گرینڈ پلان، بہت ہی بڑا پلان، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے !
(M. Furqan Hanif, Karachi)
گرینڈ پلان، چھوٹا قلم (فکری افلاس کی ایک شستہ مگر سخت تشریح)
سہیل وڑائچ صاحب کی تحریر اگر صحافت ہے تو پھر افواہ بھی تحقیق ہے اور اگر یہ ادب ہے تو پھر ادب کی روح کو دفن کر دینا چاہیے۔
|
|
|
گرینڈ پلان، چھوٹا قلم (فکری افلاس کی ایک شستہ مگر سخت تشریح)
سہیل وڑائچ صاحب کی حالیہ تحریر اگر صحافت ہے تو پھر افواہ بھی تحقیق ہے اور اگر یہ ادب ہے تو پھر ادب کی روح کو دفن کر دینا چاہیے۔ یہ تحریر دراصل " خبر نہیں، خواہش ہے" ؛ یہ تجزیہ نہیں، “ تمنا ہے” ؛ اور سب سے بڑھ کر، یہ صحافت نہیں بلکہ “ اشرافی سرگوشی کا کالمی ترجمہ” ہے۔
کہانی کہنا کوئی جرم نہیں مگر جب کہانی “ سیاسی حقیقت” کا لبادہ اوڑھ لے تو وہ فکشن نہیں رہتی وہ “ فریب” بن جاتی ہے۔
“ وہ جو افسانہ بھی لکھتے ہیں تو عنوان میں سچ ڈھونڈھتے ہیں” “ اور سچ یہ ہے کہ افسانہ یہاں خود کو ہی جھوٹ کہتا ہے”
تخیل یا تلبیس؟
عالمِ ارواح، جانوروں کی گفتگو، پرندوں کی سرگوشیاں یہ سب سننے میں دلکش ہے مگر سوال یہ ہے کہ “ کیا پاکستان کا سیاسی بحران واقعی پریوں کی کہانی سے حل ہوگا؟”
جارج اورویل نے جانور بولائے تو “ طاقت کے جبر کو ننگا کیا” ایچ جی ویلز نے مریخ اتارا تو “ انسانی خوف کو بے نقاب کیا” ۔
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ نہ خیال بڑا ہے نہ فہم گہری بس ایک صحافی ہے جو خود کو “ پردہ نشین رازوں کا واحد امین” ثابت کرنے کے شوق میں قیاس کو انکشاف بنا رہا ہے۔
یہ اورویل نہیں یہ “ اورویل بننے کی ناکام نقل” ہے اور نقل بھی ایسی کہ اصل کی توہین بن جائے۔
اصل مسئلہ: سیاست یا سیاست دان؟
اس تحریر کا مرکزی نکتہ بہت سادہ ہے، اگرچہ زبان میں لپٹا ہوا ہے
“ سیاست ناکام ہے “ سیاست دان نالائق ہیں “ ووٹ بے معنی ہے “ پارلیمان بوجھ ہے
اور حل؟ کہیں دور، دھند میں لپٹا ہوا ایک “ گرینڈ پلان” جسے نہ آئین جانتا ہے نہ عوام نہ پارلیمان— مگر کالم نگار کو اس کی خوشبو آ رہی ہے۔
“ خبر وہی معتبر ہوتی ہے جو دلیل مانگے” “ یہاں دلیل نہیں، صرف ایمان مانگا جا رہا ہے”
یہ بیانیہ دراصل عوام کو نہیں، “ غیر منتخب عقلِ کل” کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔
“خاموشی ہے زبان میری” — جمہوریت کا جنازہ؟
یہ کہنا کہ نظام خاموشی پر یقین رکھتا ہے درحقیقت یہ اعتراف ہے کہ نظام “ جواب دہی سے بھاگتا ہے” ۔
جمہوریت میں خاموشی عبادت نہیں خاموشی اکثر “ اعترافِ جرم” ہوتی ہے۔
اگر گرینڈ پلان ہے تو
“ آئین کہاں ہے؟ “ پارلیمان کیوں لاعلم ہے؟ “ عوام کیوں اندھیرے میں ہیں؟
اور اگر نہیں ہے تو پھر یہ تحریر صحافت نہیں “ ذہنی انتشار کی کاشت” ہے۔
ونڈر بوائے: سیاسی بانجھ پن کا خواب
ہر دور میں ایک “ونڈر بوائے” تراشا گیا
“ ایوب کا نظام “ ضیاء کی اسلامیت “ مشرف کی روشن خیالی “ باجوہ ڈاکٹرائن
نتیجہ ہر بار ایک ہی نکلا ریاست کمزور عوام مایوس اور صحافی اگلی کہانی کی تلاش میں۔
یہ خیال کہ پی ایچ ڈی کابینہ آ کر ستر سالہ مسائل حل کر دے گی نہ سادہ لوحی ہے نہ معصومیت یہ “ سیاسی ناپختگی” ہے۔
“ یہ جو ہر بار نیا مسیحا تراشتے ہیں” “ انہیں آئین کے زخم دکھائی نہیں دیتے”
افواہ، خواہش اور مفاد
یہ درست ہے کہ کچھ لوگ “گرینڈ پلان” کے انتظار میں ہیں کیوں نہ ہوں؟ پاکستان میں ہر نیا بندوبست کچھ پرانے چہروں کی “ نئی دکان” کھول دیتا ہے۔
یہی وہ لوگ ہیں جو:
“ ہر گھوڑے پر سوار ہونے کو تیار “ ہر اقتدار کو نظریہ سمجھنے پر آمادہ “ اور ہر مارشل لا کو “مجَبوری” کہنے میں ماہر
ایسے میں اگر افواہیں جنم لیں تو یہ حیرت کی بات نہیں مگر صحافی کا کام افواہ بیچنا نہیں “ افواہ کو دفن کرنا” ہوتا ہے۔
آخری بات: یہ تحریر کیوں خطرناک ہے؟
یہ تحریر اس لیے خطرناک نہیں کہ یہ غلط ہے بلکہ اس لیے خطرناک ہے کہ یہ “ غلط کو دلکش بنا کر پیش کرتی ہے”
یہ سیاست کو ناکام ثابت کر کے غیر سیاسی مداخلت کے لیے ذہنی زمین ہموار کرتی ہے۔
“ جو لوگ سوال سے ڈرتے ہیں” “ وہی کہانیوں میں پناہ لیتے ہیں”
نتیجہ
گرینڈ پلان ہو یا نہ ہو ایک بات طے ہے قوم کو افسانہ نہیں، “ سچ” چاہیے؛ کہانی نہیں، “ جواب دہی” چاہیے؛ اور صحافی سے خواہش نہیں، “ دیانت” ۔
یہ تحریر سہیل وڑائچ صاحب کے لیے سوچنے کا مقام ہے کیونکہ جب قلم اقتدار کو آئینہ دکھانے کے بجائے اس کے لیے پردہ بن جائے تو پھر تاریخ معاف نہیں کرتی۔
|