گلوبلائزیشن پر کریڈٹ سورس کی رپورٹ کی مطابق پاکستان
آرمی /پاک فوج دنیا میں گیارہویں (۱۱)نمبر پر مضبوط ترین فوج کے طور پر
جانی جاتی ہے ۔پاکستان میں چار بڑے فوجی اعزاز ہیں جو فوجی جوانوں کو اُن
کی جرت اور بہادری پر دیئے جاتے ہیں ، یہ چار اعزاز نشان ِ حیدر، ہلال جرت،
تمغہ جرت اور ستارہ جرت ہیں ۔
نشانِ حیدر پاک فو ج کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے اِ س وقت تک پاک فوج کے دس
(۱۰) فوجی جوانوں کو ان کی شجاعت ، بہادری اور پاکستان کی عزت و حرمت پر مٹ
جانے پر دیا گیا ہے ۔ *(تاریخ میں کسی جگہ پر نشان حیدر صول پانے والے
شہداء کی تعداد گیارہ بھی بتائی جاتی ہے گیارہویں بہاد ر کا ذکر بھی نشانِ
حید رمیں ہی کیا جائے گا) ۔پاک فو ج کے مطابق نشانِ حیدر حضرت علی کرم اﷲ
وجہہ کے نام پر دیا جاتا ہے کیوں کہ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا لقب حیدر کرار
تھا، آپ کی بہادری اور شجاعت کی مثالیں ہمارے لیے آج بھی زندہ ہیں آپ کو
اسد کا لقب بھی ملا یعنی اﷲ کا شیر اسی بہادری کی مناسبت سے پاک فوج کے سب
سے بڑے فوجی اعزاز کو نشان حیدر کہتے ہیں۔جن دس بہادر فوجی جوانوں کو یہ
اعزاز دیا گیا اُن میں میجر طفیل شہید بڑی عمر کے فوجی تھے جن کی عمر لگ
بھگ 44 چوالیس سال تھی جب انہوں نے شہادت پائی اسی طرح کم عمر فوجی جوان جس
نے نشانِ حیدر پایا اُن میں راشد منہاس کا نام آتا ہے یہ اعزاز انہوں نے
بیس یا اکیس سال کی عمر میں شہادت پا کر اپنے نام کیا۔
نشان حیدر پانے والے بہادر جوانوں کے نام یہ ہیں۔۱ ۔ راجہ محمد سرور شہید
2/1 پنجاب رجمنٹ ،عہدہ ۔کیپٹن محاذ۔ پاک بھارت جنگ 1947ء تاریخ شہادت۔ 27
جولائی1948ء ۲۔میجر طفیل محمد 16 پنجاب رجمنٹ مشرقی پاکستان رائفل پاک فوج
،عہدہ۔میجر
محاذ۔پاک بھارت جنگ 1947ء اورتاریخ شہادت۔7 اگست1958ء ۳۔میجر عزیز بھٹی 17
رجمنٹ عہدہ۔میجرمحاذ۔پاک بھارت جنگ 1965ء تاریخ شہادت۔10 ستمبر 1965ء ۴۔
راشد منہاس فائٹر کنورژن یونٹ ایف سی، عہدہ۔پائلٹ آفیسر
محاذ۔پاک بھارت جنگ 1971ء ،تاریخ شہادت۔20 اگست 1971ء ۵۔میجر شبیر شریف
فرنٹیئرفورس رجمنٹ پاک فوج عہدہ ۔میجر،محاذ۔پاک بھارت جنگ 1971ء،تاریخ
شہادت۔ 6 دسمبر 1971ء، ۶۔سوار محمد حسین 20 لانسرز (آرمرڈ کور) پاک فوج
عہدہ۔سوار،محاذ۔پاک بھارت جنگ 1971ء،تاریخ شہادت ۔ 10 دسمبر 1971 ء، ۷۔میجر
محمد اکرم 4 فرنٹیئر فورس رجمنٹ پاک فوج ،عہدہ۔میجر، محاذ۔پاک بھارت جنگ
1971ء تاریخ شہادت۔5 دسمبر 1971ء۸۔لانس نائیک محمد محفوظ 15 پنجاب رجمنٹ
پاک فوج،عہدہ۔ لانس نائیک،محاذ۔پاک بھارت جنگ 1971ء،تاریخ شہادت۔17 دسمبر
1971ء، ۹۔کرنل شیر خان سندھ رجمنٹ 12/ ناردرن لائٹ انفنٹری پاک فوج
عہدہ۔کیپٹن،محاذ۔کارگل جنگ ( پاک بھارت)،تاریخ شہادت۔7 جولائی 1999ء ۱۰۔حوالدار
لالک جان12/ ناردرن لائٹ انفنٹری پاک فوج،عہدہ ۔حوالدار،محاذ۔کارگل جنگ (
پاک بھارت)تاریخ شہادت۔7 جولائی 1999ء ۱۱۔ سیف علی جنجوعہ آزاد کشمیر
رجمنٹ،عہدہ۔نائیک، محاذ۔پاک بھارت جنگ 1947ء ،تاریخ شہادت۔ اکتوبر 1948ء *(نوٹ)
ان کو بہادری اور شجاعت پر ہلال کشمیر کے اعزاز سے نوازا گیا جبکہ 1995 ء
میں گورنمنٹ آف پاکستان نے اعلان کیا کہ ہلال ِ کشمیر اعزاز نشان حید ر کے
برابر ہے لہذا اس کے بعد ہلال کشمیرحاصل کرنے والے اس بہادر سپوت
کوگیارہواں فوجی جوان گِنا جاتا ہے جس کوسب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حید ر
ملا۔
آیئے اب نشان ِحیدر حاصل کرنے والے ان عظیم مرتبہ انسانوں کے بارے جانتے
ہیں کب پیدا ہوئے ؟ کب پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی اور وطن عزیز کی
خاطر کتنی بہادری سے لڑتے ہوئے اپنی جان جانِ آفرین کے حوالے کر کے ہمیشہ
کے لیے زندہ و جاوید ہوگئے۔ ہماری نئی نسل کو اپنے فوجی جوانوں کے کارنامے
اور اُن کی جرت اور بہادری کی ان داستانوں اور کارناموں کا پتہ ہونا چاہیے
تا کہ آج کے نوجوانوں کے اندر ملک کے لیے محبت اور اور اس کی حُرمت پر مر
مٹنے کا جذبہ پیدا ہواور وہ اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کرردار
ادا کر سکیں۔جی قارئین آج سے سلسلہ وار کالم شروع کرتے ہیں آج جس عظیم
انسان کا ذکر کرنے جار ہے ہیں ان کا نام ہے راجہ محمد سرور شہید۔
سورہ البقرہ آیت نمبر 154 ترجمعہ۔’’ اور جو اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں
مرا ہوا نہ کہا کرو، بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے ‘‘ ایک اور
جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے سورہ العمران ترجمعہ’’ جو لوگ اﷲ کی راہ میں شہید
ہوگئے ہیں ان کو ہرگز مردہ نہ سمجھیں بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے راب کے پاس
روزیاں دیے جاتے ہیں‘‘ پاک فوج کے جوانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اگر وہ
ملک کی عزت اور بقاء کی خاطر جنگ کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں تو انہیں شہید کا
رتبہ ملتا ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں اور جو جنگ کے
دوران بچ جاتے ہیں ان کو غازی کا نام دیا جاتا ہے ۔
راجہ محمد سرور پاک فوج میں کیپٹن تھے ضلع راولپنڈی کی تحصیل گوجرخان کے
ایک چھوٹے سے گاؤں جس کا نام سنگھوڑی ہے یہ علاقہ زیادہ تر بنجر اور غیر
آباد تھا یہاں کو لوگ زیادہ تر فوج میں ملازمت کرتے ہیں۔ 10 نومبر 1910ء
میں راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد محترم کا نام حیات خان تھا
اوران کے والد کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا فوج میں بھرتی ہو کر ملک و قوم
کا نام روشن کرے، ابتدائی تعلیم ایک سرکاری سکول سے حاصل کی ۔ سرور شہید نے
سترہ سال کی عمر میں میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا تو والد صاحب کی خوشی کی
انتہا نہ رہی چونکہ ان کے خاندان کے کافی لوگ پہلے ہی فوج میں اپنی خدمات
سر انجام دے رہے تھے ا ور ان کے والد حیات محمد خان بھی فوج میں حوالدار کے
طور پر کام کر رہے تھے ۔ ۔ سرور شہید کو فٹ بال اور کبڈی سے بہت لگاؤ تھا
اور شاعری سے بھی دلچسپی رکھتے تھے اس لیے کئی شعر ان کو زبانی یاد تھے
مارچ 1936ء میں ان کی شادی ان کے خاندان میں خوبصورتی اورانتہائی سادگی سے
اسلامی طرز طریق سے ہوئی 1929ء میں بطور سپاہی انہوں نے پاک فو ج بلوچ
رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی ، کراچی سے ابتدائی فوجی کورس مکمل کیا۔1941ء
میں اسی رجمنٹ میں حوالدارکے عہدے پرترقی ملی۔ پنجاب رجمنٹ میں 1944ء میں
کمیشن حاصل کیا ، برطانیہ کی جانب سے انہوں نے دوسری عالمی جنگ میں بھی حصہ
لیااور جرت و بہادری کی ایک عظیم داستان رقم کی۔فوجی خدمات کی پیش نظر
فروری 1947ء میں انہیں کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
1948ء میں پنجاب رجمنٹ کی 2 بٹالین میں کمپنی کمانڈر کے عہدے پر فائض ہوئے،
انہیں کشمیر آپریشن پر مامور کیا گیا، 1948ء جولائی کے مہینہ میں کشمیر
اوڑی سیکٹر میں دشمن کی اہم فوجی پوزیشن پر حملہ کیا اس حملے میں مجاہدین
کی بڑی تعداد کو نقصان پہنچا۔کافی تعداد میں فوجی شہید اور زخمی ہوئے لیکن
اس کے باوجودکیپٹن سرور نے جر ت اور بہادری کے ساتھ پیش قدمی جاری رکھی اور
دشمن کے مورچوں کے قریب پہنچ گئے وہاں انہیں معلوم ہوا کہ دشمن نے خو کو
محفوط کرنے کے لیے خاردار تاروں سے مورچوں کو محفوط بنا لیا ہے لیکن شجاعت
اور بہادری کے ساتھ سرور حسین مسلسل فائرنگ کرتے رہے۔
دشمن کی بے رحم گولیاں ان کے جسم میں داخل ہو چکی تھیں لیکن ان کا جذبہ
رکنے کو تیار نہ تھا، زخموں کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھتے رہے اور ایک مشین
گَن کا چارج سمھبال لیا،اُن کے ساتھ اس وقت صرف 6 جوان رہ گئے تھے ان بہادر
جوانوں کے ساتھ مل کر خار دار تاروں کو کاٹ کر دشمن کے مورچے پر حملہ کر
دیا۔دشمن نے اپنی توپوں کا رُخ کیپٹن سرور کی طرف کر دیا اور کیپٹن سرور کو
ایک گولی سینے میں آلگی خون تیزی سے بہہ رہا تھا دشمن وار پے وار کر رہا
تھا گولیاں دائیں بائیں اوپر نیچے سے گذر رہیں تھیں لیکن ان کا جذبہ ان کو
آخری تار کاٹنے پر مجبور کر رہا تھا اور وہ سچی لگن سے اسے کاٹنے میں مصروف
تھے کہ دشمن کی گولیوں نے سینہ چھلنی کر دیا اس کی باوجود انہوں نے ایک
برسٹ دشمن پر پھینکا اوراﷲ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ دشمن اپنی چوکیا ں چھوڑ
کر بھاگ گیا کیپٹن سرور زخموں کی تاب نہ لا سکے اور وہیں انہوں نے جام
شہادت نوش کیا۔ اسی پہاڑی پر صج سبز حلالی پرچم کو لہراتے ہوئے سب نے دیکھا
اور سلام عقیدت پیش کیا۔ ان کی عظیم اور شاندار خدمات ، جرت اور بہادری کے
پیش نظر ان کو مختلف اعزازات سے نوازہ گیا۔ 1959ء میں ان کو سب سے بڑے فوجی
اعزاز نشان ِحیدر سے نوازا گیا اور یہ اعزاز راولپنڈی میں منعقدہ ایک تقریب
میں اُن کی بیوہ محترمہ کرم جان نے جنوری 1961ء میں صدر پاکستان محمد ایوب
خان سے وصول کیا ۔کیپٹن سرور کی عظیم قربانی اور بہادی کی داستان ہمیشہ یار
رکھی جائے گی اور وہ ہمارے سینوں میں آج بھی زندہ ہیں۔ |