الیکشن 2018ء ،این اے 132،پی پی165بلاچلے گایادھاڑے
گاشیر،تیرنشانے پرلگے گایاپھرلبیک والے لے جائیں گے بازی ۔اس بات کا فیصلہ
کریں گے آج عوام اپنے ووٹ کے ذریعے۔اس بارصوتحال سمجھنایاکوئی مضبوط تجزیہ
پیش کرناانتہائی مشکل ہے۔ظاہری طورپرپی ٹی آئی کے انتخابی دفاترمیں رونق سب
سے زیادہ رہی،پاکستان پیپلزپارٹی کے دفاترمیں دودھ جلیبی چلتی رہی توشیرکے
دفاترمیں بھی خوب مرغ قورماچلتارہاجبکہ تحریک لبیک پاکستان کے دفترمیں نہ
مرغ چلانہ بریانی اورنہ ہی دودھ جلیبی دیکھنے میں آئی وہاں جتنے بھی لوگ
نظرآئے فقط لبیک یارسول اﷲؐ کے نعرے لگاتے ہی نظرآئے۔حلقے کاووٹربڑی حد تک
تقسیم نظرآتاہے،کوئی قومی اسمبلی کاتوکوئی صوبائی اسمبلی کاووٹ لبیک
کودیتانظرآتاہے۔قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے یہ دونوں حلقے ن لیگ کامضبوط
قلعہ سمجھے جاتے ہیں،الیکشن 2018ء میں بھی ن لیگ کواچھے ووٹ کاسٹ ہونے کی
امید ہے جبکہ پی ٹی آئی کی مقبولیت میں بھی خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں
آیاہے،پی ٹی آئی کے مقامی امیدوارسے عام جسے خاموش ووٹرکہاجاتاہے وہ زیادہ
متاثرنہیں ہواجبکہ ن لیگ کی مقامی قیادت کے آپسی اختلافات میاں شہبازشریف
کیلئے کس قدرنقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں اس بات فیصلہ 25جولائی کی شام کوہی
ہوپائے گا۔جب بات کریں چھ ماہ قبل رجسٹرڈ ہونے والی تحریک لبیک پاکستان کی
تواپنی عمرکے حساب سے بہت زیادہ مقبول نظرآتی ہے۔تحریک لبیک پاکستان کے
امیدواراین اے 132اور پی پی165چوہدری امجدنعیم سیفی یوں توسیاسی میدان کے
کھلاڑی نہیں پراُن کے ساتھ مذہبی طبقے کامضبوط تعاون اورتیزترین ڈورٹودور
کمپین کے ساتھ خاموش ووٹرزکی حمایت بھی کافی حد تک دیکھنے میں آتی ہے۔عوامی
سیاسی حلقوق کاکہناہے کہ اس الیکشن کے نتائج حیران کن ہوسکتے
ہیں۔پیپلزپارٹی کی امیدوارمحترمہ ثمینہ خالد گھرکی بھی مقابلے کی دوڑمیں
بدستورشامل ہیں ،ثمینہ خالد گھرکی کاتعلق جس سیاسی خاندان کے ساتھ جواس
حلقے میں کئی بارمیدان مارچکاہے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے آج بھی پھرجوش
اورپھرعزم نظرآتے ہیں ۔ثمینہ خالد گھرکی اپنے خاندانی سیاسی تعلقات
اورسیاسی گیم کی ماہرہونے کی بدولت مقابلے کی دوڑ میں شامل نظرآتی ہیں ۔تمام
ترزمینی حقائق کومدنظررکھتے ہوئے 25جولائی کی شام کوآنے والے عوامی عدالت
کے فیصلے کاانتظارکرنا کسی بھی پیشنگوائی سے سے بہتر ہے- |