کہتے ہیں اگر کسی ملک کی افرادی قوت کا اندازہ لگانا ہو
تو، اس ملک کے نوجوانوں کی تعداد کا اندازہ کرو۔ نوجوان بلاشبہ کسی بھی ملک
کا سرمایہ ہوتے ہیں۔پاکستان جیسے، ملک کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ ہم اپنے
ملک کے نوجوانوں کو وہ مواقعے فراہم ہی نہیں کرتے ،جہاں ان کی صلاحیتوں کو
درست سمت میں استعمال کیا جاسکے یا، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو سنوارا
جاسکے۔ہمارا آج کا نوجوان جن مسائل کا شکار ہے اسے معمولی سمجھ کر نظر
انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔کیوں کہ ملکوں کی ترقی کا انحصار اس ملک کے
نوجوان ہوتے ہیں اگر وہ اپنے ہی مسائل حل کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر
پائیں گے، تو ملک کا بار کیسے اٹھائیں گے۔ ہمارا نوجوان بے روزگاری،ڈپریشن
اورناکامیابی جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔۸۰ فیصد نوجوانوں کو دوران
تعلیم ہی اس بات کا پتا ہوتا ہے کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی ملازمت کا
خواب اتنی آسانی سے شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا،اورایک طویل جنگ ہے، جو درسگاہ
سے نکلنے کے بعد اسے لڑنی ہے اور یہ ہی صورت حال اسے نہ صرف مایوسی کا شکار
کر دیتی ہے بلکہ اس کی کارکردگی پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ہم صدیوں سے اپنے
تعلیمی نظام کو، رو رہے ہیں ،لیکن اسے ٹھیک کرنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں
اٹھاتے، ہم ان اداروں سے صرف کلرک ہی پیدا کر رہے ہیں ۔ ہم اپنے نوجوانوں
کو موقع نہیں دیتے اور یوں نہ جانے کتنے ہی ذخیز ذہن ، مسائل کی الجھنوں کو
سلجھا نے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ہم اکثر نوجوانوں کے مسائل کا تو ذکر
کرتے ہیں کہ انہیں فلاں فلاں مسائل کا سامنا ہے ،،لیکن اس کا حل نہیں بتاتے
۔ہمارے معاشرے میں ویسے ہی کاؤنسلنگ(مشاورت) کا کلچر نہ ہونے کے برابر ہے ۔جس
کی وجہ سے اکثر نوجوانوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اسے کس طرح اپنے مسائل
کو حل کرنا ہے ۔ایسی کون سی تدبیر کرنی ہے جس کی وجہ سے وہ زندگی میں مثبت
طریقے سے آگے بڑھ سکے۔اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ آپ کو پتا
ہوکہ زندگی میں کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔جی ہاں اس کا تعین کرنا بہت
ضروری ہوتا ہے ہم میں سے بعض لوگوں کو اس بات کا پتا ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے
مسائل کون سے اسٹیج سے تعلق رکھتے ہیں۔آیا کہ فوری طور پر حل ہوسکتے ہیں یا
وقت طلب ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ بات سمجھی جائے کہ ہر
انسان کو زندگی میں تین طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اول وہ مسائل
جن کا حل ہماری جلد بازی کسی طرح نہیں حل کرسکتی اوروہ وقت کے ساتھ ساتھ
خود حل ہوجاتے ہیں ،،ہمیں ان مسائل کو وقت دینا ہوتا ہے۔ دوسرے وہ مسائل ،جن
کو حل کرنے کے لیے ہمیں اپنی انرجی ضائع نہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ ان کا حل
آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ ان مسائل کو ہمیں جوں کا توں قبول کرنا پڑتا ہے۔
اس میں آپ کو اپنی انرجی نہیں لگانی پڑتی ۔مثلا آپ کو کوئی بیماری ہوگئی اب
آپ کے بس میں نہیں ہے یہ معاملہ قدرت پر چھوڑنا پڑتا ہے۔ ملازمت کے مسائل
نہیں حل ہورہے آپ اپنی آخری حد تک کوشش کریں اور نتائج کی ذمہ داری اللہ پر
چھوڑ دیں۔تیسرے قسم کے مسائل وہ مسائل ہیں جو آپ کی معاملہ فہمی اور تدبیر
سے حل ہوسکتے ہیں۔ جن کا حل آپ کے پاس ہوتا ہے، لیکن پریشانی میں آپ کو نظر
نہیں آتا۔اگر آپ خودشناسی کے ماہر ہیں اور یہ جاننے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ
آپ کے مسائل کا تعلق کس اسٹیج سے ہے تو یقین کریں آپ کو مسائل اتنا پریشان
نہیں کریں گے اور آپ زیادہ توجہ کے ساتھ زندگی میں آنے والی پریشانیوں کا
سامنا کرسکتے ہیں ۔ان تین مراحل کو اگر آپ سمجھ جائیں گے تو یہ اہلیت بھی
اپنے اندر پائیں گے کہ آیا آپ کے مسائل فوری طور پر حل طلب ہیں یا ان کو
وقت دینا ہے۔معاملہ خود حل کرنا ہے یا اللہ تعالیٰ پر توکل کرنی ہے ۔صبر
کرنا ہے یا ایکشن لینا ہے ۔اس طرح سے آپ اپنی شخصیت میں بھی ایک نمایاں فرق
محسوس کریں گے۔
نوجوانوں کا دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ، جس شعبے میں ڈگری حاصل کرتے
ہیں،جب ملازمت کے لیے جاتے ہیں تو انہیں جاب نہیں ملتی اور ہر طرح کی
کوششوں کے بعد آخر کار انہیں ،جو نوکری بھی ملتی ہے صبر و شکرکر کے کرلیتا
ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ خوش نہیں رہ پاتا اور اگر آپ
وہ ملازمت کریں ،جس کو کرنے سے آپ کو خوشی نہیں ملتی تو آپ اس کارکردگی کا
مظاہرہ نہیں کر پاتے اور یوں آپ کی ترقی کے مواقع بھی نا ہونے کے برابر
ہوجاتے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان ٹیکسیاں، رکشے اور پرائیوٹ
گاڑیاں چلا رہے ہیں۔اس کا بہترین حل یہ ہے کہ، جس دن یونیورسٹی کا آخری دن
ہو ہماری ریاست اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک میں کام کرنے والی اچھی ملٹی
نیشنل کمپنیز، اور دیگر وہ ادارے ،جس کی تعلیم یونیورسٹی میں دی جارہی ہو
اپنے کیمپس لگائے اور اسی وقت انٹرویوز لیے جائیں صلاحیتوں کے اعتبار سے
ملازمت دے دی جائے۔ دنیا کی اکثر یونیورسٹیز اور کالجز میں یہ ہی طر یقہ
رائج ہے۔ ایسا پاکستان میں کیوں نہیں ہوسکتا؟ اس طرح سے ہم نا صرف اپنے
نوجوانوں کو اعتماد کی پہلی سیٹرھی پر کھڑا کردیں گے، بلکہ ان کو زندگی میں
مثبت طریقے سے آگے بڑھنے میں بھی مدد دیں گے۔ انہیں یہ اعتماد دیں گے کہ
زندگی میں کچھ پانا اتنی مشکل نہیں۔اگر ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے تو
نوجوانوں کے آدھے مسائل تو حل ہوجائیں گے۔
مشہور مقولہ ہے کہ’’beggars can't be choosers‘‘ جب ہم اپنے نوجوانوں کو اس
سچویشن پر لا کر کھڑا کر دیں گے۔تو ہمیں کیا امید رکھنی چاہیے؟ وہ ملک کے
لیے کچھ کر پائے گا۔کسی شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظا ہرہ کر پائے گا؟
ہمیں اپنے نوجوان کو اعتماد بخشنا ہوگا۔اسے یہ یقین کرانا ہوگا کہ تم ہی اس
ملک کے معمار ہو ،تمہیں ہی اسے لے کر آگے بڑھنا ہے۔اسے وسائل دینے ہوں
گے،اس کے لیے راہیں بنانی پڑے گی۔جب ہم اپنے نوجوانوں کے لیے ایک ایسی سٹرک
قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جہاں وہ قدم رکھتے ہی بھاگنا شروع کردے تو
یقین رکھیں پاکستان کی ترقی کا سفر اس دن سے شروع ہو جائے گا۔ |