حکومت سے مجھ کو پیار نہیں، دل
میں طوفان چھپائے بیٹھا ہوں.....نوازشریف
نواز شریف کا سیاسی اعلان !حکومت کا دوست نہیں پاکستان دوست کا کردار ادا
کر رہا ہوں....
حکومت کی ماضی کی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی ملک کی ایک بڑی
جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے مری میں
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دل میں طوفان چھپائے بیٹھا ہوں مجھ کو
موجودہ حکومت سے پیار نہیں اور اَب کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھ کو حکومت سے
پیار ہے اُنہوں نے اِن خیالات کے اظہار مری میں سافٹ ٹرین سروس کی افتتاحی
تقریب کے موقع پر وہاں موجود میڈیا سے کیا اُنہوں نے اپنا سینہ ٹھونک کر
اپنی جماعت کے عہدیداروں اور کارکنوں سمیت اپنے وزرا کی شان میں سیاسی
قصیدہ پڑھتے ہوئے کہا کہ میں اپنے پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں ہمارے کسی
وزیر نے کرپشن نہیں کی تھی اور ہمارا کبھی بھی حکومت کے ساتھ لین دین کا
معاملہ نہیں تھا اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے جس انداز سے یہ کہا کہ
”ملاقاتیں کرنے والے سیاست کو میوزیکل چیئر نہ بنائیں یہ فیصلہ عوام کرتے
ہیں کہ کون حکومت کرے اور کون اپوزیشن “یہ میاں نواز شریف کا وہ جملہ ہے جس
نے اُن لوگوں کے لئے سوچنے کے ہزاروں دروازے کھول دیئے ہیں جو دن کے
اُجالوں اور رات کے اندھیروں میں حکمرانوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اِس کا
جواب تو یہی لوگ دیں اور نواز شریف کو مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی
اعتماد میں لیں کہ وہ ایسا کیوں اور کس کے لئے کررہے ہیں.....؟بہرحال ! اِس
سے انکار نہیں کہ ملک میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی پاکستان
کی انھوکی اور دنیا کی پہلی حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن)نے
جس انداز سے اَب حکومت کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا ہے اِس سے جہاں عوام
میں پی ایم ایل (ن) کا وقار بُری طرح سے مجروح ہو رہا ہے تو وہیں اِسے خود
کو سنبھالنے کی بھی اشد ضرورت ہے.... ورنہ عوام آئندہ انتخابات میں ملک کی
موجودہ حکمران جماعت کی طرح دیگر کے ساتھ ساتھ اِسے بھی سائڈ لائین لگادیں
گے کیونکہ پی ایم ایل (ن) کا موجودہ حکومت کے کبھی مصالحت پسند رویہ تو
کبھی حکومت کے خلاف جارحانہ انداز روا رکھنے کے عمل سے عوام پاکستان مسلم
لیگ (ن) سے اکتاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں اور اِس کے عمل ہی کی وجہ سے ملک میں
آئندہ ہونے والے الیکشن میں اِس کے سیاسی کیریئر کو بھی شدید نقصان پہنچ
سکتا ہے کیونکہ گزشتہ دنوں خود پر اُوور کانفیڈنس کے شکار جماعت پی ایم ایل
(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے مظفر آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے
ہوئے حکومت کے خلاف جس انداز سے زہر اُگلا ہے اُس سے تو یہ اندازہ لگانا
کوئی مشکل نہیں رہا کہ نواز شریف میثاقِ جمہوریت کی ناکامی کے بعد بُری طرح
سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر اَب زرداری حکومت سے مایوس ہوگئے ہیں جب ہی
اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ موجودہ حکومت دوستی کے قابل نہیں زرداری سے دوستی
اُس دن ہی ختم ہوگئی تھی جس دن اُنہوں نے معاہدے پھاڑے تھے اور اُنہوں نے
بلاروک ٹوک یہ اعلان بھی کیا کہ اَب کوئی ہمیں فرینڈلی اپوزیشن کا نام نہ
دے بلکہ اَب تو ہم فرینڈلی پاکستان کا کردار ادا کررہے ہیں۔اور ساتھ ہی
اُنہوں نے پوری اُمید کے ساتھ یہ بھی کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)آئندہ
انتخابات میں بھرپور عوام سے مینڈیٹ لے گی۔
یہاں میرا خیال یہ ہے کہ آج پاکستان کے عوام پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ
باشعور ہوگئے ہیں اور اَب عوام خود یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہوچکے ہیں کہ وہ
ملک اور قوم کے بہتر مفادات میں کس کو اقتدار سونپیں اور کس کو نہیں
.....آج عوام کے سامنے موجودہ حکمرانوں کی بھی کارکردگی ہے تو نوازشریف کی
سیاسی بھڑکیاں بھی .....بہرکیف! ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اُس وقت
کا انتظار شدت سے ضرور کرنا چاہئے کہ جس دن عوام اپنے ووٹ سے احتساب کی
عدالت لگائیں گے۔اُس روز دوھ کا دوھ اور پانی کا پانی خودبخود ہوجائے گا۔
آج شائد ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو میرے اِس کہے پر اعتراض ہو اور
وہ اپنے دانت پیس کر اور اپنی اپنی آستیں اُوپر چڑھا کر شدید غصے کے عالم
میں چیخ بھی پڑیں مگر میں کیا کروں ....؟کہ میں یہ حق اور سچ قرطاس پر
بکھیرے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آج یقیناً پوری سترہ کروڑ پاکستانی قوم اپنے
حکمرانوں، سیاستدانوں اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے سربراہان کی اُوٹ
پٹانگ باتوں اور اِن کی جانب سے بے عمل کئے گئے وعدوں کے سیراب میں گم رہنے
کے بعد اَب وہ یہ سوچنے، سمجھنے ،کہنے اور لکھنے کے بھی قابل ہوگئی ہے کہ
ہمارے یہاں حکمرانوں،سیاستدانوں اور اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں میں سے کسی
کو بھی نہ تو ملک کی تعمیرو ترقی سے کوئی غرض اور مطلب باقی رہی رہے اور نہ
ہی کوئی قوم کے ساتھ مخلص اور دیانتدار نظر آتا ہے اور آج موجودہ حکومت کی
ناقص اور غیر تسلی بخش کارکردگی کے باعث عوامی سطح پر یہ خیال بھی
روزاَفزوں زور پکڑتا جارہا ہے کہ ہمارا ملک ِپاکستان شائد دنیا کا وہ واحد
اور عظیم ملک ثابت ہونے جارہا ہے کہ جہاں بس ہر دور میں حکمرانوں کو لولی
لنگڑی اپنی حکمرانی سے مطلب رہا اور سیاستدانوں کو ہر دورِ حکومت میں اِس
میں سے کیڑے نکالنے اور اپنی سیاستدان چمکانے سے کام رہا اور اِس کے ساتھ
ساتھ گاہے بگاہے اِنہیں تو بس اپنے اِقتدار کی کرُسی کے حصول کی فکر کھائے
رہی ہے اور جب اِنہیں بھی اپنی چالبازیوں اور جوڑتوڑ سے مسندِاِقتدار پر
اپنے قدم رنجا فرمانے کا موقع مل گیا تو پھر اِنہیں اپنی اِسی کرُسی اقتدار
کو بچانے کی فکرِ مکروہ لاحق رہی۔اِس موقع پر مجھے بشیر فاروق کا یہ شعر
کہنے دیجئے کہ جو مجھے یاد آرہا ہے اور جِسے میں اگلے سطور میں تحریر کر کے
آگے بڑھوں گا مگر اِس سے قبل یہ عرض کرنا بھی بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ
ہمارے یہاں یوں تو ہر دور میں آنے والے (ماسوائے چند ایک حکمرانوں کے جن
میں سائیں ذوالفقار علی بھٹو شہید اور شہید رانی محترمہ بے نظیر بھٹو شامل
ہیں اِن کے علاوہ) دیگر حکمرانوں کے لئے یہ عرض ہے کہ
تخت کا خواب بھی دیکھا نہ تھا جن لوگوں نے
بخت سے آج سکندر وہ بنے بیٹھے ہیں
بات کرنے کا سلیقہ نہیں آتا جن کو
قوم کا آج مقدر وہ بنے بیٹھے ہیں
اور اتفاق سے آج ایساہی کچھ اِس دورِ حکومت میں بھی چارسو ہوتا نظر آرہا ہے
کہ آج اِن مقدر کے دھنیوں کو عوام نے مسندِاقتدار سونپ دیا ہے تو تین سالوں
کے دوران یہ چکرا کر رہ گئے ہیں اور اَب تک یہ سب کے سب سوچ کے اِس گہرے
سمندر میں ہی غوطہ زن ہیں کہ وہ یہ ذمہ داری ادا کیسے کریں گے ...؟اور اِسی
کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد یہ جیسے تیسے اپنی حکومت کے تین سال تو گزار
چکے ہیں اور باقی کی مدت گزارنے کی ھیر پھیر میں مصروف ہیں اور اَب اِس
ساری صورت حال کے منظر اور پس منظر پر نظر رکھنے والی ساری پاکستانی قوم
اور اہل ِدانش (جنہیں اکثر وبیشتر ہمارے یہی حکمران سیاسی اداکار کہہ کر
اپنی سرکاری اور نجی میٹنگوں میں پکارتے ہیں ) اِنہیں بھی ِ افسوس کے ساتھ
یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ حکمران آج اپنے ہاتھ آئے اِس اقتدار کو اچھی
طرح نہ تو چلانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اَب اِس کے ساتھ اِن میں نہ ہی
اپنے خلاف کی جانے والی اندورنی اور بیرونی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے
اپنے اقتدار کو سنبھالنے کی بھی کوئی سکت ہی باقی رہ گئی ہے۔ جبکہ اَب
برسرِاقتدار اور مقدر کے دھنی ہمارے اِن حکمرانوں کی یہ کوشش بھی جاری ہے
کہ یہ اپنی حکومت کی باقی مدت یوں ہی کسی معجزے کی طرح گزار کر سُرخرو
ہوجائیں۔ مگر ملک کے باشعور عوام اِنہیں ایسا کرنے ہرگز نہیں دیں گے کہ
ہمارے یہ حکمران بغیر ملک اور قوم کے بہتر مستقبل کے لئے کچھ کئے یوں ہی
کنی کٹا کر خاموشی سے اپنی حکومت کے پانچ سال مکمل کر کے نکل جائیں۔
جب کہ یہاں میرا خیال تو یہ ہے کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہمارے ملک میں
حقیقی جمہوریت اور عوام دوستی کے دعویٰ کرنے والے حکمرانوں پر اللہ تعالی ٰ
نے اقتدار کی ذمہ داری اِن کے کاندھوں پر جب ڈالی تھی تو یہ اِس کا شکر بجا
لاتے اور اپنی حکمرانی کو بہتر ملکی مفادات اور تعمیر وترقی اور عوام کی
خوشحالی کے لئے نیک نیتی کے ساتھ ادا کرتے تو کیا وجہ تھی کہ چند دنوں بعد
ہی حکومت کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ اِس کو ناکام بنانے
میں ملک کے اندر اور بیرون ملک سازشوں کے جال بُنے جاتے (اور بعض اخباری
اطلاعات کے مطابق جن میں اِن کے اپنے بھی شامل ہیں) جس کا فائدہ سیاستدانوں
میں بالخصوص پی ایم ایل نون کے سربراہ میاں نواز شریف اور جے یو آئی(ف)
سمیت ق لیگ والوں نے بھرپور اٹھایا اور وہ بھی اَب حکومت کے خلاف کھل کر
سامنے آگئے ہیں۔جو پہلے ہی موجودہ حکومت کے خلاف تھے بس اپنے کسی نہ کسی
مفاد کے خاطر اِس کے ساتھ چپکے رہنے میں یہ سب اپنی عاقبت سمجھتے رہے مگر
یوں ہی اِنہوں نے حکومت کو کمزور ہوتا دیکھا تو یہ پیاز کے چھلکوں اور
جھاڑو کے تنکوں کے مانند حکومت سے لگ ہونے لگے اگر پی ایم ایل (ن) اور جے
یوآئی (ف) ملک اور عوام کے ساتھ صحیح معنوں میں مخلص ہوتے تو وہ بھی موجودہ
حکومت کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے مگر اُنہوں نے یہ گوارہ نہ کیا اور اِنہوں نے
ہر حکومتی اُمور میں اپنی جابجا ٹانگیں آڑانی شروع کردیں جبکہ ہونا تو یہ
چاہئے تھا کہ یہ سب جماعتیں حکومتی اُمور میں رخنہ نہ ڈالتیں بلکہ حکومت کو
اپنا اچھا یا بُرا کام کرنے دیتیں اور حکومت کے ساتھ ایک خوشگوار ماحول میں
چلتے ہوئے اِس کی اِصلاح بھی کرتے رہتے اور یوں سب کا کام بھی چلتا رہتا۔
مگر اَب یہاں مجھے یہ بھی کہنے دیں کہ اَب اِن جماعتوں کے سربراہان کو کوئی
حق نہیں پہنچتا کہ یہ ہر حکومتی کام پر تنقید برائے تنقید کا بازار کھول کر
بیٹھ جائیں اور اپنے مردہ سیاسی گھوڑوں میں روح پھونکنے کی سعی کرتے رہیں۔
جبکہ دوسری طرف یہ بھی ایک کُھلی حقیقت ہے کہ جس سے اَب نہ صرف ساری
پاکستانی قوم ہی نہیں بلکہ پوری دنیا بھی اِس بات سے اچھی طرح سے واقف
ہوچکی ہے کہ موجودہ حکومت میں خاص طور پر فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا
کرنے کا وعدہ کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے تو گزشتہ تین سالوں کے
دوران ملکی ایوانوں سمیت ملکی اور عالمی میڈیا اور اپنے جلسے جلوسوں میں
خطابات کے دوران بالخصوص صدر زرداری اور موجودہ حکومت کو جس انداز اور
غیرپارلیمانی الفاظ کے ساتھ ہدف تنقید بنا کر اپنے بغض اور کینہ پروری کا
اظہارکرتے ہوئے اپنی جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ..... پی ایم ایل (ن) کی
اِس سیاسی حربہ سازی پر پاکستانی عوام یہ بھی سوچنے پر ضرور مجبور ہوچکے
ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایسا کر کے اپنی کونسی سیاسی ذمہ داری پوری
کی ہے....؟ اور یہ اِس کا کونسا سیاسی چہرہ ہے...؟جس میں پی ایم ایل (ن) نے
ملکی سیاست کے بجائے حسبِ عادت اور روایت ہر حکومتی معاملے کو ذاتی رنگ میں
پیش کیا ہے جس سے اِس نے نہ صرف اپنا ہی وقت ضائع کیا بلکہ ہر حکومتی
معاملے میں اپنی کوئی نہ کوئی ٹانگ پھنسا کر حکومت کو اپنا اچھا یا بُرا
کام کرنے سے بھی روکنے کا عمل جاری رکھا جس پر آج بھی پی ایم ایل (ن) اپنی
پوری ڈھٹائی سے عمل پیرا ہے۔
مگر موجودہ حکومت بھی حالات کی نزاکت اور اپنے خلاف اندونی اور بیرونی طور
پر کُھلنے والے محاذوں سے بے خبر ہے اور نامعلوم کس دُھن میں مگن ہوکر ملک
میں اغیار کے اشاروں پر آرجی ایس ٹی اور فلڈ سرچارج بلوں کے فوری نفاذ کے
لئے بضد ہے جس کا فائدہ فی الوقت نہ تو ملک کو پہنچے گا اور نہ ہی ملکی
عوام تک اِس کے ثمرات پہنچ پائیں گے بلکہ اِس کا فوری فائدہ آئی ایم ایف
اور ورلڈ بینک جیسے اِ ن پاکستان دشمن عناصر کو ہی ہوگا جو پاکستان کو
قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیکھنا چاہتے ہیں اور اِس طرح وہ پاکستان میں بیجا
ٹیکسوں کے نفاذ سے اپنے قرضوں کی رقم کی وصولی چاہتے ہیں جس کے لئے اِنہوں
نے حکومت پر ٹیکسوں کے فوری نفاذ کے لئے دباؤ ڈالا ہوا ہے اَب اگر اِس
حوالے سے پی ایم ایل (ن)اور ایم کیو ایم حکومت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی
دیوار ثابت ہورہی ہیں تو اِس میں کسی کا کیا جاتا ہے۔یہاں میرا خیال یہ ہے
کہ موجودہ حالات میں صرف یہی تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ایک اچھا عمل ہے
جو ملک اور عوام کے بہتر مفاد میں نظر آرہا ہے باقی سب کام اور عمل پی ایم
ایل (ن) کے ایسے ہی ہیں جن پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں .....کیونکہ وہ بعض
مرتبہ سیاسی ہونے کے بجائے زیادہ تر ذاتی نوعیت کے معلوم دیتے ہیں۔ |