سال کا ہر روز ایک نئی سوغات لاتا ہے اور وہ اپنی جگہ
ایک خاص مقام و منزلت رکھتاہے۔بعض ایام کسی نسبت سے متصل ہوجانے کے سبب اسی
سے مخصوص ہوجاتے ہیں ۔جیسے15اگست یوم آزادی ہند ،26 جنوری یوم جمہور ہند ،
2اکتوبر گاندھی جینتی اور 9 نومبر عالمی یوم اردو کے نام سے جڑاہو اہے۔یہ
وہ خاص ایام ہیں جن سے کوئی خاص واقعہ یا شخصیت جڑی ہوئی ہیں ۔اسی بناء پر
انہیں بہت سی عز و شرف سے یاد کیا جاتاہے ۔
اسی طرح 14 اکتوبر بھی ہے ۔جسے "یوم اطفال "کےنام سے جاناجاتاہے ۔جس طرح
دیگر ممالک میں روز اطفا ل کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اسی طرح ہمارے
پیارے وطن ہندوستان میں بھی پنڈت جواہر لعل نہرو کے یوم پیدائش کے موقع پر
اس روز کو بڑے ہی شان و شوکت سے منایا جاتاہے ۔
ملک بھر میں مختلف گوشہ و کنار مثلاًاسکول ،کالج اوریونیورسٹیووغیر ہ میں
بچوں کے متعلق مستقبل کو سنوارنے کے لئے اساتذہ،پروفیسر اور صاحبان علم و
ادب حضرات اپنی مفید بیانات سے سامعین کو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ
اپنے چشم وچراغ کو مدہم نہ ہونے دیں بلکہ انہیں مزید روشن وتابناک بنانے
میں ہرممکنہ کوشش کرتے رہیں۔چونکہ آغوش مادر بچے کی سب سے پہلی اور سب سے
عظیم تعلیم گاہ ہوتی ہے ۔اگر وہاں سے اس کی صحیح پرورش ہوگئی تو پھر مستقبل
روشن ہے ۔
اس دن کو چاچانہرو سے منسوب کیا جاتاہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادئ ہند کے
بعد پہلے وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بچوں سے بے لوث محبت اور بےحد
پیار کرتے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ "آج کے بچے ملک کا مستقبل ہیں ۔اس لئے ان
کی پرورش پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔"بچوں کے سلسلے میں آپ کا بیان ہے کہ
"ننھے ومعصوم بچے اور باغ میں کھلنے والی کلیاں ایک جیسی ہوتی ہیں ۔ان کی
پرورش بہت احتیاط اور پیار سے کی جانی چاہئے۔کیوں کہ یہ ملک کے باشندے ہیں
اور کل کا مستقبل ہیں ۔"
اقوام متحدہ نے 1959میں حقوق اطفال پر ایک اعلامیہ جاری کیا۔جن ممالک نے
اسے اختیار کرنے میں پہل کی ان میں سے ایک ہندوستان بھی تھا۔3 ابواب اور
54شقوں پر مشتمل یہ اعلامیہ بچوں کےجینے کے حقوق ،مناسب غذا،ان کی دیکھ
بھال اور ان کے صحت یابی کی سہولیات کےمتعلق تھا ۔
مذکورہ دستاویز کی بناء پر ہندوستان نے1974میں بچوں کے لئے ایک قومی پالیسی
کا اعلان کیا۔جس میں سات نکات اہم قرار پائے تھے ۔
(1)بچے ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
(2)ان کی دیکھ بھال کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔
(3)بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشو نما کی سہولیات فراہم کرناہماری ذمہ داریوں
میں شامل ہے۔
(4)ترقیاتی منصوبوں میں بچوں ،ماؤں اور خصوصی معذور بچوں کاخاص خیال
رکھاجائے۔
(5)نیشنل فیملی کی تشکیل دی جائے ۔
(6)بچوں اور ان سے متعلق تما م پہلوؤں کی دیکھ بھال کیاجائے ۔
(7)بچوں کی تقریبات اور دیگر پروگرام کو فروغ دیاجائے۔
یہ وہ قوانین ہیں جو صرف کاغذو ں تک محدود رہے اور آج ان پر گردو غبار کی
ضخیم پرتے پڑی ہوئی ہیں۔آج ہمارے ملک کا یہ عالم ہوچلاہے کہ ناداری اور
مفلسی کے سبب بہت سے بچے تعلیم چھوڑکر مزدور ی کو اپنارہے رہیں اور
مجوراًصرف چند روزہ خوشی کے لئے اپنی پوری زندگی داؤں پر لگا دیتے ہیں۔اگر
آج ہی شعور بیدارہوجائے اور بچوں کی نشو نماپر توجہ دی جانے لگے تو آنے
والا کل خوب سے خوب تر ہوتاچلاجائے گا۔مگر ایسامحسوس ہوتاہے کہ ہنو زدہلی
دو راست ۔
۔۔۔لیکن چونکہ امید پر دنیا قائم ہے اس لئے ناامید نہیں ہوناچاہئے ۔بلکہ
ہمیں حتی الامکان اپنے بچوں کی تعلیمی ترقی پر خصوصی توجہ دینی چاہئے ۔ہماری
اور آپ کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ آج ہی سے فکر فردامیں محو میں ہوجائیں
اور۔۔۔ |