسر آئے
تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ معمولی حالات ہی کامیابی کا مضبوط
زینہ ہے ۔تاریخ کی اکثر کامیابیاں معمولی حالات کے اندر ہی برآمد ہوئی ہیں
لہذا معمولی حالات ہی انسان کے اندر غیر معمولی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا
راستہ ہے اور انہیں غیر معمولی صلاحیتوں کو انسان اپنی عملی زندگی میں
بروئے کار لا کر شہرت کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے وہ اپنی انہیں صلاحیتوں کے
اندر محنت اور مشقت کی آمیزش کر کے اپنا نا م دنیا کے کامیاب لوگوں کی
فہرست میں شامل کرلیتا ہے۔
|