جیسی روح ویسے فرشتے : جیسا قائد
ویسے کارکن
روایات دم توڑتی جارہی ہیں اور سیاست میں شرافت اور نظریاتی اختلاف کو
برداشت کرنے کا حوصلہ کم سے کم ہوتا جارہا ہے جبکہ اب تنقید برداشت کرنا تو
انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ سیاسی قائدین اور ان کے کارکنان
اپنے اختلافات کو صرف سیاسی اور نظریاتی حدوں تک ہی رکھتے تھے اور سیاسی
اختلافات کو دشمنی میں نہیں بدلا جاتا تھا اور نہ ہی مخالفین کے بارے میں
بازاری زبان استعمال کی جاتی تھی۔ لیکن ذاولفقار علی بھٹو صاحب کے دور میں
مخالفین ڈرانے،دھمکانے،اور ان کو برسر اسٹیج اور میڈیا کے سامنے برا بھلا
کہنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ ان کے بعد کسی لیڈر نے اپنے مخالفین کے بارے
میں نازیبا اور بازاری زبان استعمال نہیں کی لیکن گزشتہ روز تو جو کچھ ہوا
اس کے بعد شریف لوگ حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔
دسمبر کے سرد سرد موسم میں پاکستان کے سیاسی درجہ حرارت میں اچانک اضافہ
ہوگیا ہے۔ حکومت کے اتحادی اپنے مطالبات منوانے کے لئے اتحاد سے الگ ہونے
کی دھمکیاں دینے لگے ہیں تو دوسری جانب میاں نواز شریف حسبِ معمول فرینڈلی
اپوزیشن کے کردار نبھاتے ہوئے پوری کوشش کررہے ہیں کہ پی پی کی موجودہ
حکومت کو گرنے نہ دیا جائے۔ اسی کشمکش کے دوران میاں نواز شریف نے آزاد
کشمیر میں مسلم لیگ ن کے قیام کے دیرینہ پروگرام پر عمل کرتے ہوئے گزشتہ
ہفتے مظفر آباد میں ایک جلسہ منعقد کیا۔ اور اس جلسے میں دیگر باتوں کے
ساتھ ساتھ کراچی کی صورتحال کا بھی ذکر کردیا ۔اور اس میں انہوں نے بالخصوص
تین باتوں کا ذکر کیا ایک بارہ مئی 2007 جب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس
افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد پر شہر کو نو گو ایریا بنا دیا گیا اور
شہر میں قتل عام کیا گیا،دوسری بات انہوں نے ایک ایم پی اے ﴿رضا حیدر ﴾ کے
قتل پر سو لاشیں گرنے کے واقعے کا تذکرہ کیا اور تیسری بات انہوں نے ڈاکٹر
عمران فاروق کے قتل پر کراچی میں لاشیں گرنے کی بات کی ﴿ جو کہ غلط ہے
ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل پر کراچی میں کوئی ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی﴾۔ جبکہ
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گیارہ سال تک آمر کا ساتھ دینے
والے انقلاب کی بات کر رہے ہیں اگرچہ یہاں انہوں نے نام نہیں لیا تھا لیکن
سمجھنے والوں نے سمجھ لیا کہ اشارہ کس طرف ہے۔
اس کے بعد سے متحدہ اور مسلم لیگ ن کے درمیان بیان بازی کا سلسلہ جاری ہوا
اس بیان بازی کے سلسلے میں گزشتہ روز ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین صاحب
نے براہ راست حصہ لیا اور اپنے ٹیلیفونک خطاب میں میاں نواز شریف صاحب کی
کلاس لی۔ محترم الطاف حسین صاحب جن کو ان کے کارکنان و معتقدین ’’بھائی‘‘
کہتے ہیں ﴿ ویسے بڑی عجیب بات ہے کہ ممبئی میں انڈر ورلڈ کے غنڈوں کو بھائی
کہا جاتا ہے﴾۔تو بھائی نے میاں نواز شریف کی خوب خوب خبر لی۔ ان کو ایسا
لتاڑا کہ میاں صاحب بھی سوچتے ہونگے کہ کہاں پھنس گیا۔ اگر ’’بھائی ‘‘ ان
کی کلاس مہذب انداز میں لیتے اور ان کی باتوں کا مہذب انداز میں جواب دیتے
تو بھی کافی تھا اور ان کے مخالفین کو پتہ چل جاتا کہ ’’بھائی ‘‘ ناراض ہیں
لیکن ’’بھائی ‘‘ کو اس قدر غصہ تھا کہ بھائی بھول گئے کہ وہ لندن جیسے مہذب
شہر میں بیٹھے ہیں بلکہ جس قدر خطاب بھی میڈیا پر سنایا گیا ہمیں تو ایسا
لگا گویا کہ لالوکھیت یا اورنگی ٹاؤن کے کسی محلے کی لڑائی میں کوئی جاہل
شخص اپنے دشمن کے لتے لے رہا ہے۔
جیسا کہ ہم کہتے ہیں کہ یہی دراصل متحدہ کا اصل کردار ہے۔ یہ لوگ سماج
سدھار، ملکی ترقی، انقلاب، اور اٹھانوے فیصد غریب عوام کی بھلائی کی صرف
باتیں ہی کرتے ہیں عملاً یہ کیا ہیں اس کا اندازہ ’’بھائی ‘‘ کے خطاب سے
بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بھائی کے خطاب کا مطلب دراصل یہ ہے کہ مخالفین اگر
راستے میں آئیں تو ان کو ہٹانے کے لئے کسی بھی حد تک گزر جاؤ اس سے پہلے کہ
لوگ اس کی باتوں کا جواب آپ سے مانگیں الٹا لوگوں کو دوسری طرف لگا
دو،اخلاقیات کا دامن چھوڑ دو،اور اس قدر گھٹیا پن اور بازاری پن دکھاؤ کے
شریف آدمی کانوں کو ہاتھ لگائے کہ میرے باپ کی توبہ جو آئندہ ان سے ٹکر لی۔
دراصل یہ ان کا فلسفہ ہے اور یہی ان کی ’’فکری نشستوں‘‘ کا بنیادی نکتہ اور
مقصد بھی ہے کہ کارکن کی برین واشنگ کر کے اس کو یہ سکھایا جائے کہ
اپنا﴿یعنی بھائی کا﴾ مفاد اور مقصد ہی سب کچھ ہے۔اپنے مفاد کے لئے اگر علما
کو گالی دینی پڑے تو دیدو ،اگر اپنے کارکنوں کے﴿ بقول متحدہ ﴾ قاتلوں سے
بھی ہاتھ ملانا پڑے تو ملا لو، ایک دن ایک فرد اور پارٹی کو ملک و قوم کا
دشمن نمبر ایک اور غدار کہو اور اگر مفاد ہو تو دوسرے ہی دن اس کے گھر جاکر
مفاہمت کی باتیں کرو۔ اگر دشمن کو گالی دینی پڑے تو دیدو،اگر راستے سے
ہٹانا پڑے تو ہٹا دو۔ میرے خیال میں لوگ بھولے نہیں ہونگے جب ٢٠٠٧ میں
اچانک کراچی کی سڑکوں پر بے ہودہ اور فحش قسم کے نعرے عمران خان کے خلاف
لکھے گئے تھے اور شہر کی دیواروں پر عمران خان کے خلاف شرمناک چاکنگ کی گئی
تھی۔
کیا ہی بات ہے جی اس طرز سیاست کی،زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ بریگیڈئیر
امتیاز نامی ایک صاحب نے انکشافات کے نام پر ایک سرکس لگایا تھا اور اس
سرکس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ کراچی آپریشن میاں نواز شریف نے شروع
کرایا تھا۔ اور وہ آپریشن غلط تھا۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ میاں
نواز شریف سے ان باتوں کا حساب لیا جاتا۔ چوہدری شجاعت اس دور میں وزیر
داخلہ تھے۔ ان کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی جاتی،پی پی پی کی حکومت سے بھی
کراچی آپریشن کا حساب لیا جاتا اور جنرل نصیر اللہ بابر جن کو متحدہ نے
جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا تھا اس حوالے سے بات کرتے۔ لیکن چونکہ یہ سارے
معاملات کارکنوں سے متعلق تھے ’’ بھائی ‘‘ سے متعلق نہیں تھے اس لئے صرف
میڈیا پر شور مچانے پر اکتفا کیا گیا۔ اور نہ صرف اکتفا کیا گیا بلکہ چند
ماہ پیشتر جب مسلم لیگ ن کے اسحٰق ڈار کراچی آئے اور نائن زیرو کا دورہ کیا
تو ان کو پر جوش طریقے سے ویلکم کہا گیا۔ اور اس وقت یہ بات کہی گئی کہ
مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم میں کچھ نظریاتی اختلافات ہیں اور کوئی بات
نہیں۔ لیکن جب میاں صاحب نے براہ راست قائد پر بات کی کہ ’’ گیارہ سال تک
آمر کا ساتھ دینے والے انقلاب کی بات کر رہے ہیں ‘‘ تو بھائی سے برداشت نہ
ہوا اور ’’بھائی ‘‘ کو اور متحدہ کے دیگر قائدین کو اچانک دوبارہ یاد آیا
کہ میاں نواز شریف نے تو’’ آمر کا دودھ پیا‘‘ ہے۔ ان لوگوں کو اچانک یاد
آگیا ہے کہ میاں صاحب کے دور میں کراچی آپریشن کا آغاز کیا گیا تھا اور تو
اور یہ بھی یاد آگیا کہ میاں صاحب کے دور میں سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا
تھا۔ غالباً جس وقت اسحٰق ڈار صاحب نے نائن زیرو کا دورہ کیا تھا اس وقت تک
ان لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ میاں صاحب یہ سب کچھ کرچکے ہیں۔
بہرحال گزشتہ روز کی تقریر سن کر ایسا لگ رہا تھا کہ گویا کہ گلی محلے کا
کوئی لفنگا اپنے مخالفین کو للکار رہا ہے۔ اور جس جماعت کا قائد ایسا ہو تو
پھر اس کے کارکن جو کچھ بھی کریں وہ کم ہے۔ لیکن کم از کم لوگوں کو یہ
اندازہ تو ہوگیا ہوگا کہ اس جماعت کا، اس کے قائدین کا اور اس کے کارکنوں
کا عمومی کردار کیا ہے۔ |