حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ’’آنحضرت ﷺ نے
فرمایا، تمام مخلوقات اللہ تعالی کی عیال ہیں اور اللہ تعالی کو اپنی
مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کی عیال (یعنی مخلوق) کے ساتھ
اچھا سلوک کرتا ہے‘‘۔خدمت انسانیت کا جذبہ سرِ راہ گرے انسان کی مدد کے لئے
قطعی یہ دریافت نہیں کرتا کہ آیا اِسکا تعلق کس مذہب، مسلک، قوم یاقبیلے سے
ہے۔اور اِس خدمتِ انسانیت،کی تعلیمات ہر مذہب میں موجود ہیں مگر اسلام جو
سلامتی اور امن کا دین ہے، میں اسکا معنی و مفہوم بہت واضح اور دائرہ کار
نہایت وسیع ہے۔
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی خوشی کی خاطر ذرا مسکرا دینا بھی
صدقہ ہے،کسی بے نشان زمین پر کسی کو راستہ بتا دینا بھی صدقہ ہے، جس شخص کی
نظر کمزور ہو اس کی مدد کردینا بھی صدقہ ہے،اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول
میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے، تم جو ایک دفعہ اللہ کی تسبیح کرتے ہو یہ
بھی صدقہ ہے کسی بھلائی کا حکم دینا بھی صدقہ ہے، برائی سے روکنا بھی صدقہ
ہے، راستے سے کانٹے وغیرہ تکلیف دینے والی چیز کا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے وہ
آدمیوں میں صلح کرا دینا بھی صدقہ ہے اور اگر تم کسی شخص کو اس کی سواری پر
چڑھنے میں مدد دو تاکہ وہ سہولت سے چڑھ جائے تو بھی صدقہ ہے(ترمذی،مسلم اور
بخاری کی احادیث کا مفہوم)۔
الحمداللہ ہمارا شمار دنیا کی اُن زندہ قوموں میں ہوتا ہے، جو سوچ و طبقات
سے بالا تر ہو کر خلقِ خدا کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہے جو دوسروں کی خوشی کو
بڑھانے اور غمی کو بانٹنے کی احساسِ ذمہ داری سے باخوبی آگاہ ہے۔کسی کے پاس
اقتدار ہے تو کسی کے پاس اقدار، کوئی انفرادی طور پر پیش پیش ہے تو کوئی
ادارے کی صورت میں۔’’اخوت فاؤنڈیشن‘‘ کے بانی و چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب
بھی ایک ایسی ہی دردِ دل رکھنے خلقِ خدا کی خدمت کے جذبہ سے سرشارشخصیت ہیں
جنہوں نے انفرادی طور پردکھی انسانیت کے چہروں پر تبسم بکھیرنے کے عزم کے
ساتھ پہلا قدم بڑھایا اور پھر یوں ہوا کہ
اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ملتے گئے قافلہ بنتا گیا
ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کے دولت کدہ میں ہونے والی اِن سے خصوصی ملاقات میں
ان کاکہنا تھا کہ پہلے ایک سوچ تھی،پھر وہ ایک انفرادی قدم بنا،پھر وہ ایک
قدم سے ایک تحریک کی جانب بڑھا،اور پھر ہم نے سوچاکہ یہ ایک تحریک کافی
نہیں بلکہ اس کے لئے ایک ادارہ ہونا چاہیے،یوں’’اخوت‘‘ کا قیام عمل میں آیا
اورپھرایک تسلسل کیساتھ اس میں وسعت آنے لگی، ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا
کہ’’اخوت‘‘ محض ایک ادارہ ہی نہیں، ایک نظریہ، ایک تصور، ایک فلسفہ،ایک فکر
اور زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی ہے ۔ڈاکٹر امجد ثاقب تعارفِ محتاج نہیں،
فلاحی و سماجی کاموں میں گراں قدر خدمات پیش کرنے والوں کی فہرست میں صف
اول کی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں،
ڈاکٹر امجد ثاقب نے فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے قصبے میں آنکھ کھولی، ایم بی
بی ایس کے بعد ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں انتظامی امور کو بڑی ہی خوش اسلوبی
سے سنبھالا،قلمی ہنرمندیوں میں بھی اپنے جوہر دیکھائے آپ کی چھ کتب بھی
ادبی حلقوں میں مقبولیت کی سند حاصل کر چکیں ہیں ۔ آپ ایجوکیشنل اینڈومنٹ
فنڈ کے وی سی،پنجاب ویلفیئر ٹرسٹ فار ڈس ایبلڈ کے ایم ڈی اور پنجاب
ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن بھی ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب
ذہنی اور نفسیاتی مریضوں کی ایک معروف غیر سرکاری علاج گاہ فاونٹین ہاؤس کی
مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔کئی فلاحی تنظیموں کے رضاکارانہ ممبر بھی
ہیں۔پنجاب رورل سپورٹ پروگرام میں بحثیت جی ایم اپنی صلاحیتوں کو لوہا خوب
منوایا، زندگی کا یہی موڑ تھا جہاں سے آپ میں ضرورت مندوں کی خدمت کا جذبہ
پروان چڑھا۔سرکار کی نوکری کو خیرآباد کہا اور ایک سوچ ،ایک جذبے ، ولولے
اور نئی لگن کے ساتھ اخوت کی بنیاد رکھی ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ
دنیا میں ایک نام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔پورے پاکستان جن میں پنجاب،
کے پی کے،بلوچستان، سندھ سمیت آزاد کشمیر، گلگت بلتستان بھی شامل ہیں اخوت
کی 250سے زائد برانچیں قائم ہوچکی ہے ۔ یہ ادارہ مرد و خواتین کے علاوہ
خواجہ سراؤں کی دیکھ بحال کے مختلف پروجیکٹس پر کام کر رہاہے۔انسانیت کی
خدمت کی تڑپ لئے یہ ادارہ مسلمانوں کے علاوہ اقلیتی مذاہب کے تعلق رکھنے
والے ضرورت مندوں کیلئے بھی پیش پیش ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے باوجود اس کے
کہ بغیر کسی پیچیدگیوں کے پچاس ہزار تک کے بلاسود قرضے فراہم کئے جاتے ہیں
اور واپسی کی شرح ننانوے فیصد ریکارڈکا حصہ ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ خیرات و صدقات کے
باوجود غربت میں کمی نہیں آئی، مثبت سوچ کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو
اعدادوشمار کے مطابق اندازہ ہوگا کہ غربت میں کمی آئی ہے ، ٹیکنالوجی میں
جدت پسندی کا رحجان آیا ہے ، لوگوں کا رہن سہن بہتر سے بہتر ہورہا ہے،کئی
ممالک کی مثالیں ہماری سامنے ہیں جہاں سو سال پہلے بہت غربت تھی مگر ریاست
نے ایسا نظام بنا دیا کہ اب غریب ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔انشاء اللہ تعالی
ہمارے معاشرے میں بھی غربت ایک نہ ایک دن عجیب گھر کی زینت بنے گی ۔
بلاسود قرضوں کی تقسیم کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ
پنتالیس فیصد قرضے خواتین استعمال کرتی ہیں ،دس ہزار سے آغاز ہوا جو اب تک
یہ رقم اربوں تک پہنچ چکی ہے، ایک خاندا ن سے سے بات شروع ہوئی اور اب
لاکھوں خاندان اِس سے مستفید ہوچکے ہیں۔اسی طرح یہ کام ایک کچی بستی سے
شروع ہوا آج چار سو شہروں میں پھیل چکا ہے۔اللہ تعالی نے ایسی برکت ڈالی کہ
چند رضا کاروں کا قافلہ تھا اورآج اس میں سات ہزار ملازم کام کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اخوت تنظیم بلا سود قرضوں اور پیشہ وارانہ رہنمائی کے
ذریعے پسماندہ علاقوں کے غریب لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد
فراہم کر رہی ہے۔مگر یہ المیہ ہے کہ پڑھے لکھے چھوٹا کام کرنا نہیں چاہتے
،جب کہ بڑی مثالیں ہیں کہ پڑھے لکھے لوگ چھوٹے کاموں سے بھی آگے بڑھے ہیں
۔سائیکل پر کپڑا بیچنے والے گارمنٹس فیکٹریوں کے مالک بن گئے۔نوکری پیشہ
ہونا ایک ایسا طرز فکر ہے جس نے ہماری ترقی کے راستے بند کر دیئے ہیں ،جبکہ
ہمارا مذہب کہتا ہے کہ دس فیصد نوکری میں ہے اور نوے فیصد کاروبار میں ۔
اخوت ایسے ہی اپنا کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔
حکومت پنجاب کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ
ہماری کسی سے کوئی سیاسی وابستگی نہیں، اخوت کے دس کامیاب سال گزرنے پر ہم
نے حکومت کو کہا کہ ایسا کوئی رول ماڈل آپ بھی پیش کریں۔اور یوں پبلک
پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت پنجاب، گلگت، آزاد کشمیر، وفاق، فاٹا، سندھ کے
ساتھ کام کیا اور کامیابی ملی۔ہم نے ہر حکومت سے دو شرائط پر کام کیا کہ
قرضے پسند ناپسند اشخاص کے انتخاب پر نہیں بلکہ خالصتاً میرٹ پر ہونگے اور
بھرتیوں میں بھی سیاسی مداخلت نہیں ہوگی، اور الحمداللہ حکومت نے اس حوالے
سے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت قانون بناتی ہے، اُس پر
عملددرآمد کرواتی ہے ایک سازگار ماحول پیدا کرتی ہے جہاں پرائیویٹ سیکٹر
میں ترقی کا حصول ممکن ہوتا ہے ،اور سول سوسائٹی نشوونما پاتی ہے،یہی وجہ
ہے کہ حکومت، سول سوسائٹی اور پرائیویٹ سیکٹر یہ تینوں مل کر کام کریں تو
معاشرہ تیزی سے ترقی کرسکتا ہے ۔
تعلیمی سیکٹر میں اپنی خدمات کے حوالے سے کہنا تھا کہ تعلیم ہے تو سائنس،
صحت، ٹیکنالوجی اور معاشرے میں بہتری ممکن ہے۔ہمیں اس پر بھی خصوصی توجہ
دینا ہے آخر کب تک ہم مغرب کے طرف دیکھتے رہیں گے اُن کے تجربات سے استفادہ
کرتے رہے گے، مسلمانوں کی تعلیم کے حوالے ایک روشن تاریخ رہی ہے ۔ کیوں نہ
ہم اُس تاریخ کو پھر سے دہرائیں پھر سے اُن نسلوں کو جنم دیں جن کی تقلید
دنیا کرے ۔ دنیا میں ہرچیز قرض ہے اور ہر نیکی کا جواب واجب ہے ۔ قرضہ حسنہ
تو تھوڑے عرصے اور تھوڑی رقم کیلئے ہے اور تعلیم طویل المدت پالیسی ہے اور
یہ بھی ایک قسم کا قرضہ حسنہ ہی ہے جو تعلیم یافتہ ہونے کے بعد ادا بھی
کرنا ہے کسی دوسرے ضرورت مند کی خدمت کرکے، اُسے تعلیم کے زیور سے آشنا کر
کے ۔ اور اِس سوچ کے ساتھ ہم یونیورسٹی کے قیام کی جانب بڑھ رہے ہیں جس میں
مخیرحضرات کا بھرپور تعاون درکار ہے ۔
ڈاکٹر امجد ثاقب کا کہنا تھا کہ مایوسی کے بجائے اُمیدکی ایک شمع روشن کرنا
ہی اخوت کی بنیاد ہے ، ہمیں انفرادی طور پر سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ کیا
ہم اپنے حصے کی خوشیاں دوسرے کو دینے کے لئے تیار ہیں کہ نہیں ،اگر ہم اپنے
حصے کی ذمہ داریوں کا احساس کریں تو معاشرہ خوبصورت سے خوبصورت تر ہوتا چلا
جائیگا۔یہ بات قابل فخر ہے کہ ہر گھر کوچے میں ایک عبدالستار ایدھی ضرور ہے
جو اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق اِس معاشرے کی خدمت کر رہا ہے ،لیکن
نظروں سے اوجھل ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے فروغِ رضاکاریت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ
سکول کی سطح پر نصابی صورت میں عملی اقدامات کرنے ہونگے، جبکہ کالج اور
یونیورسٹی کی سطح پر بھی نوجوانوں کو متحرک کرنا ہوگا، ایثار و قربانی کا
جذبہ ہر سطح پروسعت دینے سے ہی معاشرہ بہتری کی جانب بڑھے گا۔
آپ ﷺ سے بڑا رضاکار کون ہے ، آنسو پونچھے، دلاسہ دیا، ساتھ کھڑے ہوئے،ہاتھ
پکڑا،رہنمائی کی، تو اُن کی سنت پر عمل کرنا ہم پر فرض ہے ،خاص طور پر اس
بابرکت ماہِ رمضان میں ،درود شریف پڑھنا بڑی سعادت ہے، مگر بات یہاں ختم
نہیں ہوتی۔ایک مسلم معاشرے کو بے پناہ رضاکارایت کا مظاہرہ کرنا
چاہے۔انفرادی احساس اور اجتماعی احساس سے ہی خوبصورت معاشرہ کی تشکیل ممکن
ہے -
آخر میں اُنہوں نے کہا کہ بے سروسامانی کے عالم میں اخوت کا آغازہوا ،کچھ
دوست احبات اکٹھے ہوئے اور وسائل اکٹھے کر کے بلاسود قرضے دینے کا
آغازکیا۔ہم نے اپنی انفرادی ذمہ داری کا احساس کے بل بوتے بھائیوں کی مدد
کی ۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ کسی نہ کسی انداز میں کسی نہ کسی رنگ میں ایسے
فلاحی کاموں کا حصہ بنیں یا اپنے ہی کسی منصوبے کا آغازکر لیں مگر اِس کے
لئے یہ بنیادی اصول ضروری ہیں جس پر ’’اخوت‘‘بھی عمل پیرا ہے ۔ کہ ایک خواب
دیکھنا ،،پھر اُس کے لئے اپنی زندگی کو وقف کر دینا،پھر اُس میں امانت اور
دیانت کے اصولوں کو اپنانا،پھر لوگوں کوشامل کرنا اُنہیں بااختیار بنانا،
اُنہیں طاقت کا احساس دینا اور پھر خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا۔
|