ہندوستان میں حالات کتنے بدل گئے ہیں، الفاظ و استعارات
میں کتنی تبدیلی آگئی ہے ، الفاظ کے معنی و مفاہیم اور اصطلاحات الٹ دئے
گئے ہیں ،سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہا جانے لگا ہے، قانون کی حکمرانی کا
مطلب کمزور اور سہارا کو ستانا رہ گیا ہے، دھاندلی کو جیت کہا جانے لگا ہے،
ملک سے غداری کو دیش بھکتی کا نام دے دیاگیا ہے۔ غنڈہ گردی، بھگوا جھنڈا
لہرانے کو نیشنلزم کا چولا پہنا دیا گیا ہے۔ماورائے عدالت قتل کو انصاف کہا
جانے لگا ہے۔ بھیڑکے ہاتھوں قتل کو شجاعت و بہادری کا لباس پہنا دیا گیا ہے۔
چور لٹیروں، ذخیرہ اندوزوں، ملک کولوٹنے والوں کو عزت بخشی جارہی ہے۔ زانی
کا ترنگا جھنڈالیکر دفاع کیا جارہا ہے۔ وکیلوں جنہیں قانون کا محافظ کہا
جارہا تھا اب وہ انصاف کی راہ میں حائل ہورہے ہیں اور وہ عدالت کے باہر
فیصلہ کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔سچ میں کتنی تبدیدلی آگئی ہے پردھان سیوک
کے ان چار برسوں میں، اس طرح کے وقعات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن ان کا گنگان
نہیں کیا جاتا تھا۔ان کا استقبالیہ جلوس نکالا نہیں جاتا تھا اسے گناہ
سمجھا جاتا تھا۔اس وقت جسے پہلے نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اسے محبت کے
ساتھ آج تخت پر بٹھایا جاتا ہے اور اقتدار کی کرسیاں سونپی جاتی ہیں،ا ن کی
جے جے جے کار ہورہی ہے، قومی ہیرو کا درجہ دیا جار ہا ہے، بابائے قوم کے
قاتل کو سرخروئی حاصل ہورہی ہے ، ان کے مندر بنائے جارہے ہیں، ان کی برسی
اور سالگرہ منائی دھوم دھام سے منائی جارہی ہے اور جو لوگ جدید ہندوستان کے
معمار، آزادی کے علمبردار،اپنی جان کی قربانی پیش کرنے میں آگے آگے رہے تھے
ان سے نفرت کی جارہی ہے اور ان کے بارے میں طرح طرح کے مفروضات کو سچ کا
جامہ پہناکر ان کی کردارکشی کی جارہی ہے۔ شیطان اور بدی کی پیروی اس حد تک
بڑھ گئی ہے کہ ایمانداری، سچ بولنا، سچ کہنا اور حق کی حمایت کرنا گناہ
عظیم ہوگیا ہے۔ پہلے بے ایمانی ، بدعنوانی اور مجرموں کے ساتھ کوئی
کھڑاہونا پسند نہیں کرتا تھا لیکن مودی حکومت کے برسراقتدارآنے کے بعد صورت
حال یہ ہوگئی ہے کہ ایسے لوگ اب فخر محسوس کرتے ہیں۔ان کو اہم اہم عہدوں پر
بٹھایا جاتا ہے۔ جتنے غنڈے، چور لٹیرے،زانی اور قاتل تھے انہوں نے ہندوؤں
کی کوئی نہ کوئی تنظیم بناکر غنڈہ گردی کی قانونی شکل دے دی ہے ۔جو وہ کچھ
رہے ہیں وہی سچ ہے باقی سب جھوٹ۔ اور کتنی تبدیلی چاہئے۔’وکاس‘ قابو سے
باہر ہوکر جس کی چاہتا ہے آبروریزی کرتا ہے، جب چاہتا ہے کسی کی زمین پر
قبضہ کرلیتا ہے، کسی کی دکان و مکان میں آگ لگا دیتا ہے، کسی کا مال لوٹ
لیتا ہے، سڑکوں پر غنڈہ گردی کرتا ہے اور لڑکیوں کو چھیڑتا ہے۔ پھر بھی کہہ
رہے ہیں کہ چار سال میں کوئی کام نہیں ہوا۔
بی جے پی کی قیادت والی قومی جمہوری اتحاد حکومت کے چار سال پورے ہونے پر
وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ان کی حکومت کے چار سالوں کے دوران ترقی
ایک مضبوط تحریک بن گئی ہے اور ہر شہری ملک کی ترقی میں اپنی شمولیت محسوس
کررہا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا، ''ہم نے اسی دن 2014 میں ہندوستان کی کایا
پلٹ دینے کا سفر کاشروع کیا۔ گزشتہ چار سالوں کے دوران ترقی ایک زندہ تحریک
بن گئی ہے اور ہر شہری محسوس کر رہا ہے کہ وہ ہندوستان کے ترقیاتی سفر میں
شامل ہے۔سوا سو کروڑ ہندوستانی ملک کو نئی بلندیوں کو لے جارہے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ عوام کی حمایت اور حوصلہ افزائی پوری حکومت کے لئے موجب
تحریک اور طاقت کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے لکھا، ’’ہم ہندوستانی عوام کی اسی
شدت اورخلوص کے ساتھ خدمت جاری رکھیں گے ‘‘۔مسٹر مودی نے اپنی حکومت کی طرف
سے کئے گئے کاموں کی تفصیلات پوسٹ کرتے ہوئے ، لکھا ہے کہ لوگوں کے حق میں
اور بہتر مستقبل کے لئے کئی فیصلے کئے ہیں ان سے ایک نئے ہندوستان کی بنیاد
بن رہی ہے۔اسی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر امت شاہ نے قومی
جمہوری اتحاد (این ڈی اے ) حکومت کے چار سال پورے ہونے پر عوامی بہبود کے
لئے غریب، پسماندہ طبقات اور محروموں کو ترقی کے مرکزی دھارے میں لانے کے
لئے وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزراء کو مبارکباد پیش کی ہے۔مسٹر شاہ
نے این ڈی اے حکومت کے چار سال پورے ہونے کے موقع پر آج کئی ٹویٹ کئے ہیں۔
انہوں نے پارٹی کے کارکنوں اور عہدیداروں کے تئیں شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا
کہ ان کی انتھک محنت کی وجہ سے حکومت کی فلاحی اسکیموں کی ساری معلومات ملک
بھر میں لوگوں تک پہنچی ہے۔، ’’گزشتہ چار سالوں میں کئی دہائیوں سے ترقی سے
دور غریب، پچھڑوں، محروموں اور کسانوں کے دروازے تک حکومت اور اس کے عوامی
بہبود کے منصوبوں کو لے جاکر تمام دنیا میں ہندوستان کا سر فخر سے سر اونچا
کرنے والی مودی حکومت کے چار سال مکمل ہونے پر وزیر اعظم نریندر مودی جی
اور ان کی کابینہ کو مبارکباد‘‘۔
یہ دونوں کی خوش فہمی کی حد تو دیکھئے، پورا ملک بے حال ہے، روزگار نہیں ہے،
انسان محفوظ نہیں ہے، امن و قانون تباہ و برباد ہوگیا ہے، بینک کا دیوالیہ
نکل گیا ہے، خواتین کی آبرو محفوظ نہیں ہے۔بیٹیاں آج انہی کے کارندوں کے
ہاتھوں مسلی اور روندی جارہی ہیں۔ بے روزگاری عروج پر ہے اور اس توجہ ہٹانے
کے لئے نوجوانوں کو مختلف سینا بناکر غنڈہ گردی کرنے کا لائسنس دے دیا گیا
ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بہار میں ہی صرف حالیہ دنوں میں ہندو ؤں کے 80 سے
زائدسینا، گوررکشک، گوابھکت اور اسی طرح کے ملتے جلتے ناموں سے وجود میں
آچکے ہیں جو صوبائی سطح سے لیکر بلاک سطح کے بے روزگار نوجوانوں کا گروہ ہے
جو آئے دن کسی نہ کسی کے نام پر انسانیت اور عورتوں کی عزت تار تار کرتے
رہتے ہیں۔ پورے ملک میں امن و قانون کا نام و نشان نہیں ہے اور رام نومی کے
علاوہ دیگر مواقع پر ملک بھر میں سیکڑوں جگہ فسادات ہوئے ہیں اور یکطرفہ
کارروائی کرتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ نے فسادی کو چھوڑ کر مسلمانوں کو
گرفتار کیا ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کی متبادل حکومت چل رہی ہے۔ ملک کے وقار
بلند کرنے کا دعوی امت شاہ اورپردھان سیوک نے کیا ہے۔ اس کا مذاق ورلڈبینک
سمیت دنیا کی ایجنسیوں نے اڑا یا ہے۔ورلڈ بینک نے ہندوستان کو ترقی پذیر
ممالک فہرست سے نکال کر ’لور مڈل انکم کٹیگری‘ میں ڈال دیا ہے۔ پریس آزادی
میں ہم 138ویں مقام پر ہیں اور دعوی ہے کہ سب سے بڑے جمہوری ملک ہونے کا ،
بھوک کے معاملے میں ہمارا مقام نیپال ، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھی اوپر
ہے اور بات کرتے ہیں ایک منٹ میں ملیا میٹ کرنے کی۔ ملک کے وقار سے متعلق
جتنے بھی سروے آئے ہیں ان میں ہندوستان اپنے سابقہ مقام سے پھسل گیا ہے۔ اس
ملک کے وقار کی بات کی جارہی ہے جہاں بھات بھات کہہ کر بچہ دم توڑ دیتا ہے۔
جہاں سرے عام لڑکیوں کی چھیڑ خانی کرکے ویڈیو گرافی کی جاتی ہے اور ایک طرح
کے مہذب سماج کو چیلنج کیا جاتا ہے کہ کچھ ہوسکے تو کرلو۔ گائے نام پر
انسانوں کو بے رحمی سے پیٹ پیٹ ہلاک کردیا جاتا ہے اور خاطی کی ہمت افزائی
کی جاتی ہے اور ان کو ہیرو بنایا جاتا ہے۔ افرازل کے قاتل شمبھو لال کی شان
میں جلوس نکالا جاتا ہے اور جودھ پور کورٹ پر قبضہ کرلیا جاتا ہے اور خاطی
کے خلاف پولیس، جج، وکیل سب تماشہ دیکھتے ہیں اور کوئی کارروائی نہیں کی
جاتی اور اپنے آپ کو سول سوسائٹی اور مہذب معاشرہ کہتے ہیں۔
گھپلے سے پاک حکومت کا دعوی کرنے والی مودی حکومت کے 4 سال کے دور میں ملک
کے بینکوں سے 90,000 کروڑ روپے سے زائد کے گھپلے ہوئے ہیں اور بینک کا غیر
فعال سرمایہ (این پی اے) تقریباً آٹھ لاکھ کروڑ ہوگیا ہے ۔ان میں صرف بپلک
سیکٹر کے بینک ہی شامل نہیں ہیں بلکہ پرائیویٹ بینک کا این پی اے بھی بڑھ
رہا ہے قرض لینے والے ارب پتی کھرب پتی ہیں جن کے پاس پیسے کی کوئی کمی
نہیں ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے آر ٹی آئی کے جواب میں کہا ہے کہ گزشتہ 4
سال کے دوران ملک کے بینکوں سے 90,000 کروڑ روپے سے زیادہ کے گھپلے ہوئے
ہیں۔ اس دوران ملک کے مختلف بینکوں سے 19000 سے زیادہ گھپلے ہوئے ہیں۔
گزشتہ 5 سالوں کے دوران ملک کے مختلف بینکوں میں ایک لاکھ کروڑ روپے کے
23ہزار سے زیادہ بینک گھپلوں کا پتہ چلا ہے۔ ریزرو بینک کے مطابق اپریل
2017 سے مارچ 2018 کے درمیان بینک دھوکہ دہی کے 5152 معاملے اجاگر ہوئے ہیں۔
دھوکہ دہی کے ان معاملوں میں28,459 کروڑ روپے شامل ہیں۔ وہیں سال 17-2016
میں 5076 بینک گھپلے ہوئے ہیں جن میں23,933 کروڑ روپے کا گھپلہ ہوا ہے۔ کل
ملاکر سال2013 مارچ سے سال 2018 مارچ تک کی پانچ سالہ مدت کے دوران ایک
لاکھ یا اس سے زیادہ کے بینک فریب دہی کے 23,866 معاملے سامنے آئے ہیں جن
میں ایک لاکھ 718 کروڑ روپے کی رقم کا گھپلہ ہوا ہے۔اسی طرح حکومت بننے کے
بعد اسکینڈل تھم نہیں رہے ہیں، ایک کے بعد ایک گھپلے مرکز کی مودی حکومت کے
اور ریاست کی بی جے پی حکومت میں سامنے آئے ہیں۔ فرضی ڈگری ہو یا گھپلہ ہو
بی جے پی کے دیگر گھپلے ۔ چھتیس گڑھ PDC گھپلہ 36000 کروڑ کا سامنے آیا تھا،
ویسے ہی ویاپم کا میگا گھپلہ جس میں50 سے زائد لوگو کی جان بھی گئی تھی اور
راجستھان کا 46000 کروڑ کا کوئلہ گھپلہ کیگ نے پکڑا ہے ۔امریکی ٹی وی کے
مطابق ہندوستان میں قتصادی نمو کی شرح اپریل سے جون کے دوران کم ہو کر 5.7
فیصد پر آ گئی جو گزشتہ تین برس کے دوران سب سے کم شرح نمو ہے۔ممبئی میں
کرائسل نامی ریٹنگ ایجنسی کے چیف اکانومسٹ ڈی کے جوشی کا کہنا تھا کہ یہ
بہت پریشانی کی بات ہے کیونکہ ہندوستانیمعیشت میں ترقی کی شرح توقع سے کہیں
زیادہ کم سطح پر آ گئی ہے۔ایک تو مودی سرکار کی طرف سے گزشتہ نومبر میں 500
اور 1000 روپے کے نوٹوں کی منسوخی کا فیصلہ ہے۔ اس وقت کہا گیا کہ اس کا
مقصد ملک میں غیر قانونی رقوم کا خاتمہ کرنا تھا۔ لیکن اقتصادی ماہرین کا
کہنا ہے کہ اس اقدام سے ملک میں کاروبار سکڑ کر رہ گیا ہے اور مالی وسائل
میں شدید قلت پیدا ہوئی ہے جس سے مالی وسائل پر انحصار کرنے والی معیشت کو
دھچکا پہنچا ہے۔اس کے علاوہ اس سال جولائی میں حکومت نے ٹیکسوں میں اصلاحات
کا اعلان کیا جس میں جی ایس ٹی میں ردو بدل کیا گیا۔ تاہم معاشی ماہرین کا
کہنا ہے کہ اس پر عملدرآمد میں سنگین غلطیاں ہوئی ہیں اور اس کے نتیجے میں
ٹیکسوں کے کئی ریٹ سامنے آنے سے کاروباری حلقوں میں افراتفری پھیلی
ہے۔ماہرین کہتے ہیں نوٹوں کی منسوخی اور جی ایس ٹی اصلاحات کے اقدامات کے
اوپر تلے آئے ہیں جن کے باعث اقتصادی نمو میں خطیر کمی واقع ہوئی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی بھلے ہی دعوی کریں کہ ان کی حکومت نے روزگار کے
مواقع پیدا کئے ہیں، لیکن حقیقت کچھ اور تصویر پیش کر رہی ہے۔ مرکزی حکومت
نے راجیہ سبھا میں قبول کیا تھاکہ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو
رہا ہے، خاص طور پر پسماندہ طبقے میں۔ وقفہ سوال کے دوران ایک سوال کے جواب
میں منصوبہ بندی کے وزیر مملکت راؤ اندرجیت سنگھ نے کہا تھا کہ مجموعی طور
پر بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ شرح دیگر پسماندہ طبقے (او
بی سی) کے لئے زیادہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق، دس گریجویٹوں میں سے ایک
بیروزگار ہے․۔گاؤں میں نوجوانوں کی بے روزگاری تقریبا 87 فیصد ہے۔ جبکہ شہر
میں یہ 28 فیصد ہے۔ جب ہم روزگار کے بارے میں بات کرتے ہیں، کل ملازمت کا
صرف 20 فیصدمعیار کے ملازمت کا حصہ ہے۔کوالٹی ملازمت کا مطلب روزگار کا
ذریعہ ہے جس میں نوجوانوں کو کم از کم اجرت اور نوکری کی حفاظت کے مقابلے
میں زیادہ سے زیادہ فراہم کرتا ہے نوجوانوں کے باقی آٹھ فیصد غیر منظم
سیکٹر میں مصروف ہیں، جہاں ملازمت کی سلامتی نہیں ہوتی ہے۔ منموہن سنگھ نے
ہندوستان کی معیشت کی تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یو پی اے
حکومت کے دوران شرح ترقی 7.8 فیصد تھی جس میں سماج کے ہر طبقہ کی شمولیت
تھی۔ مودی حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس نے عوام سے بے شمار وعدے کئے۔
لیکن کوئی وعدہ پورا نہیں کیا‘‘۔ ’’شرح ترقی گزشتہ 4 سالوں میں سب سے نچلی
سطح پر پہنچ گئی۔مودی نے وعدے تو خوب کئے اور کہا کہ 6 سالوں میں آمدنی کو
دوگنا کیا جائے گا۔ لیکن اس ہدف پر پہنچنے کے لئے ہمیں سالانہ 12 فیصد ترقی
کی شرح درکار ہے جو ممکن نہیں۔ اس لئے یہ جملہ کے سوائے اور کچھ نہیں۔‘‘
منموہن سنگھ نے ملک میں بڑھ رہی بے روزگاری کے حوالے سے کہا کہ’’مودی نے 2
کروڑ ملازمتیں سالانہ دینے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن 2 لاکھ روزگار سالانہ
بھی نہیں دی گئیں۔ اس کے علاوہ نوٹ بندی اور غلط طریقہ سے لاگو کئے گئے جی
ایس ٹی نے بھی روزگار کو بری طرح متاثر کیا۔‘‘
ایک شخص کے خواب کو پورا کرنے کے لئے ہندوستانی جمہوریت کو جو دنیا کی سب
سے بڑی جمہوری سمجھی جاتی تھی جمہورا بنادیا گیا ہے۔ ہماری جمہوریت ایک شخص
کے خواب کو پورا کرنے یا سیر سپاٹا کرنے کے لئے نہیں ہے۔ یہ عوام کی
خواہشات پورا کرنے اور خواہشات پیدا کرنے کے لئے ہے لیکن ان چار برسوں میں
جمہوریت اور جمہوری اداروں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔یہی حصولیابی اس حکومت
کی ہے۔ |