ووٹ کسے دیں؟

الیکشن 2018کی تیاریاں عروج پر ہیں ۔ شاہراہوں اور چوراہوں پر قد آدم فلیکس بورڈ آویزاں ہوچکے ہیں۔ جوڑ توڑ کی کوششیں بڑی تیزی سے جاری ہیں۔ دیرینہ رفاقتیں رقابتوں میں تبدیل ہوری ہیں تو شدید رقابتیں نئی محبتوں کا روپ دھار رہی ہیں۔ مدتوں سے ہمارے نظام سیاست پر مسلط وہی الیکٹیبلنرموسموں کے بدلتے ہوئے تیور اور ہواؤں کا رخ بھانپ کر ہمدردیاں بدلتے ،شاید یہ اس نظام کی مجبوری ہیں جو ایک بار پھر یہاں سے وہاں منتقل ہورہے ہیں۔ ان کے دامن پر پڑے کرپشن اور ظلم و ناانصافی کے ہزاروں بد نما دھبے پارٹی تبدیل کرتے ہی صاف وشفاف ہوجاتے ہیں۔

جب ایک جماعت میں ان کا وجود بوجھ بننے لگتا ہے اور گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دینا مشکل نظر آتا ہے تو یہ پارٹی تبدیل کرکے پھر پورے جوبن سے نکھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ یہی وہ چہرے ہیں جن کی وجہ سے سیاست، جو خدمت ِعوام کا مقدس مشن تھا، مکروہ دھندہ بن چکی ہے اور اقتدار کے ایوان متعفن ہوچکے ہیں۔ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا اور عزتوں کی دھجیاں بکھیرنا شایدان کے ہاں کوئی عیب ہی نہیں۔ اپنے لیڈر اور جماعت کی حمایت میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہنا شاید ان کے لیے کوئی گناہ بھی نہیں۔چینلز پر بیٹھ کر کل تک جنہیں گالیاں دے رہے ہوتے، انہی کی تعریفیں کرتے ان کے چہروں پر ندامت کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آتے۔

ہم عوام ہیں کہ بے چارے پھر ان کے دامنِ فریب میں پھنس جاتے ہیں۔ اب پھر یہ لوگ ہمارے دروازوں پر آئیں گے، ہمدردیاں جتائیں گے، سبز باغ دکھائیں گے، ووٹ لیں گے اور پھر ہمیشہ کی طرح غائب ہوجائیں گے ۔یقین جانیے! ان کا ہدف حصولِ اقتدار کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ ہمارے مسائل اور مجبوریوں کے ساتھ انہیں دور دور تک کوئی تعلق خاطر نہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہم سے خوشیاں چھینی ہیں، ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک کیا ہے،اپنی تجوریوں کو بھر ا اور ملک کو بحرانوں سے دوچار کیا ہے۔

یاد رکھیں!اگر ہم نے پھر انہی کو ووٹ دے دئیے تو ملک کے حالات کبھی نہ بدلیں گے ۔ پارٹی یا برادری کا دباؤ ہر گز قبول نہ کیجئے بلکہ سوچ سمجھ کر باکردار نمائندوں کو ووٹ دیجئے ۔اسی سے تبدیلی آئے گی، چہرے ہی نہیں نظام بھی بدلے گا۔ ان شاء اﷲ

تہیہ کرلیں کہ قوم سے بار بار جھوٹ بولنے والے ، بددیانت، عوام کا مال ہڑپ کرنے والے قرضے معاف کروانے اور اقتدار کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کو ہرگز ہرگز ووٹ نہیں دیں گے۔ ورنہ ظالم کی حمایت کرکے آپ بھی ظلم میں شریک بن جائیں گے۔

حصول ِاقتدار کی دوڑمیں شامل ہونے کے لیے’’ متحدہ مجلس عمل ‘‘نے بھی ایک بار پھر انگڑائی لی ہے۔ عام سیاستدان جلسہ کرنے کے لیے لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں تب جا کے کچھ مجمع لگتا ہے جبکہ علمائے کرام معاشرے کا وہ خوش نصیب طبقہ ہیں جنہیں ہرجمعہ یہ مجمع مفت میسر ہوتا ہے۔ سیاسی جلسے اور مذہبی اجتماع کے شرکاء کے افکار اور ترجیحات میں بے پناہ فرق ہوتا ہے۔ وہاں فقط دنیاوی مقاصد ہوتے ہیں تو یہاں قلبی تعلق اور روحانی جذبات موج زن ہوتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ نے سیاست میں شامل ہونے سے پہلے عوام کو وہ سیاسی شعوردینے کی کوشش کی ہے جو پاکیزہ سیاست کو فروغ دے سکے؟کیا آپ نے فکر ونظر کی تبدیلی اور کردارسازی اس نہج پر کی ہے کہ عوام روایتی سیاستدانوں کو چھوڑ کر آپ کو ووٹ ڈالیں؟گزارش ہے کہ فقط چند سیٹیں قطعاً آپ کے شایان شان نہیں ہیں ۔اگر حالات ماضی سے مختلف نہ ہوئے تو یقین جانئے آپ پھر پہلے کی طرح خود کو اسمبلی میں اجنبی محسوس کریں گے ۔

نہایت ادب واحترام کے ساتھ علمائے کرام کے حضور ایک سلگتا ہوا سوال یہ بھی ہے کہ ہم نے سیاست کے دستر خوان پر تو آپ کو بارہا اکٹھے بیٹھتے دیکھا، کیا ممکن ہے کہ مذہب کے نام پر بھی کبھی ایسا اتحاد عمل میں آسکے؟ جس میں تنگ نظری،تعصب، اور فرقہ واریت کا زہرنہ ہو۔جس میں اپنے اپنے مسلک کے پیروکاروں کو یہ پیغام دیا جائے کہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام اور اس کی دلیل تحمل سے سنی اور سمجھی جائے، دلائل کے جواب میں تلخ لفظوں کی بوچھاڑ کا ماحول محبت و الفت میں بدلا نظر آئے۔ عبادات سے لے کر معاملات تلک ہمارا دین تو ہمیں در س ہی اتفاق و اتحاد کا دیتا ہے۔ ووٹ اور چندہ تو ہر فرقے اور مسلک کا جائز ہے کیا بلا تفریق مسلک و فرقہ عبادت کے لیے ہر مسجد سبھی کے لیے یکساں قابل احترام بھی ہواور باعث عبادت بھی،ایسا ممکن ہے؟

کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی بھی مسجد میں ایک مسلمان اپنے مسلک کے مطابق عبادت کرسکے اور کوئی اسے گھور کر نہ دیکھے؟اے کاش !کبھی ایسا منظر دکھائی دے اور ایسی خبر پڑھنے کو ملے کہ تمام مذہبی جماعتوں کے قائدین نے فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے اتحاد قائم کر لیا ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو ہمارا یقین ہے کہ آپ کو ووٹ مانگنے نہیں پڑیں گے، لوگ خود آپ کو منتخب کریں گے۔ سیاست کا موجودہ چلن بھی بدلے گا، ملک کے حالات بھی تبدیل ہوں گے اور قوم آپ کو دعائیں بھی دے گی۔

Saleem Jabbari
About the Author: Saleem Jabbari Read More Articles by Saleem Jabbari: 5 Articles with 3006 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.