حضرت علی کرم اﷲ وجہ الکریم جیسے زاہد پاک باطن اور
اولیاء امت کے قافلہ سالار بھی تھے اور محدثین و مبصرین بھی ہوئے۔ دنیاوی
لذائز سے کنارہ کش اصحاب باطن اور اولیا ء اﷲ بھی ہوئے۔ جن کی رشدو ہدایت
کا سلسلہ انشاء اﷲ رہتی دنیا تک ماہ تاباں کی طرح اپنی چمک دکھلاتا رہے گا۔
یہ برصغیر کی انتہائی خوش نصیبی ہے کہ یہاں اسلام کا نور انہی بزرگوں کے
طفیل پھیلا۔ جو اس آخری سلسلہ کی کڑی تھے۔ یعنی صوفیائے کرام مشائخ عظام
اولیائے کرام کے ذریعے اس زمین میں نبی کریم ﷺ کے پاک دین کی آبیاری
ہوئی۔ان ہی نیک ہستیوں میں سے سلطان الشعراء الحاج پیر محمد واصف بڈیانویؒ
ایک ہیں۔آپ ؒ جنوری1942کو ایند پور موڑی تحصیل نور پور ضلع نکڑھ بھارت میں
پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار بابا جی شیر محمد قادری قلندری چشتی صابری
اپنے وقت کے کامل بزرگ تھے۔ انہوں نے ان کا پیدائشی نام محمد بشیر رکھا۔
قیام پاکستان کے بعد بابا جی اپنے اہل خانہ سمیت بھارت سے ہجرت کر کے مختلف
منازل کو طے کرتے ہوئے بلآخر قصبہ بڈیانہ(سیالکوٹ) میں آئے اور مستقل سکونت
اختیار کی۔ شاید کہ بڈیانہ ہی کو ایک مرد قلندر ،صوفی منش، عاشقِ رسول اور
محافظ ناموسِ صحابہ و اہلبیت کی آخری آرام گاہ بننے کا شرف حاصل ہونا تھا ۔
حضرت پیر واصف بڈیانوی بچپن ہی سے حالات کی ستم ظریفی کی نظر رہے۔ اسی لیے
کسی سکول یا مدرسے سے کوئی تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ تاہم والد صاحب نے اپنے
زیر سایہ گھریلو اور دینی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ بڈیانہ میں
آمد کے بعد کھلے آسمان تلے جب ذاتی چھت کی فکر سے آزاد ہوئے تو والدہ
محترمہ پہلے بیمار ہوئیں اور کچھ عرصہ علالت کے بعد جہانِ فانی سے کوچ کر
گئیں۔ والدہ کی جدائی نے ان کے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑے کیونکہ خدمتِ
والدہ سے دلی سکون حاصل کرنا حضرت پیر واصف بڈیانوی کا روز مرہ کا معمول
تھا۔ تھے۔ والد صاحب نے گاہے بگاہے دلجوئی کرنے کے ساتھ ساتھ بہن بھائیوں
کی ذمہ داری بھی ان پرڈال دی اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے صبر و حوصلے
کی تلقین کرنے کے علاوہ خدا اور رسولِ خدا سے عشق و محبت علم معرفت و تصوف
اور روحانی فیوض و برکات کے بارے میں تعلیم دیتے رہے۔ کچھ عرصے کے بعد حضرت
بابا جی شیر محمد قادری قلندری چشتی صابری نے اپنے صاحبزادے حضرت واصف
بڈیانوی کو چاروں سلسلوں میں خلافتیں عطا کر دیں اور خود زندگی کی قید و
بند سے آزاد ہو کر سفر آخرت کو روانہ ہو گئے۔ انہیں بڈیانہ شریف قبرستان
میں دفن کیا گیا۔ تنگئی حالات بے یارو مددگار مسکینی اور یتیمی کے اس عالم
میں غم و فکر اور دکھوں نے واصف بڈیانویؒ کے اندر ہی اندر ایک آتشی الاؤ کی
صورت اختیار کر لی۔جو عشق مجازی سے ہوتی ہوئی عشق حقیقی تک پہنچ گئی۔
اپنے آپ سے محو گفتگو گم سم الگ تھلگ بیٹھے رہنا۔ جب لوگوں نے یہ صورت حال
دیکھی تو وہمی کہنا شروع کر دیالیکن دنیا کی باتیں اور طعنے تو عاشق کو لذت
قلبی سے آشنا کرتے ہیں ۔جبکہ اس سے عشق میں مزید نکھار پیدا ہوتا ہے ۔ پھر
جب اندر کا چھپا درد زبان پر آیا تو لفظ شعروں کی صورت میں ڈھلنے شروع ہو
گئے۔ شعراکٹھے کرنے کا خیال آیا تو آپ نے لکھنا شروع کر دیا۔ جس سے شعر
اکٹھے کرنے کا سلسلہ چل نکلا اور پھر وہمی تخلص پر تقریباً پینتیس(35)
کتابیں لکھیں اور چھپوا کر مارکیٹ میں پیش کیں۔ جس سے ان کی بہت حوصلہ
افزائی ہوئی۔ بعد میں دوستوں کے مشورے سے تخلص تبدیل کرنے کیلئے استخارہ
کیا اور اشارہ ملنے پر تخلص واصف رکھا۔ اس کے بعد ہر آنے والا دن واصف
بڈیانویؒ کیلئے نئی نئی شہرتوں اور خوشیوں کا پیغام لے کر آیا۔ کئی بزرگ
اور صاحب مزار ہستیوں کی نثر اور نظم میں کتابیں لکھیں اور کئی بزرگ ہستیوں
نے بھی دستاریں عطا کیں۔حضرت پیر واصف بڈیانوی رحمۃ اﷲ علیہ کی شاعری عشقِ
رسول ﷺ سے لبریز ،شان صحابہ و آل رسول سے سرشار ،فیضان ولایت کی عکاس ہے
۔شعر کا اسلوب سادہ مگر علم و حکمت سے لبالب ہوتا ۔ یقینا شعر ہر شاعر کے
دل کی عکاسی اور جذبات کی ترجمانی کرتا ہے ۔حضرت پیر واصف بڈیانوی رحمۃ اﷲ
علیہ کی شاعری کو بھی ایسے ہی ایک دردِ دل اور صاحب سوز فرد کی شاعری کا
اعزاز حاصل ہے ۔آپ نے اپنی شاعری کے لئے اپنی مادری زبان پنجابی کو اظہار
کا ذریعہ بنایا ۔مگر پنجابی زبان میں بھی ایسے ایسے باکمال الفاظ اور کافیے
و ردیف لائے کہ پڑھنے والاوجد میں آئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپ نے حضرت امام
علی الحقؒ سیالکوٹ اور حضرت داتا علی ہجویریؒ لاہور ان دونوں درگاہوں پرہر
جمعرات مسلسل تقریباً بائیس سال تک حاضری دی۔ اور ان آرام فرما ہستیوں سے
فیوض و برکات حاصل کیں۔ یہ انہیں اولیاء کرام کی کرامت ہے کہ واصف بڈیانویؒ
نے کسی تعلیمی درسگاہ سے تعلیم حاصل کیے بغیر ڈھائی سو سے زائد کتابوں کے
مصنف ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ جب صحافت میں قدم رکھا تو اس میں بھی بے پناہ
کامیابی حاصل ہوئی ایک وقت میں آپ کئی بڑے اخباروں کی نمائندگی کرتے رہے
ہیں۔ حلقہ احباب سخن و بزم واصف( بڈیانہ) پاکستان (رجسٹرڈ) کی بنیاد رکھی
اور اسے ادبی تنظیموں میں اعلیٰ مقام دلانے میں شب و روز محنت کی۔ آج اس
بزم کی شاخیں مختلف شہروں میں قائم ہو چکی ہین۔ جہاں ان کے سینکڑوں شاگرد
اپنی اپنی بساط کے مطابق ادبی میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کی ادبی کاوشوں
کا ثبوت ملک کے مختلف شہروں میں چھپنے والے ادبی جریدوں سے بخوبی ملتا ہے۔
آپ نے دینی، علمی، ادبی، قلمی،اصلاحی، فلاحی اور سماجی ہر محاذ پر جہادکر
کے جو خدمات سرانجام دی ہیں انہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ بڈیانہ
کی سر زمین جہاں اکثر ڈھول ڈھمکے اور اسلام کے منافی محفلیں سجتی تھیں۔
یہاں آباد لوگوں کے دلوں میں دین کی محبت پیدا کی اور سرزمین بڈیانہ پر
اتنے بڑے عظیم الشان دینی، ادبی پروگرام منعقد کیے۔ جن میں ملک کے کونے
کونے سے قراء حضرات، جید علماء کرام، ممتاز شعراء کرام اور معروف نعت خواں
حضرات شرکت کرتے۔آپ ؒاتحاد بین المسلمین کے زبردست داعی تھے۔یہ ہی وجہ تھی
کہ مختلف مذاہب کے لوگ آپ کے پا س حاضری دیتے اور روحانی فیض ھاصل کرتے ۔
بڈیانہ میں انہوں نے کئی مسجدیں آباد کیں اور نعتیہ محفل کی بنیاد رکھی۔ آج
یہاں عاشقانِ رسولﷺ آپ کی محبت میں اکثر محفلیں سجاتے نظر آتے ہیں۔ گو اس
وقت بڈیانہ ٹربائن سازی کے کام میں ملک بھر میں مشہور ہے لیکن کافی عرصے سے
بڈیانہ واصف بڈیانویؒ کے نام سے منسوب نظر آتا ہے۔ آپ نے اپنی تمام تر
مصروفیات کے باوجود اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو بھی بڑے احسن طریقے سے
نبھایا ہے۔ آپ اکثر کہتے تھے کہ میں نے اپنے خاندان کے کسی فرد کو بھی اپنے
شوق پر قربان نہیں کیا اور نہ ہی اپنی خدمات کا صلہ کبھی حکومتی مراعات کے
بارے میں سوچا ہے۔آپ اس قدر قد آور اور بلند مرتبہ شخصیت ہونے کے باوجود
نہایت عجز و انکساری میں رہتے۔ نہایت سادہ طبع اور خوش اخلاق طبیعت کے مالک
تھے۔ انہی اوصاف کی بناء پر آپ نے کئی غیر مسلم خاندانوں کو کلمہ حق کا درس
دیا اور انہیں دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ آستانے پر آنے والے چھوٹے بڑے،
امیر غریب کی ایک جیسی خاطر مدارت کرتے۔ ہر آنے والے سے اس قدر پیار ، محبت
اور شفقت سے پیش آتے کہ وہ ان کی شخصیت کا ہمیشہ کیلئے گرویدہ ہو جاتا۔ آپ
ایک محبت رکھنے والے سچے عاشق رسولﷺ تھے۔ اپنے مریدین کو ہمیشہ نماز پڑھنے
کی تلقین کے علاوہ نہایت دیانتداری سے صاف ستھرا کاروبار کرنے کی ہدایت
فرماتے تاکہ صحیح معنوں میں رزق حلال نصیب ہو سکے۔ حسد ،غیبت، چغل خوری، بد
اخلاقی اور ہمسایوں کی دل آزاری جیسی برائیوں سے منع فرماتے۔ صاحبزادہ ظہور
واصف کو آپ نے اپنے زیر سایہ تصوف اور علم معرفت کی تعلیم و تربیت کے علاوہ
رب تعالیٰ اور حبیب خداﷺ سے عشق محبت اور دینی فیوض و برکات کے بارے میں
آگاہی دی ۔ حضرت پیر واصف بڈیانوی رحمۃ اﷲ علیہ محافلِ میلاد سے خاص شغف
رکھتے تھے ۔مسلکِ اہلسنت پر سختی سے کاربند تھے ۔اصلاحِ احوال کیلئے کسی پر
جبر نہ کرتے بلکہ محبت و شفقت سے اصلاح فرماتے ۔ڈیرے پر دن رات لنگر جاری
رہتا ۔حضرت واصف بڈیانویؒ نے اپنے وصال سے قبل صاحبزادہ ظہور واصف بڈیانوی
کو اپنے دستِ مبارک سے دستار عطا کی اور آستانہ عالیہ واصفی بڈیانہ شریف کا
گدی نشین مقرر کیا۔ پیر طریقت، رہبر شریعت سلطان الشعرء الحاج محمد واصف
بڈیانویؒ 5جولائی2003ء کو دنیا سے پردہ فرکر گئے لیکن ان کی درگاہ سے
روحانیت اور فیوض و برکات کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے ان کے مریدین اور
عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو صاحبزادہ پیر طہور واصف بڈیانوی
کی زیر نگرانی اکثر دینی اور روحانی محفلیں سجانے میں مصروف رہتے ہیں۔ حضرت
پیر واصف بڈیانوی کے یوم وصال 5جولائی کو سالانہ عرس مبارک نہایت عقیدت و
احترام سے منایا جاتا ہے۔ عقیدت مند دربار واصف پر چادریں چڑھاتے ہیں عرس
کی تقریبات دن اور رات کو جاری رہتی ہیں۔ جن میں ملک کے طول و عرض سے قاری،
علماء کرام، شعرا کرام، نعت خواں اور قوال حضرات بڑھ چڑھ کر شرکت کرتے ہیں۔
تقریبات کے ساتھ ساتھ لنگر کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ اختتام پر عالم
اسلام اور دین اسلام کی سر بلندی کیلئے دعائے خیر کی جاتی ہے۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی سلطان الشعراء الحاج پیر محمد واصف بڈیانویؒ کا
15واں سالانہ عرس مبارک مورخہ5جولائی بروز جمعرات واصفی آستانہ بڈیانہ شریف
سیالکوٹ تا پسرور روڈ نہایت عقیدت و احترام اورتزک و احتشام سے منایا جا
رہا ہے۔ جس میں ملک کے طول و عرض سے مریدین اور عقیدت مند جوق در جوق شرکت
کریں گے۔ عرس کی تمام تقریبات زیر صدارت جانشین سلطان الشعراء صاحبزادہ پیر
محمد ظہورواصف بڈیانوی و زیرسرپرستی صاحبزادہ محمد صائم واصف منعقد
ہونگیں۔عرس کی روحانی تبلیغی نشست بعداز نماز ظہر تلاوت کلام پاک سے شروع
ہوگی جو نماز مغرب تک جاری رہے گی ۔مقامی علماء کرام و نعت خواں حضرات کے
علاوہ جانشین شیخ القرآن پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف ہزاروی ،مرکزی ناظم اعلیٰ
تحریک اویسی پاکستان علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ،علامہ ریاض الدین
صدیقی و دیگر خطاب اور ہدیہ نعت پیش کرئینگے۔ |