ہر انسان کی یہ دیرینہ خواہش ہوتی ہےکہ وہ اپنی زندگی میں
کامیابی کی بلندیوں تک پہونچے تاکہ لوگوں کےدرمیان سے رخصت ہوجانے کے بعد
بھی اس کانام عزت واکرام سے لیا جائے ۔پر وردگار عالم نے ہر انسان کے اندر
ایک بلا کی صفت رکھی ہے جسے تلاش کرکے بروئے کار لانا کامیاب زندگی کی ایک
اہم کڑی ہے ۔جن حضرات نے قدرت کے اس پوشیدہ جوہر کو پہچانااور عملی زندگی
میں اس سے استفادہ بھی کرتے رہے انہوں نے اپنی زندگی میں چارچاند لگادیئے ۔لیکن
سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس مخفی صلاحیت کوپہچانیں کیسے؟!
ذیل میں کچھ عندیہ پیش کئے جارہے ہیں جو شاید آپ کی زندگی میں مفید ثابت
ہوں ۔
آپ دن بھر جتنے موضوعات پر کام کرتے ہیں۔ایک دفعہ ان کا مقائسہ کریں کہ کس
موضوع سے آپ کی روح کوبالیدگی ملتی اور کس سے جی متلاتا ہے ۔مثلا ً اگر آپ
کو کتابت میں قلبی سکون میسر ہورہا ہے تو جان لیں کہ اس میں آپ کو قابل قدر
کامیابی مل سکتی ہے ۔
جس خاص صلاحیت کو خدانے عطاکیاہے اس کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کو
انجام دیتے وقت کسی کی داد و تحسین اور معاوضہ کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور
اگر اتفاق سے حق زحمت معمول کے مطابق نہیں ملا تب بھی آپ اسے بخوشی قبو ل
کرنے پر راضی ہوجاتے ہیں ۔
جو خاص کمال عطیہ پروردگا رہوتاہے وہ آپ کودوسروں سے منفرد کرتا ہے ۔اور اس
کام میں آ پ کا ہنر کچھ اس طرح نکھر کر آتاہے کہ چاہتے نہ چاہتے دشمن بھی
تعریف کرنے پر مجبور ہوجاتاہے۔
جو استعداد خداوند عالم نے آپ کے خاکی جسم میں ودیعت فرمائی ہے ۔آپ اس کی
انجام دہی میں اس قدر محو ہوجاتے ہیں کہ وقت اور زمانہ اڑتے ہوئے بادل کی
طرح گزر جاتاہے اور پتہ تک نہیں چلتا!اور اس میں تھکن کااحساس تک نہیں
ہوتااگر چہ وہ طولانی ہی کیوں نہ ہوجائے!
جو انفرادی کمال آ پ کوھبہ کیاگیاہے اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے قلبی
رجحان اس قدر شدید ہو جاتاہے کہ اسے انجام دیئے بغیر سکون نہیں ملتا۔
خالق یگانہ کی طرف سے انسانوں کی مخصوص صلاحیت و کمال کا اندازہ یوں لگایا
جاسکتاہے کہ اس کی خاطر اہم سے اہم امو ر قربان کردیئے جائیں تو کوئی غم
نہیں ہوتا۔
پس ! ترقی کے مستحکم ستون پر کامیابی کی سر ب فلک عمارتیں تعمیر ہوسکتی ہیں
۔صرف اپنے دلی کاموں میں عمل پیہم اور جہد مسلسل کی بنیادی شر ط ملحوظ نظر
رہناچاہئے ورنہ ۔۔۔زیادہ تر ایسامشاہدہ میں آیاہے کہ اکثر افراد میں
استقلال نہ ہونے کے باعث یا تو ان کے ارمانوں پر پانی پھر جاتاہے یا ان کی
تمنائیں ادھوری رہ جاتی ہیں ۔ |