کسی بھی ملک کو اصولوں پر چلانے کے لیے قانون وضع کئے
جاتے ہیں اور یہ تمام قوانین تمام لوگوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ ریاست کے بادشاہ،
وزیر، مشیر وغیرہ سے لے کر ایک چپڑاسی اور عام آدمی اس قانون کے تابع ہوتے
ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتو پھر ریاست کے اندر ریاست جنم لینا شروع کر دیتی ہیں۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون پروان چڑھتا ہے۔ جسے جنگل کا قانون کہا
جاتا ہے۔
ملک میں رہتے ہوئے تمام اختیارات کا ریکارڈ، خریدو فروخت کا ریکارڈ رکھا
جاتا ہے تاکہ قوم کو، یا آنے والی حکومت کو پچھلی حکومتوں کے ریکارڈ کی
ضرورت پڑے تو وقت پر مل جائے۔ اسی سے لیے قومی احتساب کا عمل شروع ہو تا ہے
لیکن جب کرپشن سے بچنے کے لیے ان ریکارڈ کو آگ لگا دی جاتی ہے تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیے میں آپ کو ایک دلچسپ، اصول پسند اور اصول پسند طلبا کاواقع پڑھنے کو
دیتا ہوں جس سے آپ کو آج اور گزرے ہوئے کل کا اندازہ ہو جائے گا اور سکول
کے بچوں کے حوصلے اور سوال و جواب دیدنی ہیں کہ وہ اس وقت کے قائد جناب
قائداعظم ؒ سے کس طرح ریکارڈ اور رسیدوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ بابائے قوم حضرت قائد اعظم ؒسے بھی رسیدیں مانگی گئی
تھیں اور کیا آپ کو علم ہے جب ایک طالب علم نے حضرت قائد اعظم سے رسیدیں
مانگیں تو ان کا رد عمل کیا تھا؟
یہ 1942 کی بات ہے۔ بابائے قوم کو پاکستان کی جدوجہد کے لیے فنڈز درکار
تھے، بابائے قوم نے اپنی قوم سے اپیل کر دی اور قوم نے اپنے قائد کی کال پر
دیدہ و دل فرشِ راہ کر دئیے۔بڑے،بوڑھے اور جوان تو رہے ایک طرف، بچے اور
حتیٰ کہ یتیم خانوں کے بچے بھی نقدِ جاں ہتھیلی پر رکھے میدان میں آ گئے۔
احمد نگر کے امریکن سیشن ہائی سکول کے طلباء نے بابائے قوم کی خدمت میں
اکتالیس روپے روانہ کیے۔انہیں منی آرڈر کی رسید تو مل گئی کہ محترمہ فاطمہ
جناح نے قائد اعظمؒکی جگہ یہ منی آرڈر وصول کر لیا ہے لیکن انہیں مسلم لیگ
کی طرف سے کوئی رسید نہ ملی۔ چند دن انتظار کے بعد اب دو بچے وحید علی اور
حمید علی قائد اعظمؒ کو ایک خط لکھتے ہیں۔ دل تھام لیجیے اوربچوں کی معصوم
گلابی اردو میں لکھا یہ خط پڑھتے ہیں:
”مسلم لیگ زندہ باد، قاعدے اعظم زندہ باد، پاکستان زندہ باد
بخدمت شریف عالی جناب محمد علی جناح کو از طرف سید وحید علی کے آداب عرض
عرض گذارش یہ ہے کہ ہم مسلم طلبائے امریکن سیشن ہائی سکول کے لڑکوں نے آپ
کی خدمت میں مسلم لیگ الیکشن فنڈ کی مدد کے لیے 41 روپے روانہ کیے تھے۔اور
جس میں ہم نے التماس کیے تھے کہ پیسے ملتے ہی ہمارے پتہ پر دفتر مسلم لیگ
کی رسید روانہ کیجیے۔لیکن ابھی تک دفتر مسلم لیگ سے ہمیں کوئی رسید نہیں
ملی۔حالانکہ ہمیں منی آرڈر کا فارم واپس مل گیا ہے اور اس پر یہ دستخط ہے۔
For MA Jinnah اور اس کے نیچے F Jinnah۔میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ
کو یہ منی آرڈر ملی یا نہیں۔کیونکہ ہم نے ایک خط?(روزنامہ?) اقبال کے
ایڈیٹر کو بھی لکھے تھے۔کہ اس کو اخبار میں شائع کر دے۔لیکن نہ وہ اب تک
شائع ہوئے نہ مسلم لیگ کے دفتر سے رسید آئی۔تو یہ کیا بات ہے۔یہ ہمیں جلد
از جلد معلوم کریں۔اور اگر آپ کو چندہ مل گیا ہو گا تو اس کی رسیدہمارے پتہ
پر اور اقبال میں اس کا مضمون ضرور بضرور شائع کرنے کے لیے ایڈیٹر کو لکھے۔
راقم
سید وحید علی حمید علی“
ذرا غور فرمائیے، ایک بچہ جسے معلوم ہے کہ اس کا منی آرڈر محترمہ فاطمہ
جناح کو مل چکا ہے، وہ صرف ا س بات پر خفا ہے کہ مسلم لیگ دفتر نے اسے رسید
کیوں نہیں بھیجی۔وہ کہتا ہے ”: ہمیں رسید نہیں ملی، یہ کیا بات ہے، یہ ہمیں
جلد از جلد معلوم کریں“
لیکن کوئی اس بچے سے یہ نہیں کہتا حد ادب، تمہیں احساس ہے تم کس سے مخاطب
ہو۔کوئی اسے ڈانٹتا نہیں کہ بے شرم تم حضرت قائد اعظمؒ سے اکتالیس روپے کی
رسیدیں مانگ رہے ہو۔بلکہ بابائے قوم حکم دیتے ہیں کہ منی آرڈر کا ریکارڈ
دیکھا جائے اور فی الفور رسید روانہ کی جائے۔قائد اعظم سے اکتالیس روپے کا
حساب مانگا جاتا ہے،اور مانگنے والے کو حساب دیا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کے
قیام کی جدوجہد کی کہانی ہے۔اور اب قائد اعظم کے پاکستان کا یاروں نے وہ
حشر کر دیا ہے کہ اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں اور حساب مانگا جائے تو
اہلِ دربارپر رقت طاری ہو جاتی ہے کہ دیکھو سوال نہ پوچھو، اس سے جمہوریت
خطرے میں پڑ جاتی ہے
جس نسل نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر پاکستان بنایا تھا، اس نے قربانیوں کی
تاریخ رقم کی تھی۔ان قربانیوں اور اس جذبے کی ایک جھلک بچوں کے ان خطوط میں
ملتی ہے جو اس دور میں قائد اعظمؒ کو لکھے گئے۔یہ خطوط بتاتے ہیں کہ ریاست
پاکستان، جسے آج کک بیکس، کرپشن، منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں کے ذریعے
نوچا اور لوٹا جا رہا ہے،یونہی وجود میں نہیں آ گئی، کتنی ہی معصوم خواہشات
اینٹ گارے کی صورت کام آئیں تب یہ ملک بنا۔
جماعت دوم کے طالب علم جاوید احمد خان نے 14 اپریل کو بابائے قوم کو خط
لکھا، دل تھام کے پڑھیے کہ ان دو سطروں میں مقدس جذبوں کے ساون چھپے ہیں ”:
قاید و اعظم کی خدمت میں عرض ہے کہ میں نے اپنے جمع کئے ہوئے سب پیسے جو
مجھے میرے ابی جی دیا کرتے ہیں آپ کو بھیج دئے ہیں۔میں نے سنا ہے کہ آپ ہم
کو آزادی لے کر دیں گے“
بہالولنگر سے پانچویں جماعت کے طالب علم احمد یار خان نے 7 اپریل کو لکھا
”: بخدمت جناب محمد علی جناح، زندہ باد قائد اعظم تا ابد زندہ باد، پانچ
روپیہ جو مجھ کو میرے والدین نے امتحان میں کامیاب ہونے پر دیئے خدمت اقدس
میں پیش کر رہا ہوں“۔
بانکی پور کے مسلم ایچ ای سکول کے جماعت نہم کے طالب علم نے لکھا ”: محترم
قائد، آپ کی تابعداری میرا فرض ہے۔میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر مہینے سات دن
تک بغیر ناشتے کے جایا کروں گا اور اس سے جو پیسے بچیں گے آپ کو بھیجوں
گا“۔
نئی دہلی سے چھ سالہ تسنیم اعجاز نے لکھا ”: میرے پاس عیدی کے اور امتحان
کے انعام میں جو ملا تھا سو 100 روپیہ جمع تھے ان کو جناب کی خدمت میں پیش
کر رہا ہوں،آپ اس کو مسلم لیگ کے چندے میں جمع فرما لیں“۔
ریواڑی کے چوتھی جماعت کے فضل الرحمن نے پورا ایک ماہ اپنا جیب خرچ جمع کیا
اور وہ صرف تین پیسے بن سکا۔ 16 اگست کو غریب باپ کے اس معصوم بیٹے نے وہ
تین پیسے قائد اعظم کی خدمت میں پیش کر دئیے اور خط میں لکھ دیا کہ ہیں تو
تین پیسے مگر پورے ایک مہینے کا جیب خرچ ہے
اور ذرا یہ خط پڑھیے جو صوبہ مدارس کے شہر کڑپہ کے ’یتیم خانہ اسلامیہ‘ کے
طلباء کے قائد کو لکھا:
”ہمارے اچھے قائد اعظم! آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں سے چندے کی درخواست کی
ہے، یہ ہم کو اخباروں کے ذریعے معلوم ہوا۔ اور آپ کو یہ معلوم ہے کہ ہم
یتیم ہیں، اور ہمارے کھانے پینے اور کپڑے وغیرہ کا انتظام یتیم خانے سے
ہوتا ہے۔ہمارے ماں باپ نہیں ہیں جو ہم کو روز پیسے دیں۔پھر بھی ہم نے طے کر
لیا کہ آپ کی خدمت میں ضرور کچھ بھیجیں گے۔اس لیے ہم نے ہم کو دھیلہ پیسہ
جو کچھ بھی جہاں کہیں سے ملا اس کو جوڑنا شروع کردیا یہاں تک کہ تین روپیہ
دو آنے کی رقم جمع ہوئی۔اب اس کو آپ کی خدمت میں روانہ کر رہے ہیں۔آپ اس کو
قبول کیجیے۔ ضرور قبول کیجیے۔ہم آپ سے اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہم
کوآزادی جیسی نعمت سے نوازے گا۔
ذرا سوچیں! بچوں کی عمریں دیکھیں، جذبات دیکھیں، دیدہ دلیری دیکھتے کیسے
قائداعظم ؒ سے اپنے دیئے گئے چندہ کی رسیدیں پوچھ رہیں ہیں۔ لیکن آج آزادی
کے بعد جس ریکارڈ کا پوچھا جاتا ہے اسے وقت سے پہلے یا تو جلا دیا جاتا ہے
یا پھر چوری کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ میرے ہم وطنو! ابھی بھی وقت ہے۔ کل ۵۲
جولائی ۸۱۰۲ہے الیکشن پاکستان کی تقدیر بدلنے کا دن ہے۔ آج تمام سیاسی
دھڑوں کا تاریخ مطالعہ کریں پھر کل ووٹ کاسٹ کرنے جائیں۔ کس نے کیا دیا، کس
نے کیا کھویا، اس وقت پاکستان کو کیسے لیڈر کی ضرورت ہے؟ پاک فوج اور آئی
آیس آئی الحمد للہ ناقابل تسخیر دفاعی لائن ہے۔ اس دفاعی لائن کو توڑنے کے
لیے دشمن نے ہر چال چلی اور چل رہا ہے۔ اس چال کچھ نہ کچھ سکرپٹ آپ سب نے
دیکھ بھی لیا ہوگا۔ جیسے نواز شریف کو نااہل کیا جاتا ہے تو پھر اس کے
مشیروں وزیروں کی زبان، حنیف عباسی کی سز ا ہونے پر پاک فوج اور آئی۔ایس۔ا
ٓئی کے خلاف نعرے بازی اور پھر اس کی ویڈیو انڈیا تک پہنچانا یا سوشل میڈیا
پر اپ لوڈ کرکے جگ ہسائی کروانا۔ یہ سب ففتھ جنریشن وار کہلاتی ہے۔ اپنا،
اپنے بچوں، ملک و قوم کا مستقبل کسی کے ہاتھ میں دینے سے پہلے ٹھنڈے دل و
دماغ سے سوچ کر جائیں اور پھر ووٹ کاسٹ کرنے کا فیصلہ کریں۔ تاکہ بعد میں
آپ کا ضمیر آپ کو ملامت نہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اچھی سوچ اور ملک
سے محبت کی توفیق عطا فرماے۔ پاک فوج کو ناقابل تسخیر اور سیسہ پلائی دیوار
ہی بنا کر رکھے آمین ثم آمین۔
|