ان دنوں قصرسفیدکے فرعون کے دہمکی آمیزبیانات
اوردیگرحرکات کی وجہ سے اقوام عالم کے تمام امن پسندقوتوں میں عجیب ہلچل
پیداکررکھی ہے اور یوں محسوس ہورہا ہے کہ کسی بھی وقت ایک ایسی عالمی جنگ
کاطبل بجنے والاہے جودنیاکوخاکسترکردے گا۔بالکل اسی طرح ۱۹۴۷ءتک دنیابھر
میں برطانیہ کے جبروت کاطوطی بولتاتھا۔ برطانوی سلطنت کی وسعت کے پیش نظریہ
مثل مشہورتھی کہ اس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتایعنی اگر اس کی
نوآبادیات کے ایک حصے میں سورج غروب ہوتاتھاتودوسرے علاقے میں دن نکل
رہاہوتاتھا۔برطانیہ نے بھی آزادی پسندوں کوجبرواستبداد، درندگی اورسفاکی کے
ہتھکنڈوں سے بالکل اسی طرح صفحہ ہستی سے مٹادینا چاہا جیساکہ آج کل امریکی
استعماردہشتگردی کالیبل لگا کر مسلمانوں کی جان و ایمان اوران کی املاک کے
درپے ہے لیکن چشمِ افلاک نے یہ انوکھانظارۂ حیرت واستعجاب کی نظروں سے
دیکھاکہ حریت مآب دیوانوں کی قربانیوں کی بدولت فرنگی استعمارکوکہ جس کی
زمین پرسورج غروب نہیں ہوتاتھا،ہندوستان کونہ صرف آزادبلکہ پاکستان جیسی
معجزہ نماریاست کاوجودبھی دنیاکے نقشے پرنمودارہوگیااورپسپائی کے اس سفرکے
بعددنیابھرمیں تمام نوآبادیات سے سفرآخرت ایساشروع ہواکہ آج خودبرطانیہ
اپنے ہی ملک میں سورج کی کرنوں کامحتاج رہتا ہے۔
۱۸۵۷ءکی جنگ آزادی کوکچلنے کے بعدبرطانوی استعمارمسلم ہندوستان کے تخت وتاج
پر بلاشرکت غیرے براجمان ہوااوراس نے تحریک آزادی میں شریک علماء مجاہدین
طلباء اورعام شہریوں کولاکھوں کی تعدادمیں موت کے گھاٹ
اتارا۔قید،نظربندی،ظلم اوردرندگی کے شرمناک مظاہروں کے ذریعے انگریزنے
ہندوستانی عوام پراپنی دہشت وفرعونیت کی دھاک بٹھادی لیکن ان عذاب لمحوں
میں بھی کچھ ایسے بچے کھچے غیرت مند ہندوستانی مسلمان مجاہدباقی تھے کہ
جنہوں نے برطانوی استعمارکے آگے سرنگوں ہونے سے انکارکیااور اپنے خون سے
آزادی کے گل ہوتے چراغ کوروشن رکھا۔”میرے شاہ جی” حضرت امیرشریعت
سیدعطااللہ شاہ بخاری اُن ہی عزم وہمت کے پالے مجاہدین ِ آزادی کے باغیرت
جانشین تھے جنہوں نے ہندوستان کی دھرتی پرانگریزکے تسلط کومستردکرتے ہوئے
"ان الحکم الاللہ”کانعرۂ رستاخیزبلندکیااوراس پرعزیمت راہ میں ہر صعوبت
وآزمائش کوجھیلنے کا عزم نوکیا۔
حیرت ہوتی ہے کہ سیدعطااللہ شاہ بخاری جیسے نہتے اوربے وسیلہ مجاہدین آخرکس
مٹی سے بنے تھے کہ وہ انگریزی استبدادکے مصائب وآلام ،دارو رسن اورظلم
وسفاکی کامردانہ وار مقابلہ کرتے اوراس کے نتیجے میں اپنی ناتواں جانوں
پرہرظلم کاوارسہتے مگرآزادیٔ وطن کی خاطر کسی بھی کڑی آزمائش کولبیک کہنے
سے بازنہ آتے تھے جبکہ آج تمامتروسائل اورایٹمی قوت رکھنے کے باوجودہمارے
قومی رہنماء اوراقتدارکے رسیاامریکاکے سامنے تھرتھرکانپتے دکھائی دیتے
ہیں۔ڈرون حملے نہتے شہریوں کوروزانہ خاک وخون میں نہلاتے ہیں مگر صاحبِ
اقتدار آنکھیں رکھنے کے باوجود نابیناہیں،کان ہیں مگربہرے ہیں۔دراصل قومی
غیرت اوردینی حمیت ہی قوموں کوسراٹھاکرجینے کاشعوردیاکرتی ہے جس کے آگے بڑی
سی بڑی طاقتیں خاکِ راہ ہوجاتی ہیں۔دراصل یہی وہ جوہرایمانی تھاجس نے
سیدعطااللہ شاہ بخاری جیسے غیورمجاہدِ آزادی میں بے خوفی،دلیری ،جرأت و
بہادری جیسی انمول صفات پیداکیں اوروہ سلطنتِ برطانیہ کے خلاف سینہ تان
کرکھڑے ہوگئے۔اپنی جوانی،سکون وراحت،آسائش وآرام کوآزادیٔ وطن کیلئے تج
دیا، صعوبتوں کومجاہدانہ واربرداشت کیامگر کبھی انگریزکی رعونت کوخاطرمیں
نہ لائے۔
واقعہ جلیانوالہ باغ(۱۹۱۹ء)سیدعطااللہ شاہ بخاری کی سیاسی زندگی کانقطہ
آغازثابت ہوا۔سفاک جنرل ڈائرنے جب سینکڑوں بے گناہ ہندوستانیوں کے سینے
چھلنی کردیئے توسید عطا اللہ شاہ بخاری کے دل میں حکومت برطانیہ کے متعلق
نفرت کے شدیدجذبات پیداہوگئے،رہی سہی ترکی کے مسلمانوں پرانگریزکی وحشت
وبہیمت نے نکال دی اور سید عطا اللہ شاہ بخاری ہندوستان کے صفِ اوّل کے
رہنماؤں کے ہمراہ تحریک خلافت کے برگ وباراٹھانے میں مصروف ہوگئے۔ برطانوی
استعمارکی اس مخالفت میں سید عطااللہ شاہ بخاری نے دینی اصولوں
کوبنیادبنایا۔وہ انگریزکواسلام اورمسلمانوں کادشمن سمجھتے تھے کیونکہ وہ
انگریزوں کی اسلام کے خلاف سازشوں کاادراک اورمسلمانوں پرپے درپے ان کی
خنجرآزمائی کا بچشم خود مشاہدہ کرچکے تھے۔تحریک خلافت کے دوران سید عطا
اللہ شاہ بخاری نے اپنی بے مثال ساحرانہ خطابت کے ذریعے ہندوستان بھرمیں
برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکادی تھی مثلاًصرف ضلع گجرات میں ہی
انہوں نے تن تنہاپانچ سوخلافت کمیٹیاں قائم کرکے پورے ضلع کوآتش جوالہ
بناکررکھ دیاتھا۔۱۸۵۷ءکے معرکے کے بعدتحریک خلافت ہی وہ ملک گیراحتجاجی
سلسلہ تھاجس نے تمام ہندوستانیوں کوبلاتفریق مذہب ایک لڑی میں پرودیااوران
کے رگ وپے سے غیرملکی حکمرانوں کارعب ودبدبہ نکال کر رکھ دیاتھا جس کیلئے
دیگر رہنماؤں کے شانہ بشانہ بنیادی کردارسیدعطا اللہ شاہ بخاری
کاتھاجوہماری ملی تاریخ کاایک ایساروشن باب ہے کہ جس پرہم بجا
طورپرفخرکرسکتے ہیں۔
۳ستمبر۱۹۳۹ءکوجنگ عظیم دوم کاآغازہواتوہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں
انگریزسے تعاون یااس کی مخالفت کرنے کے بارے میں اس وقت تک کسی فیصلہ
پرپہنچ نہ پائی تھیں لیکن سید عطااللہ شاہ بخاری کی جماعت مجلس
احرارہندوستان میں واحدسیاسی جماعت تھی جس نے معروف انگریز مصنف ڈبلیوسے
اسمتھ کے الفاظ میں”اس جنگ کوسامراجی جنگ قراردیتے ہوئے اس کے خلاف پہلی
آوازبلندکی”اور سید عطا اللہ شاہ بخاری کی قیادت میں تحریک فوجی بھرتی
بائیکاٹ کے اجراء کااعلان کیااوراحرارکے کوہِ ہمت رہنماءوکارکن ڈیفنس آف
انڈیاایکٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جیلوں کوآبادکرنے لگے۔مجلس احرارنے فوجی
بھرتی کی مخالفت میں ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ پنجاب کوبالخصوص اپنی
جنگ مخالف سرگرمیوں کامرکزبنالیاتھا۔
پنجاب انگریزوں کیلئے”بازؤئے شمشیرزن”کادرجہ رکھتاتھااور سید عطا اللہ شاہ
بخاری کے بقول :”پنجاب کے بعض اضلاع کی مائیں فرنگیوں کیلئے ہی بچے جناکرتی
تھیں”۔یہی صورتحال دیگر صوبوں میں بھی کم وبیش موجودتھی۔بہرحال غلامی کے
خمیرمیں گندھے ہوئے اس خطے میں انگریزکی مخالفت کرناموت کو دعوت دینے کے
مترداف تھالیکن سید عطا اللہ شاہ بخاری اوران کے بہادررفقاء نے آزادیٔ
ہندکیلئے جان کی بازی لگادی کیونکہ ان کے نزدیک ہندوستان کی آزادی سے
برطانیہ کیلئے اپنی نوآبادیات پرزیادہ دیرتک قبضہ برقراررکھناممکن نہ رہ
سکتاتھااورجس کی بدولت جزیرة العرب کاآزادہونایقینی تھا لہنداانہوں نے اپنی
تمامترقوت ہندوستان کی آزادی کیلئے جھونک ڈالی۔اپریل ۱۹۳۹ءکوپشاورمیں آل
انڈیاپولیٹیکل احرار کانفرنس منعقدکی گئی جس میں مجلس احرارکے بانی رہنماء
اورمفکرچوہدری فضل حق مرحوم نے جنگ عظیم دوم کے چھڑنے کی پیشگوئی کی تھی
اور انگریزپرکاری ضرب لگانے کیلئے اپنی مستقبل کی پالیسی کااعلان کیاتھا۔
اسی کانفرنس میں طے شدہ لائحہ عمل کے مطابق ہی جنگ شروع ہونے کے صرف ایک
ہفتہ بعد مجلس احراراسلام کی مجلس عاملہ نے برطانوی استعمار کوفوجی بھرتی
نہ دینے کی تاریخی قراردادمنظورکی تھی۔اس قراردادکی روشنی میں سید عطا اللہ
شاہ بخاری اوران کے عظیم رفقائے کارنے ہندوستان کے ہرمقام کے دورے کرنے کے
علاوہ پنجاب کے فوجی بھرتی کے حامل اہم اضلاع
سرگودھا،میانوالی،گجرات،اٹک،جہلم ،راولپنڈی وغیرہ میں اپنی تقاریرمیں فوجی
بھرتی نہ دینے کادرس دیا جس کے نتیجے میں دورۂ کے اختتام پر انگریزاوراس
کے کاسۂ لیس سر سکندر حیات کی یونینسٹ حکومت نے بوکھلاکرسید عطا اللہ شاہ
بخاری کوگرفتارکرکے ان پررعایا کو حکومت کے خلاف بغاوت پراکسانے کامقدمہ
دائرکیا جس کی سزاپھانسی سے کم نہ تھی اوریہی انگریزاوراس کی ایجنٹوں
کامقصودتھالیکن حکومتی مشینری کی تمامترپشت پناہی کے باوجود عدالت میں سی
آئی ڈی کے سرکاری رپورٹرلدھارام کی صاف گوئی نے سید عطا اللہ شاہ بخاری کے
حق میں پانسہ پلٹ دیااوروہ۷جون۱۹۴۷ءکوباعزت بری ہوگئے۔اس موقع پرجرمنی کے
مختلف شہروں میں ہوائی جہازکے ذریعے سید عطا اللہ شاہ بخاری کی تصاویرگرائی
گئیں جس پرتحریر تھاکہ ہندوستان کاسب سے بڑاباغی جسے برطانوی حکومت ہر حالت
میں پھانسی پرلٹکاناچاہتی تھی،وہ باعزت بری ہوگیا۔
غرض یہ کہ سیدعطااللہ شاہ بخاری نے انگریزاستبدادکے تناورشجرکی جڑوں
کوکاٹنے والی تحریک میں ہراول دستہ کاکرداراداکیااورانہوں نے خود دسیوں
تحریکیں چلائیں۔اللہ نے انہیں خطابت کابے تاج بادشاہ بنایاتھااورانہوں نے
اپنی اس بے نظیرصلاحیت کے ذریعے ہندوستان کے لاکھوں افرادکے قلوب واذہان سے
انگریزی حاکمیت کاخوف کھرچ ڈالااور انہیں آزادی کے مفہوم ومعنی سے آشناکرکے
انہیں تحریک آزادی میں شمولیت پرآمادہ کیا۔سید عطا اللہ شاہ بخاری کی
انگریزی استعمارسے نفرت کایہ عالم تھاکہ نجی محفل ہویااجتماع عام،ان
کے”لعنت برپدرفرنگ ” کے نعرۂ رستا خیزسے درودیوارکانپ اٹھتے تھے۔وہ
فرمایاکرتے تھے:
میں ان سؤروں کاریوڑچرانے کوبھی تیارہوں جوبرٹش امپیریلزم کی کھیتی ویران
کرناچاہیں ۔میں کچھ نہیں چاہتا،میں ایک فقیرہوں ،اپنے ناناۖکی سنت پرکٹ
مرناچاہتاہوں اوراگرکچھ کرناچاہتا ہوں تواس ملک سے انگریزکامکمل انخلاء
میری دوہی خواہشیں ہیں۔میری زندگی میں یہ ملک آزادہو جائےیاپھرمیں تختۂ
دارپرلٹکادیاجاؤں۔میں ان علمائے حق کاپرچم لئے پھرتاہوں جو۱۸۵۷ءمیں فرنگیوں
کی تیغ بے نیام کاشکارہوئے تھے۔ ربّ ذوالجلال کی قسم:مجھے اس کی کچھ پرواہ
نہیں کہ لوگ میرے بارے میں کیاسوچتے ہیں؟لوگوں نے پہلے ہی کب سرفروشوں کے
بارے میں راست بازی سے سوچاہے؟وہ شروع سے تماشائی ہیں اورتماشہ دیکھنے کے
عادی ہیں۔میں اس سرزمین پرمجدّدالف ثانی کاادنیٰ سپاہی ہوں،شاہ ولی اللہ
اور خاندان ولی اللہ کامبلغ ہوں،سید احمد شہیدکانام لیوااورشاہ اسماعیل
شہید کی جرأت کاپانی دیواہوں۔اُن پانچ مقدمہ ہائے سازش کے پابہ
زنجیرعلمائے امت کے لشکرکاایک خدمت گزارہوں جنہیں حق کی پاداش میں عمرقید
اور موت کی سزائیں دی گئیں ۔ہاں!ہاں،میں انہیں کی نشانی ہوں،انہی کی بازگشت
ہوں۔میری رگوں میں خون نہیں،آگ دوڑتی ہے۔میں علی الاعلان کہتاہوں کہ قاسم
ناتوتوی کاعلم لیکرنکلاہوں۔میں نے شیخ الہندکے نقش قدم پرچلنے کی قسم کھائی
ہے۔میں زندگی بھراس پرچلتارہاہوں اوراسی راہ پر چلتا رہوں گا،میرااس کے
سواکوئی مؤقف نہیں،میراایک ہی نصب العین ہے ،برطانوی سامراج کی لاش
کوکفنانااوردفنانا”۔
خطابت کے میدان میں سید عطا اللہ شاہ بخاری کاایساتہلکہ تھاکہ کئی غیرمسلم
ان کی تقریرسن کر مسلمان ہوگئے اورحاضرجواب ایسے کہ ایک مرتبہ ایک مخالف نے
الزام لگاتے ہوئے سوال کیاکہ حضرت آپ انگریزکو”شو”تماشہ دکھاتے ہیں،آپ نے
فی البدیہہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں انگریزکو”شو”نہیں بلکہ
اپناٹوٹاہوا”شو”(جوتا)دکھاتاہوں۔ ایک مخالف نے پوچھاکہ ”زندگی کیسی
گزری؟”آپ نے جواب دیاکہ آدھی جیل میں اورآدھی ریل میں! ایک شخص کہنے لگاکہ
شاہ جی!کیامردے سنتے ہیں؟تو فوری مسکراتے ہوئے جواب دیاکہ بھائی میری بات
توزندہ نہیں سنتے مردہ کی کیابات کریں۔ایک دفعہ علی گڑھ پہنچے ،بعض طلباء
نے شاہ صاحب کوتقریرنہ کرنے کاپہلےسے پروگرام بنارکھاتھا۔شاہ صاحب جونہی
اسٹیج پرپہنچے توطلباء نے شور مچانا شروع کردیا۔شاہ صاحب نے بڑی نرمی
اورعاجزی سے طلباء سے کہاکہ میری ایک بات سنو۔میں بہت لمبا سفر کرکے آپ سے
ملنے کیلئے آیاہوں چلوقرآن کاایک رکوع ہی سن لوتوطلباء کی اکثریت نے رضا
مندی کااظہارکردیا۔ شاہ صاحب نے انتہائی دلسوزی سے جب قرآن پڑھناشروع کیاتو
گویامجمع دم بخودہوگیا۔جب تلاوت ختم کی توفرمایاکہ اس رکوع کاترجمہ بھی سن
لو۔طلباء قرآن سن کراس قدر مسحورومبہوت تھے کہ شاہ صاحب نے دوگھنٹے تک خطاب
فرمایااوروہی طلباء شاہ صاحب سے اپنے نارواسلوک پر اپنی ندامت کااظہارکررہے
تھے۔
ربّ ذوالجلال نے سید عطا اللہ شاہ بخاری کی قربانیوں کاصلہ ان کودنیامیں
بھی دیاکہ انہوں نے انگریزکوملک چھوڑتے دیکھااورہندوستان۱۹۴۷ءکو فرنگی کے
پنجہ استبدادسے آزادہوگیا۔ ہندوستانی عوام نے غلامی کے منحوس سائے چھٹ جانے
کے بعدآزادفضاؤں میں سانس لیا۔ احراررہنماؤں کی نگاہِ بصیرت کے عین مطابق
ہندوستان کی آزادی کے بعدبرطانیہ کی اپنی نوآبادیوں پرگرفت ڈھیلی پڑنی شروع
ہوگئی اورایک ایک کرکے اسلامی ممالک آزادہوتے چلے گئے۔اگرہندوستان آزادنہ
ہوتاتوعالم ِاسلام کی غلامی کادورجانے کتناطویل ہوجاتا!بلاشبہ یہ کارنامہ
ہندوستان کی حریت پسند جماعتوں اوربالخصوص احرارکے قائدامیرشریعت سید عطا
اللہ شاہ بخاری جیسے زعماء کے سرہے جنہوں نے غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں
حریت فکروعمل کے چراغ روشن کئے اورملت اسلامیہ کوآزادی کی بہاروں سے
سرفرازکرنے میں مجاہدانہ کرداراداکیا۔
سید عطا اللہ شاہ بخاری جن کٹھن حالات میں ناگریزاستعمارسے نبردآزماہوئے،ان
جانگسل حالات کے تصورسے ہی دل بیٹھ جاتاہے۔عہدِ حاضرمیں دنیابھرکے مسلمان
جن پرآشوب حالات میں مبتلاہیں اورجس طرح امریکی استعمارکی چیرہ دستیوں کے
نرغے میں آئے ہوئے ہیں،اِس صورتحال میں عالم اسلام کے رہنماء اورحکمران
اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے امریکاکی دہشتگردی کے خلاف ڈٹ جانے کی
بجائے جس کوتاہ ہمتی اوربزدلی کے ساتھ امریکاپرہی تکیہ کرتے ہوئے اس کی
فرعونیت کے آگے جھکتے چلے جا رہے ہیں اوراپنے ساتھ ملت اسلامیہ کواندھیروں
کی منزل کاراہی بنا رہے ہیں،اسے دیکھتے ہوئے امیرشریعت سید عطا اللہ شاہ
بخاری جیسے مردِ مجاہدکی یادتڑپاکررکھ دیتی ہے کہ جنہوں نے موجودہ حالات سے
کئی گنا بدتر حالات میں بھی برطانوی امپریلزم کاجی داروں کی طرح مقابلہ
کرکے انہیں ہندوستان سے چلتاکیاتھا۔آج سے ۶۶ برس قبل امیرشریعت سیدعطااللہ
شاہ بخاری نے اپنے فرزندحضرت مولاناسید ابوذربخاری کوجونصیحت فرمائی تھی
اسے آج بھی پیش نظررکھتے ہوئے پاکستان اورعالم اسلام کے استحکام ،
تعمیروترقی اوراپنی قوم کی تربیت کی بنیادیں استوارکی جاسکتی ہیں۔امیر
شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری نے فرمایا:میں نے پوری دنیاکی تاریخ اورحالات
پرغورکیاتومجھے تاریخ انسانیت میں خدا،رسول ،امت رسول اورپوری دنیاکے سچے
مسلمانوں کافرنگی سے بڑھ کراوراس سے بدترکوئی دشمن نظر نہیں آیا۔فرنگی یااس
کاکوئی دوست غلافِ کعبہ کالباس پہن کراورچوبیس گھنٹے زم زم سے غسل کرکے
باوضو اور مطہررہنے والابھی اس شکل میں تمہارے پاس آئے،اگرمیرے تخم میں سے
ہو اورحلالی ہوتواس پرکبھی اعتمادنہ کرنا۔تم نہیں جانتے:عدواللہ،عدورسول
اللہ ،عدوالقرآن، عدو المسلمین ،عدوالسلام والذین فرنگی سے بڑھ کرنہ کائنات
میں ہوا،نہ اب ہے ،نہ آئندہ کبھی ہوگا”۔
قیام پاکستان کے بعدشاہ جی حکمرانوں کی وعدہ خلافی اوردین مخالف روّیوں سے
بہت آزردہ دل تھے ۔کسی نے سوال کردیا:شاہ جی!کیاآپ اب ان حکمرانوں کے خلاف
جدوجہدکریں گے؟ فرمایا ”بھائی سب کچھ قصہ ماضی بن چکا،ہم توعمرکے
عہدِآخرمیں ہیں،بڑھاپاشروع ہوکرجوان ہو چکا ہے،بالوں میں سپیدی آگئی
ہے،سفرایک تھا،منزلیں کئی،بعض منزلوں پررکناپڑا،بعض جگہ ٹھہرنا پڑا،کچھ
دیرسستائے،تلوؤں کوسہلایا۔آہوں اور کانٹوں میں معانقہ ہوچکاتوچلنے
لگے،پھرچلتے ہی رہے،حتیٰ کہ ایک رات بیت گئی،دن چڑھا سورج نے شعاعوں کاچمن
آراستہ کیا ،غنچوں کاچہرہ مسکرا اٹھا،آنکھ اٹھاکردیکھاتوگردوپیش وہی رات
کاسناٹاتھا۔
یہ داغ داغ اجالایہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظارتھاجس کایہ وہ سحرنہیں
امیرشریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری نے۱۹۴۴ءمیں مجلس احرارمیں اپنے خطاب میں
اپنے ساتھیوں کی ہمت بندھاتے ہوئے فرمایا:”حضرت آدم علیہ السلام سے
پیغمبرآخرالزمان حضرت محمدۖتک کوئی ایسانبی نہیں آیاہے جس نے اپنی تعلیمات
میں جلاپیداکرنے کیلئے اپنے دورکے کسی انسان کے سامنے زانوئے تلمیذتہہ
کیاہوکیونکہ نبی اوررسول براہِ راست اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرتے ہیں۔نبی
کی اللہ تعالیٰ خودرہنمائی فرماتے ہیں۔انبیاء کرام بہت بہادربھی ہوتے ہیں
اورمعصوم بھی۔ آپ انبیاء علیہ السلام کے احوال پرنگاہ ڈالئے،جونبی دنیامیں
تشریف لاتاہے،اس کے ایک ہاتھ میں الہام الٰہی کی کڑکتی بجلیاں ہوتی ہیں
اوردوسرے ہاتھ میں تلوارجوکاشانۂ باطل پربرق بن کرگرتاہے۔اس کے جلومیں
سمندروں کاشوراورطوفانوں کازورہوتاہے۔اس کی رفتار فرمانرواؤں کادل
دھڑکادیتی ہے اوراس کی ایک للکارسے کائنات کادل دہل جاتاہے”۔
جوچٹانوں میں راہ کرتے ہیں،منزلیں ان کوراہ دیتی ہیں
اہل ہمت کے آشیانوں کو،بجلیاں بھی پناہ دیتی ہیں
|