جناب لقمان کے متعلق واقعات
ایک روز ان کے مالک نے کہاکہ بکری ذبح کرو اور ان کے دو بہترین اور نفیس
ٹکڑے میرے پاس لاؤ ۔وہ دل اور زبان لے گئے ۔کچھ دنوں بعد پھر ان کے آقا نے
یہی حکم دیا اور کہا کہ آج اس کے سارے گوشت میں سے جو بدترین اور خبیث ٹکڑے
ہوں وہ لادو ۔آپ آج بھی یہی دو چیزیں لے گئے ۔مالک نے پوچھا کہ اس کی کیا
وجہ ہے کہ بہترین ٹکڑے تجھ سے مانگے توتو یہی دولایا ۔اور بدترین ٹکڑے
مانگے تو تو نے یہی لادیئے۔یہ کیا بات ہے ؟
آپ نے فرمایا:جب یہ اچھے رہیں تو ان سے بہتر کوئی جسم کا کوئی عضو نہیں اور
جب یہ برے بن جائی تو پھر سب سے بدتر بھی یہی ہیں۔(ابن کثیر ،مفسر
ابوالفداء اسمٰعیل ابن عمر ابن کثیر ،جلد ۴ صفحہ ۴۹ناشر ،فواز نیاز،مطبع
نواز پرنٹنگ پریس ،لاہور اورتفسیر ثعلبی اوربیضاوی میں یہی واقعہ سور ہ
لقمان کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔ )
ایک دن جناب لقمان دوپہر کے وقت آرام فرمارہے تھے کہ اچانک انہوں نے ایک
آواز سنی اے لقمان !کیا آ پ یہ چاہتے ہیں کہ اﷲ آپ کو زمین میں خلیفہ
قراردے تاکہ آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں؟
آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر میرا پرودگا ر مجھے اختیار دے تو میں
عافیت کی راہ کو قبول کروں گا۔کیونکہ میں جانتاہوں کہ اگر اس قسم کی ذم
داری میرے کندھوں پر ڈال دے گا تو یقینا وہ میری مدد بھی فرمائے گااور مجھے
لغزشوں سے بھی محفوظ رکھے گا۔
فرشتوں نے جبکہ وہ آپ کو دیکھ رہے تھے کہا کہ اے لقمان ! ایساکیوں ؟
انہوں نے جواب دیا:اس لئے کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنا سخت کام ترین منزل
ہے اور اہم ترین مرحلہ ہے اور ہر طرف سے ظلم و ستم کی موجیں اس کی طرف
متوجہ ہیں ۔اگر خدا انسان کی حفاظت کرے تو و ہ نجات پائے گا لیکن اگر خطا
کی راہ پر چلے تو یقینا جنت کی راہ سے منحرف ہوجائے گا اور جس شخص کاسر
دنیا میں جھکا ہواور آخرت میں بلند ہو اس سے بہتر ہے کہ جس کا سر دنیا میں
بلنداورآخرت میں جھکاہواور جو شخص دنیا کو آخرت پر ترجیح دے وہ نہ دنیا کو
پاسکے گااور نا ہی آخرت کوحاصل کر سکے گا۔فرشتہ آپ کی اس دلچسپ اور منطقی
باتوں سے متعجب ہوئے ۔آپ نے یہ بات کہی اورسوگئے ۔تب خدانے نور حکمت ان کے
دل میں ڈال دیا ۔جس وقت بیدار ہوئے تو ان کی زبان پر حکمت کی باتیں جاری
تھیں ۔(مجمع البیان مفسر شیخ طبرسی در ضمن سورہ لقمان جلد ۸ صفحہ ۳۱۶)
جناب لقمان کا ایک فرزند مصائب و آلام میں مبتلاتھااور اس کاشکوہ کیاکرتا
تھا ۔آپ جتنا بھی سمجھاتے کہ بیٹا! بھلائی اسی میں ہے لیکن وہ قبول کرنے
کوتیار نہ تھا۔آپ اس بات کی طرف متوجہ تھے کہ کوئی ایسا موقع آئے جب میں اس
نکتہ کاراز بتاؤں ۔
ایک روز آپ اپنے فرزند کے ساتھ کسی دیہا ت میں سفر کرنے کا پختہ ارادہ کیا
۔وہ دونو ں حضرات ایک خچر پر سوار ہوئے اور چلنے لگے ۔تھوڑا سا راستہ چلے
تھے کہ جانور کاپاؤں کسی وجہ سے ٹوٹ گیا اور وہ حر کت نہ کرسکا۔فرزند نے
شکایت کی ۔
آپ نے فرمایا:بیٹا !بھلائی اسی میں ہے ۔پریشا ن ہونے کی کوئی ضرورت نہیں !
اس کے بعد وہ دونو ں پیدل چلنے لگے ۔اس بار ابھی تھوڑی دور تک ہی چلے تھے
کہ فرزند کاپیر لڑکھڑایا اور اس کے پاؤ ں میں چوٹ آگئی اوروہ چل نہ سکتا۔اب
دونوں نے مجبورا اسی جگہ رات بسر کی کہ ہوسکتاہے کہ آسانی کی کوئی راہ نکل
آئے ۔بیٹا چیخنے ،چلانے اور شکوہ کرنے لگا ۔
باپ نے پھر وہی جواب دیا :بیٹا! بھلائی اسی میں ہے۔جب صبح ہوئی تودونوں کسی
قافلہ کے ہمراہ اس دیہات میں پہونچ گئے ۔(وہاں وہ لوگ )نہایت ہی برے اور
تعجب خیز منظر سے دو چارہوئے ۔یعنی مقتولین اور زمین پر پڑے ہوئے جنازے
دیکھے ۔جب ان کے مرنے کاسبب پوچھا تو لوگوں نے بتایاکہ گذشتہ شب کو دشمنوں
نے شب خوں ماراہے اور ان تمام لوگوں کو قتل کردیا ۔جناب لقمان نے اپنے بیٹے
سے کہا:اے میرے بیٹے!دیکھا ! میں نے کہاتھانا کہ بھلائی اسی میں ہے!اگر وہ
سارے مصائب وحوادث ہم پر پڑتے تو اس وقت ہم بھی انہیں مقتولین میں سے ہوتے
۔(چہل حدیث و چہل داستان صفحہ ۱۱)
ایک دفعہ مالک نے تما م غلاموں کوپھل توڑ نے کے لئے باغ میں بھیج دیا۔سب نے
پھل کھالئے ،لقمان نے انکار کردیا تو واپس آکر سب نے الٹی شکایت کردی ۔مالک
نے لقمان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ قے کی دوا دے کر سب کو قے کرائی جائے
چنانچہ ایساہی ہو ااور سب کے پیٹ سے مال حرام برآمد ہوگیااور لقمان کی عزت
میں اضافہ ہوگیا۔(انوارالقرآن ،ترجمہ وتفسیر علامہ ذیشان حید ر جوادی ،ناشر
انصاریان پبلیکیشنزقم ،ایران)
|