سر عابد حسین خاں صاحب(پریکٹیکل فلسفی)

اللہ رب کریم نے بڑے پیار اور محبت سے اپنے بندوں کو تخلیق فرمایا اور انہیں طرح طرح کی صلاحیتوں سے ہمکنار کرتے ہوئے کسی نہ کسی خاص مقصد کے تحت اس جہانِ رنگ و بو میں محدود وقت کے لیے بھیج دیا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ علم میں بڑا مقام حاصل کرتے ہیں ، تو کچھ عمل سے لبریز ہوتے ہیں، کچھ دردِ دل رکھتے ہیں ، تو کچھ سخاوت کے بہر بے کراں ہوتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ہرکوئی نہیں جانتا، جن کی بات اور عمل ہر کسی کو سمجھ نہیں آتے، لہذا وہ تنقید اور مزاح کا نشانہ بنتے ہیں۔مگر ایسے افراد کو کسی کی تنقید اور مزاح سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ وہ جو بات کہتے ہیں ، وہ علمی بنیادوں پر کم جبکہ عملی اور مشاہداتی زیادہ ہوتی ہے۔ لہذا جب صرف علم کی بنیاد پران باتوں کو پرکھا جاتا ہے ،وہ بعض اوقات عقل سے بالاتر معلوم ہوتی ہیں ،جبکہ اگر عملی میدان میں ان باتوں سے واسطہ پڑے تو بات فوراً سمجھ آجاتی ہے۔۔۔لہذا ایسے افراد کی باتوں کو علم کے بجائے عمل اور مشاہدے کے اکھاڑے میں تولنا چاہیے۔۔۔انہیں افراد میں ایک شخصیت میرے ایک استادِ محترم سرعابد حسین خان صاحب کی بھی ہے۔الحمد للہ میرے ہر استاد(پرائمری سے ماسٹرز تک) کی شخصیت اور خصوصیات اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن سرِ دست جن خصوصیات کی طرف اشارہ ہے وہ موصوف کی شخصیت میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔۔۔
سر عابد حسین صاحب عملیت پسند، سادہ مزاج، فراخ دل، منطقی ،ریاضی دان، حاضر جواب،عملی فلسفی ،متجسس،معمار، بنّا، مشاہداتی اور متنازع عناصر کا مجموعہ ہیں۔ بہت سے احبات کو سر کی باتوں اور تنقید سے اختلاف رہتا ہے اور رہنا بھی چاہیے کیونکہ یہ ہم سب کا حق ہے۔
بہر کیف! جامعہ علیمیہ میں فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر میں سر سے پڑھنے کا موقع ملا، نہ جانے کیوں باقی کلاس فیلوز کی بنسبت سر کی باتیں مجھے زیادہ سمجھ میں آتی تھیں،( ہوسکتا ہے یہ میری خوش فہمی ہو)بالخصوص سر کی وہ باتیں جو مشاہدات اور تجربات پر مبنی ہوا کرتی تھیں، انہیں سر کے اقوالِ زریں کے طور پر لکھا کرتا تھا ۔ یقین جانے وہ باتیں آج بھی مجھے کام دیتی ہیں اورجب عملاً کوئی ایسی بات واقع ہوتی ہے تو دوسروں کو بتاتے ہوئے بھی خوشی محسوس ہوتی ہے۔
جامعہ علیمیہ کی سیکنڈ ایئر کلاس میں سر کے(73) اقوالِ زریں لکھے تھے، جن میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:
v جب تک کوئی ایک بات کو صحیح طرح نہ سمجھ لے، تب تک اُسے دوسری بات ہرگز نہ بتاؤ۔
v جوبات بات پر کہتا ہو کہ یہ تو مجھے معلوم ہے ، اُسے ہمیشہ آدھی بات بتاؤ۔
v مسائل بچے دیتے ہیں۔۔۔(جیسے چاند والا مسئلہ)
v کوئی بھی چیز ایک جگہ نہیں رکتی۔
v لفظوں کی آواز کو جاننا فصاحت ہے اور کلام کو اس طرح اداکرنا کہ سامنے والے کو سمجھ آجائے بلاغت کہلاتا ہے۔
v جب کسی فن کو پڑھیں تو یہ سوچھیں کہ میں فطرت کو پڑھ رہا ہوں۔
v لطیفے کی خصوصیات: (1) منزل کچھ نظر آرہی ہو اور ہو کچھ(2)ایسی بات جس کو سننے والا مزید سوال کرے۔
v اتنی بلندی پر رہو کہ گر کر کھڑے ہو سکو۔
v شاعر جذبات سے مغلوب ہوتا ہے اور مقرر جذبات پر حاوی ہوتا ہے۔
v تیرے سر کی قسم(اگر میری بات غلط ہو تو تم مر جاؤ)
v اگر دادا سخی ہو تو اس کا پوتا عالم بنتا ہے۔
v لفظ احساس کی تصویر ہے۔
v اندھیروں میں تیر پھینکو ، رزلٹ خود ہی آجائے گا۔
v کسی بھی بات کو سمجھنے کے لیے اس کے ماحول کو سمجھنا ضروری ہے۔
v علوم نقلیہ کی ماں تاریخ ہے جبکہ علوم عقلیہ کی ماں فلسفہ ہے۔
v تقابل ادیان کی بنیاد یہ ہے کہ کون کتنا ثابت ہے۔
v انسان کو اپنی آخری حد نہیں دکھانی چاہیے۔
v دکان پر ایک ہی چیز مختلف قیمتوں والی رکھیں، دونوں ایک دوسرے کی وجہ سے فروخت ہونگیں۔

سر کے اقوال تو اور بھی بہت ہیں مگرخوفِ طوالت کے باعث انہی پر اکتفا کرتا ہوں۔ آپ یقینا جان گئے ہونگے کہ مذکورہ بالا ہر بات وسیع مفاہیم و تجربات پر مشتمل ہے کہ ہر ایک بات پر الگ سے مضمون لکھا جاسکتا ہے ۔
اب تو کافی عرصے سے سر عابد صاحب(Mastr Albunnaکے نام سے) فیس بک کا بھی استعمال کررہے ہیں ۔ لہذا ان کے پوسٹ کردہ اقوال اور تجزیےبھی پیشِ خدمت ہیں:
§ شومیکر کو موچی کہنا۔۔۔۔۔۔ڈرائی کلینر کو دھوبی۔۔۔۔۔ہیرڈریسر کو نائی۔۔۔۔۔۔اسٹیل فیکسر کو لوھار۔۔۔۔۔۔۔بوچر کو قصائی۔۔۔۔۔سنگر کو گوئیا۔۔۔۔سویپر کو بھنگی۔۔۔۔۔۔۔شیف یا کک کو باورچی۔۔۔۔ڈانسرکو کنجر۔۔۔۔فلم بنانے والا(عورتیں کرایہ پر چلانے والا) بھڑوا۔۔۔۔۔پورن اسٹار کو زانیہ کہنا گالی ہوگا؟؟؟؟؟

§ گھر کا روح افزاء کے بعد گھر کا مرنڈا۔۔۔۔جب یہ واضح ہے کہ بازار کے مشروبات کیمکل پراڈکٹ ہیں تو پھر آگے بڑھ کر خود کیوں نہ تجربہ کریں۔۔۔۔۔لال شربت کا تجربہ کامیاب رہا۔۔۔۔کلر اور ذائقہ بہترین ملا اب مرنڈا کی باری ہے۔۔۔۔اس کے بعد اسکریم سوڈا کی

§ مردانگی دو چیزوں میں ہے معاش اور جی داری اور بلند ہمتی کے کام۔۔۔۔۔گھڑسواری ان میں سے ایک ہے۔۔۔۔۔شاہسوار۔۔۔۔سواری کا بادشاہ۔۔۔۔ہم والدین پر لازم ہے کہ اپنی اولاد کو تیراکی نشانہ بازی شاہسواری اور پہلوانی سیکھائیں مگر ان سے پہلے تجارت ہے

§ ایک بچے کو سکھانا کسی پہلو سے بھی قوم کو سیکھانے سے کم نہیں ہے ہاں بڑھ کر ضرور ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔دوستوں سیکھاؤ اگرچہ بچہ کیوں نہ ہو

§ شاگردوں کو جو سیکھایا اس کا خلاصہ ہے۔۔۔۔ ادب آزادی اور تحقیق۔۔۔۔اب ایک بات اور سکھاتا ہوں۔۔اور وہ ہے اپنی بات کر کے آگے ریفر ر کردو مکمل معاملہ اپنے سر نہ لو۔۔۔۔فتوی دینے سے ڈرو

§ فیس بک پر شخصیت پرستی اور اس کا عکس زلت پرستی عام ہے۔۔۔۔۔دوستوں سے عرض ہے کہ دو انتہاوں کے درمیان رہا کریں۔۔۔۔۔اچھے پہلو لیا کریں اور برے پہلوں سے جان چھڑایا کریں۔۔۔۔۔عوام میں اندھی تقلید اور اندھی تنقید کو بڑھاوا دینے کا وسیلہ نہ بنیں۔۔۔۔۔برائی کا وسیلہ بننا گناہ بے لذت ہے۔۔۔۔میں ترغیبات میں مبالغہ کا انکاری نہیں ہو مگر جب یہی مبالغہ حقیقت کا بیان ہوجاۓ اسے زہر سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔
§ والد مرحوم نے تیس سال پہلے گھر کے سامنے عید اسٹال کا رجحان ڈالا تھا جو آج بھی جاری ہے۔۔۔۔۔۔والد رجحان ساز ہوتا ہے۔

§ لوگ کس طرح حرمین شریفین ہو آتے ہیں اور کس طرح اہلبیت سے محبت کا اظہار کرلیتے ہیں۔۔۔۔۔۔شائد دل کو بہت کچھ پتھر کا کرنا پڑتا ہوگا۔۔۔۔والد مرحوم سے کئی مرتبہ کہا حرمین شریفین کی زیارت کرآئیں ٹال جاتے تھے بھائی کو عمرہ کرادیا۔۔۔۔۔سمجھ میں یہی آتی ہے کہ حوصلہ نہیں تھا ان میں سامنا کرنے کا۔۔۔۔۔اپنا حوصلہ دیکھ کر ہی سمجھ آئی ہے

تو جناب یہ تھے سر عابد حسین خان صاحب کے چند اقوال و تجربات ، یقیناً آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ سر کے سوچنے سمجھنے ، تجربات کو بیان کرنے اور تنقید کرنے کا ایک الگ ہی انداز ہے ۔ سر کی بعض باتیں تو تن بدن میں آگ بھی لگا دیتی ہیں ، مگر ہوتی وہ حقیقت پر مبنی اور ذاتی فکر وتجربات کا نتیجہ ہیں۔ سر کی باتوں سے اختلاف کرنے کا حق مجھ سمیت سب کو ہے مگر واقعی وہ اختلاف ہی ہواور جو چیز فائدہ مند ہو اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔

 

M.Siddique Tahiri
About the Author: M.Siddique Tahiri Read More Articles by M.Siddique Tahiri: 4 Articles with 3835 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.