قائمہ اپنا کام جلدی جلدی مکمل کرکے اٹھنے والی تھی کہ اس
کی پی اے نے اندر آکر کہا کہ ایک معمر جوڑا اس سے ملنے پر مصر ہے ۔اس نے
نیم دلی سے پی اے کو انھیں بھیجنے کو کہا ۔ تھوڑی دیر بعد اس کے آفس میں
ایک معمر جوڑا داخل ہوا ۔مرد کی عمر پینسٹھ سال کے لگ بھگ تھی۔اس کے داڑھی
اور سر کے بال سفید تھے ۔عورت پچپن کے لگ بھگ تھی ۔دونوں کچھ حواس باختہ
اور پریشان سے تھے۔اس نے ان کو بیٹھنے کو کہا ۔دونوں سامنے اس کے بیٹھ گئے
۔ اس نے پیشہ ورانہ خوش اخلاقی سے ان سے پوچھا کہ وہ ان کی کیا مدد کرسکتی
ہے؟
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آخر کار خاتون نے جھجھکتے ہوئے کہا ۔
مجھے شک ہے کہ میں امید سے ہوں۔
ایک لمحے کے لیے قائمہ کو لگا کہ وہ اس سے مذاق کر رہے ہیں۔مگر ان کے
سنجیدہ چہرے دیکھ کر اس کو احساس ہوا کہ وہ سنجیدہ ہیں ۔اس نے خاتون کو دو
ٹیسٹ لکھ کر دیے اور انھیں کل رپورٹ لے کر آنے کے لئے کہا ۔گھر جاکر قائمہ
اپنے بچوں میں مصروف ہوگئی ۔اگلے روز جب وہ کلنیک پہنچی تو اس نے دیکھا کہ
وہ جوڑا بڑی بے تابی سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی پی اے نے سب سے
پہلے ان کو اندر بھیجا ۔قائمہ نے رپورٹز دیکھیں تو بے اختیار ہی ایک سرد آہ
اس کے ہونٹوں سے نکلی ۔لیکن اس نے خاتون کا معائنہ کرنا مناسب سمجھا
۔معائنے کے بعد اس نے ان کو بتایا کہ ان کا اندیشہ درست ہے اور ان کی بیگم
چار ماہ کی حاملہ ہیں۔ہہ سنتے ہی اس خاتون نے زور زور سے رونا شروع کردیا
۔اس شخص نے قائمہ سے کہا
میں بچوں کا نانا اور دادا ہوں ۔آپ کسی بھی طرح ہماری جان اس مصیبت سے
چھڑوائیں ۔ہم معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے ۔"
قائمہ نے شدید غصے سے ان کو دیکھا اور کہا:
خدارا آپ جیسے پڑھے لکھوں کے منہ سے یہ باتیں سن کر بڑا افسوس ہوا ۔آپ ایک
قتل کرنے پر آمادہ ہیں صرف اس معاشرے کے اور اپنے بچوں کے خوف سے ۔ اب تو
آپ کی بیوی کی جان کو بھی اس اسقاط حمل سے خطرہ ہے ۔میں کبھی بھی ایسا گناہ
کا کام نہیں کرونگی ۔"
وہ دونوں میاں بیوی مایوسی سے اٹھ کر چلے گئے ۔مگر قائمہ کو یقین تھا کہ وہ
کسی عطائی کے ہتھے چڑھ جائنگے مگر اپنی نام نہاد عزت کی بلی نہیں دینگے ۔
کچھ دن بعد اخبار کے obituary کے کالم میں قائمہ کو اس معمر عورت کی تصویر
نظر آئی ۔اس کے بچوں اور میاں نے بڑے شاندار الفاظ میں اس کو خراج تحسین
پیش کیا تھا ۔قائمہ نے ایک سرد آہ بھری اور سوچا اس معاشرے اور اس کی نام
نہاد فرسودہ روایات اور کتنے معصوم جانیں بلی پر چڑھیں گی ۔
کیا امید بہار اب بھی قائم ہے ؟ |