خطہ کوریا میں عالمی قوتوں کی دلچسپی کیوں۔

یہ وہی کوریا ہے جس پر جاپان نے قبضہ کرلیا تھا اور وہ جہاں وہ جنگ عظیم دوم میں چین کی طرف مسلسل پیشقدمی کر کے اپنی گرفت مضبوط کر رہا تھا اس کا بنیادی مقصد اپنے اتحادی جرمنی کی مدد کرنا تھا تاکہ روس کی یورپ کی طرف بڑھتی ہوئی فوجی پیشقدمی روکنے پر مجبور ہو جائے۔ لیکن امریکیوں نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے نہ صرف جرمنی اٹلی اور جاپان کو شکست سے دوچار کیا بلکہ جاپان کو ایٹم بم گرا کر خاک اور خون میں نہلا دیا ۔ جرمنی اور جاپان پر قابض ہو گئے کوریا کو بھی روسی اور امریکوں نے آدھا آدھا بانٹ لیا۔ جرمنی اور کوریا کی وحدانئیتات ختم کر کے انہیں دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔ اس طرح۱۹۴۵ میں ایشیا میں شمالی اور جنوبی کوریا اور یورپ میں مشرقی اور مغربی جرمنی و جود میں آئے جنگ بندی کی شرائط کے مطابق جاپان کی وحدانئیت برقرار رکھی گئی۔

اور دو خوفناک قوتیں جو دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس بھی تھیں ابھر کر سامنے آئیں۔ ایک یو ایس ایس آر (سوشلسٹ) اور دوسری امریکہ اور اسکے اتحادی فرانس اور برطانیہ( کیپٹلسٹ) دونوں قوتیں اپنے اپنے بقبضہ کئے ہوئے علاقوں میں اپنی قوت کے استحکام کے اقدامات میں مصروف ہو گئیں اور دنیا دو واضح بلاکوں میں تقسیم ہو گئی۔ماضی کے حلیف جنگ عظیم کے فوری بعد ایک دوسرے کے حریف ہو گئے اور یوں سرد جنگ کا آغاز ہوگیا۔

یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کی عسکری صلاحیتوں سے پوری طرح آگاہ تھیں برا ہ راست ٹکراؤ کی تباہ کن نتائج سے بھی آگاہ تھیں۔ دونوں قوتوں نے اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم استعمال کر کے۱۹۴۵ میں چند اقدامات کیے تاکہ براہ راست ٹکراؤ سے بچا جا سکے۔ ان میں ا پنے زیر قبضہ علاقوں سے انخلاء اور انتظام مقامی لوگوں کے حوالے کرکے ا پنی عسکری قوت کو وہاں سے نکالنا۔اسی تناظر میں ۱۹۴۷ تک دونوں قوتوں نے اقتدار ا پنی تعبیدار مقا می طور پر تیار کی ہوئی قیادت کے حوالے کر دیا اور ان شرائط پر کیا کہ ان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پابند بھی ہونگی۔امریکی بلاک نے تو اس پر عمل درآمد کیا لیکن روس نے وسط ایشیائی ریا ستوں کو جس پر اس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران قبضہ کر لیا تھا اپنی ریاست کا باضابطہ حصہ بنا لیا۔

سرد جنگ کا باضابطہ پہلا ٹکراؤ ۱۹۵۰ میں کوریا کی جنگ سے ہوا جب روسی حمایت یافتہ شمالی کوریا کی فوج نے جنوبی کوریا پر حملہ کر دیا۔ اس کا اصل مقصد امریکیوں اور ان کے حمایت یافتہ قیادت کو اپنی سرزمین سے نکلنے پر مجبور کر کے کوریا کی وحدانیت قائم کر کے ایک موثر قوت بنانا تھا جو سوشلسٹ بلاک کی حامی ہو۔ شمالی کوریا روس کے اسلحہ سے لیس جنوبی کوریا کی فوجوں کو کامیابی سے دھکیلتا ہوا جنوبی کوریا کے دارلحکومت سے صرف تیس کلو میٹر تک پہنچ گیا۔ امریکی جنوبی کوریا کے دفاع میں ناکام رہے قریب تھا کہ جنوبی کوریا کو شکست ہو جاتی جو دراصل امریکی بلاک کی شکست ہوتی۔ ایسے میں جنوبی کوریا نے اقوام متحدہ سے مداخلت کی درخواست کی جس نے فوری مداخلت کرتے ہوئے ۱۹۵۳ میں جنگ بندی کرا دی۔ اسطرح اقوام متحدہ نے امریکی بلاک کو شکست سے بچا لیا۔

جب سے آج تک دونوں قوتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں شمالی کوریا نے لمبے فاصلے تک مار کرنے والے بین البرعظمی میزائل کے کامیاب تجربے کئے اور جوہری ٹکنالوجی بھی کسی حد تک حاصل کر لی امریکہ اور یورپی اقوام تشویش میں مبتلا ہو گئی اور شما لی کوریا کی جوہری تنصیبات اور اس میں توسیع انہیں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ ان کا بس نہیں چل رہا کہ کسی بھی طرح اس کی جوہری استعداد کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اسنے بھی جنوبی کوریا کو جدید میزائل اور ہتھیار مہیا کر کے طاقت کا تواز ن برقرار رکھنے کی کوششیں شروع کر دیں اس سے دونوں حصوں کے درمیا ن ایک بار پھر جنگ کے گہرے بادل اچھا گئے۔ یہ ۱۹۵۳ کے بعد سے شدید جھڑپیں ہیں۔ ایسے وقت میں امریکہ نے جنوبی کوریا کے ساتھ فوجی مشقیں کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس کے تمام جدید ترین سے لیس بحری بیڑہ جنوبی کوریا کی مشقوں کا حصہ بننے چل پڑے ہیں۔ یہ اشتعال انگیزی میں مزید آگ بھڑکانے کا باعث ہے، ایک بار پھر دنیاکو خطرے سے دوچار کرنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ جن کے پیچھے وہی دونوں بلاکس ہیں جنہوں دنیا کو قتل و غارت اوربربادی سے دوچار کیا۔ وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ ان بلاکوں کی بالادستی کو ختم کرنے کے اقدامات کیے جائیں تاکہ دنیا کا امن بحال ہو سکے۔

اب تک کے شواہد بتاتے ہیں کہ ان دونوں بلاکوں کا بنیادی مقصد دنیا پر اپنی گرفت مضبوط رکھ کر انکے وسائل پر قبضہ اور انکی قوت کو ایک حد میں رکھتے ہوئے انکی غلامی کو برقرار رکھنا ہے۔ اور بدقسمتی سے تیسری دنیا میں اسلامی ممالک زیادہ ہیں اصل مخالف قوت یہی ہیں جو انکی بالا دستی کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس سے انہیں خوف رہتا ہے ان قوتوں نے دنیا کی انسانیت کو شدید نقصانات سے دوچار کر کے اربوں بیگناہ افراد کا قتل عام کیا ہے او ر خود ان کی سرزمین اس نعمت سے محروم ہی رہی انہیں بھی جنگ کی تباہ کاریوں کا اندازہ ہونا چاہیے کہ کارپٹ بمباری کی ہولناکیاں کیا ہوتی ہیں ایٹم بم کتنا نقصان کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد ان کو انسانی حقوق کا احترام کا سلیقہ آ ہی جائے گا۔ ورنہ یہ اسی طرح دنیا کے امن کو خطرات سے دوچار کرتے رہیں گے۔ جزیرہ نما کوریا امریکی سرزمین سے قریب ہونے سے اسے اپنے لئے خطرہ محسوس ہوتا ہے اسے اپنے ماضی میں کئے گئے اقدامات پر ممکنہ جوابی کاروائی کا ہمیشہ خوف سوار رہتا ہے۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75645 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More