چہرہ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کا عقیدہ

چہرہ مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کا عقیدہ

دامانِ نگہ تنگ و گلِ حسنِ تو بسیار!
گلچینِ بہارِ تو زداماں گلہ دارد!

زِ فرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است

مصحفے را ورق ورق دیدم
ہیچ سورت نہ مثل صورت اوست

حسنِ یوسف، دم عیسٰی، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

خالق کائنات نے قرآن مجید فرقان مجید میں اپنے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا ذکر بڑی محبت اور اپنائیت کے انداز میں فرمایا۔

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ. سورت بقره، 2 : 144

اے محبوب کریم! ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیئے۔

نہ تو قلم میں اِتنی سکت ہے کہ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حیطۂ تحریر میں لا سکے اور نہ زبان ہی میں جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیان کرنے کا یارا ہے۔ سلطانِ عرب و عجم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات محاسنِ ظاہری و باطنی کی جامع ہے۔ کائناتِ ارض و سماوات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کے پَرتو سے ہی فیض یاب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کے فیضان سے ہی کائناتِ رنگ و بو میں حسن کی خیرات تقسیم ہوتی ہے۔ اِسی حقیقت کو حکیم الاُمت علامہ محمد اِقبال رحمۃ اللہ علیہ یوں بیان کرتے ہیں :

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروید آرزو

یا زِ نورِِ مصطفیٰ اُو را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیٰ (ص) است

(دُنیائے رنگ و بو میں جہاں بھی نظر دوڑائیں اس کی مٹی سے جو بھی آرزو ہویدا ہوتی ہے، وہ یا تو نورِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چمک دمک رکھتی ہے یا ابھی تک مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں ہے۔)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ لامحدود کا اِحاطہ ممکن نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کی مثال تو بحر بیکراں کی سی ہے جس میں کوئی ایک آدھ موج اچھل کر اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اور دور دور تک پھیلے سمندر کی گہرائیوں میں اترنا کسی کے لئے ممکن ہی نہیں۔ بعینہ حقیقت حسن محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک رسائی کسی فرد بشر کی بات نہیں کہ محدود نظر اس کا کما حقہ اِدراک کر ہی نہیں سکتی۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ شمائل اور حلیہ مبارک کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ ہر امتی کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے عشق و محبت کا تعلق پختہ سے پختہ تر ہوتا چلا جائے اور اس کے شوقِ زیارت کو جِلا ملتی رہے۔ ذیل میں حلیۂ مبارک کا ذکرِ جمیل ہم اس امید پر کر رہے ہیں کہ یہ ہمارے لئے توشۂ آخرت بن جائے اور ہماری یہ ادنیٰ سی کاوش بارگہ ایزدی میں شرف قبولیت پا کر ہمارے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا موجب بنے۔

1۔ حلیۂ مبارک کا حسین تذکرہ کتبِ اَحادیث و سیر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک کے حوالے سے بیان کردہ روایات کے مطالعہ سے جو کچھ ہم جان سکے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اقدس نہ تو مائل بہ فربہی تھا اور نہ ہی نحیف و ناتواں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس کی ساخت سرتاپا حسنِ اِعتدال کا مرقع تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جملہ اعضائے مبارکہ میں ایسا حسین تناسب پایا جاتا تھا کہ دیکھنے والا یہ گمان بھی نہ کر سکتا تھا کہ فلاں عضو دُوسرے کے مقابلے میں فربہ یا نحیف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی ساخت اِتنی متناسب اور کمالِ موزونیت کی مظہر تھی کہ اُس پر فربہی یا کمزوری کا حکم نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ فربہی اور دُبلاپن کی دونوں کیفیتیں شخصی وجاہت اور جسمانی حسن و وقار کے منافی سمجھی جاتی ہیں، چنانچہ اﷲ ربّ العزت کو یہ بات کیونکر گوارا ہو سکتی تھی کہ کوئی اُس کے کارخانۂ قدرت کے شاہکارِ عظیم کی طرف کسی خلافِ حسن و وقار اَمر کا گمان بھی کر سکے۔

خدائے عزوجل نے بالیقین اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے مثل اور تمام عیوب و نقائص سے مبّرا تخلیق کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا، کمال درجہ حسین و متناسب اور دِلکشی و رعنائی کا حامل اور حسن و خوبی کا خزینہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَعضائے مبارکہ کی ساخت اِس قدر مثالی اور حسنِ مناسبت کی آئینہ دار تھی کہ اُسے دیکھ کر ایک حسنِ مجسم پیکرِ اِنسانی میں ڈھلتا دکھائی دیتا تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسین سراپا کی مدح میں ہر وقت رطبُ الّلساں رہتے تھے۔ اُن کی بیان کردہ روایات سے مترشح ہوتا ہے کہ حسنِ ساخت کے اِعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر کی خوبصورتی اور رعنائی و زیبائی اپنی مثال آپ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس اور شکم مبارک دونوں ہموار تھے، تاہم سینہ نہایت حسنِ اِعتدال کے ساتھ بطنِ مبارک کی نسبت ذرا آگے کی طرف اُبھرا ہوا تھا۔ طب و صحت کے مسلمہ اُصولوں کے اِعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل و اَکمل طور پر متناسبُ الاعضاء اور وجیہُ الصورت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات میں حسنِ تام اپنی تمام تر دلآویزیوں اور رعنائیوں کے ساتھ یوں متشکل نظر آتا تھا کہ بقولِ شاعر :

زِ فرق تا بہ قدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجاست

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر تا قدم حسنِ مجسم تھے اور یہ فیصلہ کرنا محال تھا کہ صوری حسن جسدِ اطہر کے کس کس مقام پر کمالِ حسن کی کن کن بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے حسن کو دیکھ کر بیخود اور مبہوت ہو کر رہ جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سراپا کے بیان میں اپنے عجز اور کم مائیگی کا اِعتراف کرتے۔ حق تو یہ ہے کہ ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ سرمدی اِظہار و بیان سے ماورا تھا اور اہلِ عرب زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت کے اپنے تمام تر دعوؤں کے باوُجود بھی اُسے کماحقہ بیان کرنے سے عاجز تھے :

دامانِ نگہ تنگ و گلِ حسنِ تو بسیار!
گلچینِ بہارِ تو زداماں گلہ دارد!

(نگاہ کا دامن تنگ ہے اور تیرے حسن کے پھول کثیر ہیں، تیری بہار سے پھول چننے والوں کو اپنے دامن کی تنگی کی شکایت ہے۔)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے جمیل اور صورتِ زیبا کے دیدار سے اپنی آنکھوں کی پیاس بجھاتے تھے۔اپنے من کی تشنگی کا مداوا کرتے کشتِ دیدہ و دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے گلاب بوتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اُنہیں سکون و طمانیت اور فرحت و راحت کی دولت نصیب ہوتی، اِیمان کو حلاوَت اور قلب و جاں کو تقوِیت ملتی۔

1۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے سیدنا اِمام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :

کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فخما مفخما، يتلألآ وجهه تلآلؤ القمر ليلة البدر، أطوَل من المربوع و أقصر من المشذب، عظيم الهامة، رجل الشعر، إن انفرقت عقيقته فرقها، و إلا فلا يجاوز شعره شحمة أذنيه، إذا هو وفره، أزهر اللون، واسع الجبين، أزج الحواجب سوابغ في غير قرن، بينهما عرق يدره الغضب، أقني العرنين، له نور يعلوه يحسبه من لم يتأمله أشم، کث اللحية، سهل الخدين، ضليع الفم، مفلج الأسنان، دقيق المسربة، کآن عنقه جيد دمية في صفاء الفضة، معتدل الخلق، بادن متماسک، سواء البطن و الصدر، عريض الصدر، بعيد ما بين المنکبين، ضخم الکراديس، أنور المتجرد، موصول ما بين اللبة و السرة بشعر يجري کالخط، عاري الثديين والبطن مما سوي ذالک، أشعر الذراعين والمنکبين و أعالي الصدر، طويل الزندين، رحب الراحة، شثن الکفين و القدمين، سائل الأطراف . . . آو قال : شائل الأطراف . . . خمصان الأخمصين، مسيح القدمين، ينبو عنهما الماء، إذا زال زال قلعا، يخطو تکفيا، و يمشي هونا، ذريع المشية إذا مشي کأنما ينحط من صبب، و إذا التفت التفت جميعا، خافض الطرف، نظره إلي الأرض أکثر من نظره إلي السماء، جل نظره الملاحظة، يسوق آصحابه و يبدأ من لقي بالسلام.

1. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 35 - 38، رقم : 8
2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 154، رقم : 1430
3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35، رقم : 24
6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
7. ابن کثير، شمائل الرسول : 50، 51
8. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 286، 287
9. ابن عساکر، السيرة النبويه، 3 : 191
10. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 130
11. مقريزي، اِمتاع الآسماع، 2 : 177
12. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 155
13. ابن حبان، الثقات، 2 : 145
14. ابن حبان، اخلاق النبيا، 4 : 282
15. ذهبي، ميزان الاعتدال في نقد الرجال، 7 : 258، رقم : 9743

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم المرتبت اور بارعب تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا، قد مبارک متوسط قد والے سے کسی قدر طویل تھا لیکن لمبے قد والے سے نسبتاً پست تھا۔ سرِ اقدس اعتدال کے ساتھ بڑا تھا، بال مبارک قدرے بل کھائے ہوئے تھے، سر کے بالوں میں سہولت سے مانگ نکل آتی تو رہنے دیتے ورنہ مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک زیادہ ہوتے تو کانوں کی لو سے متجاوز ہو جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک چمکدار، پیشانی کشادہ، ابرو خمدار، باریک اور گنجان تھے، ابرو مبارک جدا جدا تھے، ایک دُوسرے سے ملے ہوئے نہیں تھے۔ دونوں کے درمیان ایک مبارک رگ تھی جو حالتِ غصہ میں ابھر آتی۔ بینی مبارک مائل بہ بلندی تھی اور اُس پر ایک چمک اور نور تھا، جو شخص غور سے نہ دیکھتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلند بینی والا خیال کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریش مبارک گھنی تھی، رخسار مبارک ہموار (اور ہلکے) تھے، دہن مبارک اِعتدال کے ساتھ فراخ تھا، سامنے کے دانتوں میں قدرے کشادگی تھی۔ سینے سے ناف تک بالوں کی ایک باریک لکیر تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک اتنی خوبصورت اور باریک تھی (جیسے کسی گوہرِ آبدار کو تراشا گیا ہو اور) وہ رنگ و صفائی میں چاندی کی طرح سفید اور چمکدار تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعضاء مبارک پُرگوشت اور معتدل تھے اور ایک دُوسرے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔ پیٹ اور سینہ مبارک ہموار تھے (لیکن) سینۂ اقدس فراخ (اور قدرے اُبھرا ہوا) تھا، دونوں شانوں کے درمیان مناسب فاصلہ تھا۔ جوڑوں کی ہڈیاں قوی تھیں، بدن مبارک کا جو حصہ کپڑوں سے باہر ہوتا روشن نظر آتا۔ ناف اور سینہ کے درمیان ایک لکیر کی طرح بالوں کی باریک دھاری تھی (اور اس لکیر کے علاوہ) سینۂ اقدس اور بطن مبارک بالوں سے خالی تھے، البتہ بازوؤں، کندھوں اور سینہ مبارک کے بالائی حصہ پر کچھ بال تھے، کلائیاں دراز تھیں اور ہتھیلیاں فراخ، نیز ہتھیلیاں اور دونوں قدم پُرگوشت تھے، ہاتھ پاؤں کی انگلیاں تناسب کے ساتھ لمبی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوے قدرے گہرے اور قدم ہموار اور ایسے صاف تھے کہ پانی ان سے فوراً ڈھلک جاتا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو قوت سے قدم اٹھاتے مگر تواضع کے ساتھ چلتے، زمین پر قدم آہستہ پڑتا نہ کہ زور سے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سبک رفتار تھے اور قدم ذرا کشادہ رکھتے، (چھوٹے چھوٹے قدم نہیں اٹھاتے تھے)۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے تو یوں محسوس ہوتا گویا بلند جگہ سے نیچے اتر رہے ہیں۔ جب کسی طرف توجہ فرماتے تو مکمل متوجہ ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر پاک اکثر جھکی رہتی اور آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی، گوشۂ چشم سے دیکھنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادتِ شریفہ تھی (یعنی غایتِ حیا کی وجہ سے آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے تھے)، چلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کو آگے کر دیتے اور جس سے ملتے سلام کہنے میں خود ابتدا فرماتے۔‘‘

تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیکرِ دلنشیں کو اللہ رب العزت نے ایسا حسین بنایا کہ ہر دیکھنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کی حلاوتوں میں گم ہو کر رہ جاتا۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے منسوب روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن بے مثال کا تذکرہ حسن بلاغت کا شاہکار ہے۔ انہوں نے کمال جامعیت کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کی رعنائیوں کا ذکر کیا ہے۔

2۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی حسن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرے سے بھرپور ایک روایت ملتی ہے جس میں انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ مبارک، جسمانی تناسب، اعضائے مبارکہ کے حسنِ اِعتدال اور اوصافِ حمیدہ کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے :

ليس بالطويل الممغّط و لا بالقصير المتردد، و کان ربعة من القوم، و لم يکن بالجعد القطط، و لا بالسبط، کان جعداً رجلاً، و لم يکن بالمطهم و لا بالمکلثم، و کان في الوجه تدويرٌ، آبيض مشرب، آدعج العينين، آهدب الآشفار، جليل المشاش و الکتد، آجرد ذومسربة، شثن الکفين و القدمين، إذا مشي تقلع، کآنما يمشي في صبب، و إذا التفت التفت معاً، بين کتفيه خاتم النبوة و هو خاتم النبيين، آجود الناس صدراً، و آصدق الناس لهجة، و آلينهم عريکة، و آکرمهم عشرة، مَن رآه بديهة هابه، و من خالطه معرفة آحبه، يقول ناعته : لم آر قبله ولا بعده مثله صلي الله عليه وآله وسلم .

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 599، رقم : 3638
2. ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 32، رقم : 7
3. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 150، رقم : 416
4. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 328، رقم : 31805
5. ابن عبدالبر، التمهيد، 3 : 29
6. ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 247
7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 411
8. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 269
9. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 124
10. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 153
11. مبارکپوري، تحفة الآحوذي، 10 : 82

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قد مبارک میں نہ زیادہ لمبے تھے اور نہ پست قد بلکہ میانہ قد کے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک نہ بالکل پیچدار تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ کچھ گھنگھریالے تھے۔ جسمِ اطہر میں فربہ پن نہ تھا۔ چہرہ مبارک (بالکل گول نہ تھا بلکہ اُس) میں تھوڑی سی گولائی تھی، رنگ سفید سرخی مائل تھا۔ مبارک آنکھیں نہایت سیاہ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پلکیں دراز، جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں۔ کندھوں کے سرے اور درمیان کی جگہ پُر گوشت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدنِ اقدس پر زیادہ بال نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلیاں اور پاؤں مبارک پُرگوشت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چلتے تو قدموں کو قوت سے اُٹھاتے گویا نیچے اُتر رہے ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کی طرف متوجہ ہوتے پورے بدن کو پھیر کر توجہ فرماتے۔ دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں، سب سے زیادہ سخی دل والے اور سب سے زیادہ سچی زبان والے، سب سے زیادہ نرم طبیعت والے اور خاندان کے لحاظ سے سب سے زیادہ افضل تھے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اچانک دیکھتا پہلی نظر میں مرعوب ہو جاتا، جوں جوں قریب آتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مانوس ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے لگتا۔ (الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا) حلیہ بیان کرنے والا یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا پہلے دیکھا نہ بعد میں۔‘‘

3۔ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دلنشیں تذکرہ ایک اور مقام پر حضرت ام معبد رضی اﷲ عنہا سے بھی مروی ہے۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے ایک ایسے مقام پر پڑاؤ کیا جہاں ایک پختہ عمر عورت کا خیمہ تھا۔ وہ اکثر مسافروں کی میزبانی کے فرائض بھی سرانجام دیا کرتی تھی۔ جس روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر وہاں سے ہوا، اس کا شوہر ریوڑ چرانے کے لئے باہر گیا ہوا تھا، گھر میں صرف ایک لاغر بکری تھی جو ریوڑ کے ساتھ جانے سے قاصر تھی۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معجزتاً اس بکری کا دودھ دوہنا شروع کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں کے لمس سے اُس بکری کے خشک تھنوں میں اِتنا دودھ بھر آیا کہ وہاں موجود تمام لوگ سیر ہو گئے مگر دودھ تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ اُمِ معبد کا شوہر بکریاں چرانے کے بعد واپس آیا تو گھر میں دودھ سے لبالب برتن دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس موقع پر اُم معبد نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا :

رآيتُ رجلاً ظاهر الوضاء ة، متبلج الوجه، حسن الخلق، لم تعبه ثجلة و لم تزر به صعلة، وسيم قسيم، في عينيه دعجٌ، و في آشفاره وطفٌ، و في صوته صحلٌ، آحور، آکحل، آزج، آقرن، شديد سواد الشعر، في عُنقه سطعٌ، و في لحيته کثافة، إذا صمت فعليه الوقار، و إذا تکلم سما و علاه البهاء، کان منطقه خرزات نظم يتحدرن، حلو المنطق، فصل، لا نزر و لا هذر، آجهر الناس و آجمله من بعيد، و آحلاه و آحسنه من قريب، ربعة، لا تشنؤه من طول و لا تقتحمه عين من قصر، غصن بين غصنين فهو آنضر الثلاثة منظراً، و آحسنهم قدراً، له رفقاء يحفون به، إذا قال استمعوا لقوله، و إذا آمر تبادروا إلي آمره، محفود محشود، لا عابث و لا مفند.

1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 230، 231
2. حاکم، المستدرک، 3 : 10
3. طبراني، المعجم الکبير، 4 : ، 49، 7 : 105
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 279
5. حسان بن ثابت، ديوان : 57 58
6. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 310
7. شيباني، الآحاد و المثاني، 6 : 253
8. ابن حبان، الثقات، 1 : 125
9. ابن عبد البر، الاستيعاب، 4 : 1959
10. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 139
11. صالحي، سبل الهدي و الرشاد، 3 : 348

’’میں نے ایک ایسا شخص دیکھا جس کا حسن نمایاں اور چہرہ نہایت ہشاش بشاش (اور خوبصورت) تھا اور اَخلاق اچھے تھے۔ نہ رنگ کی زیادہ سفیدی اُنہیں معیوب بنا رہی تھی اور نہ گردن اور سر کا پتلا ہونا اُن میں نقص پیدا کر رہا تھا۔ بہت خوبرو اور حسین تھے۔ آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی تھیں اور پلکیں لمبی تھیں۔ اُن کی آواز گونج دار تھی۔ سیاہ چشم و سرمگین، دونوں ابرو باریک اور ملے ہوئے تھے۔ بالوں کی سیاہی خوب تیز تھی۔ گردن چمکدار اور ریش مبارک گھنی تھی۔ جب وہ خاموش ہوتے تو پروقار ہوتے اور جب گفتگو فرماتے تو چہرہ اقدس پُر نور اور بارونق ہوتا۔ گفتگو گویا موتیوں کی لڑی، جس سے موتی جھڑ رہے ہوتے۔ گفتگو واضح ہوتی، نہ بے فائدہ ہوتی نہ بیہودہ۔ دُور سے دیکھنے پر سب سے زیادہ بارعب اور جمیل نظر آتے۔ اور قریب سے دیکھیں تو سب سے زیادہ خوبرو، (شیریں گفتار اور) حسین دکھائی دیتے۔ قد درمیانہ تھا، نہ اِتنا طویل کہ آنکھوں کو برا لگے اور نہ اتنا پست کہ آنکھیں معیوب جانیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ تھے جو خوب سرسبز و شاداب اور قد آور ہو۔ ان کے ساتھی ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ فرماتے تو وہ ہمہ تن گوش ہو کر غور سے سنتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکم دیتے تو وہ فوراً اسے بجا لاتے۔ سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ترش رو تھے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کی جاتی۔‘‘

حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمہ وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہی نہیں بلکہ ہر وہ فرد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلی بار ملاقات کا شرف حاصل کرتا۔ اُمِ معبد بے ساختہ اپنی زبان میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت گوئی کر چکی تو اس کے شوہر نے مسحورکن انداز میں انتہائی عقیدت اور وارفتگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ یقیناً یہی وہ شخص ہے قریش جس کی زندگی کے درپے ہیں۔ اگر میں انہیں پا لیتا تو ضرور ان کی ہمرکابی کا شرف حاصل کرتا، اگر ممکن ہوا تو میں اب بھی انہیں ضرور پاؤں گا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلی نظر دیکھنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے اقدس کی وجاہت اور بے پناہ حسن و جمال سے مبہوت ہو کر رہ جاتا لیکن جوں جوں وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرکشش اور جاذبِ نظر شخصیت سے مسحور ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہو جاتا۔ جسے ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب کی نعمت میسر آتی وہ ہمیشہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گرویدہ ہو جاتا اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدائی اِنتہائی شاق گزرتی۔

ان روایات سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ پاک اور سراپائے مبارک کو خالقِ کائنات نے ہر قسم کے عیب اور نقص و سقم سے یکسر مبرّا و منزّہ تخلیق کیا تھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری حیاتِ طیبہ کے دوران کسی حاسد کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انگشت نمائی کا حوصلہ نہ ہوا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے حسن و جمال کو بیان کرنے کے لئے اہلِ قلب و نظر نے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیئے۔ شاعروں نے خامہ فرسائی کی حد کر دی لیکن کوئی بھی اس مہبطِ حسن اِلٰہی کی رعنائیوں کا اِحاطہ نہ کر سکا اور بالآخر سب کو اپنے عجز اور کم مائیگی کا اِعتراف کرنا پڑا۔ کسی نے یوں کہا :

مصحفے را ورق ورق دیدم
ہیچ سورت نہ مثل صورت اوست

اور کسی کو یوں کہنا پڑا :

حسنِ یوسف، دم عیسٰی، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

غالب جیسے قادرالکلام شاعر نے اپنی عجز بیانی کا اظہار یوں کیا :

غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد (ص) است

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپائے اَقدس تناسبِ آعضاء کا بہترین شاہکار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسی و ظاہری پہلو حد درجہ دلکش اور جاذبِ نظر تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مجلس میں مرکزِ نگاہ ہوتے تھے اور دیکھنے والی ہر آنکھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے انور کے حسن و جمال کی رعنائیوں میں کھوئی رہتی اور بیان کرنے والا جہاں بھی ہوتا اُسی حسن کے چرچے کرتا۔ آئندہ صفحات میں ہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے مبارک عمل کی اِتباع میں تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسین اور متناسب اعضائے مبارکہ کا ذکر کریں گے۔

2۔ چہرۂ اقدس . . . ماہِ تاباں حضور نبی اکرم اکی ذاتِ اقدس قُدرتِ خُداوندی کا شاہکارِ عظیم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق ربِ کائنات کی جملہ تخلیقی رعنائیوں کا مرقعِ زیبائی ہے۔ مخلوقات کے تمام محامد و محاسن کا نقطۂ کمال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے مقدس جمالِ خُداوندی کا آئینہ دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرکزِ نگاہِ خاص و عام ہیں۔ ’’اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا (آپ ہر وقت ہماری نگاہوں میں رہتے ہیں‘‘) کا خطابِ خداوندی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزازِ لازوال ہے۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کا ذکر بڑی محبت اور اپنائیت کے انداز میں فرمایا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں تقریباً سترہ ماہ مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ اس پر یہود طعنہ زن ہوئے کہ مسلمان اور ان کا نبی یوں تو ہمارے دین کے مخالف ہیں مگر نماز کے وقت ہمارے ہی قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعتِ مبارکہ پر گراں گزری اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر میں تبدیلی قبلہ کی خواہش پیدا ہوئی جو کہ اتنی شدت اختیار کر گئی کہ اس کو پورا ہوتا دیکھنے کے لئے دورانِ نماز چہرۂ اقدس اٹھا کر بار بار آسمان کی طرف دیکھتے۔ اللہ رب العزت کو اپنے محبوب بندے کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ عین نماز کی حالت میں تبدیلیء قبلہ کا حکم وارد ہوا، جس میں باری تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کا خصوصی ذکر فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.

’’اے حبیب! ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجد حرام کی طرف پھیر لیجیئے۔‘‘
القرآن، البقره، 2 : 144

ایک اور مقام پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے زیبا کا تذکرہ استعاراتی اور علامتی زبان میں انتہائی دلنشین انداز سے کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا :

وَ الضُّحٰیO وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰیO مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰیO سورت ضحٰی، 93 : 1 - 3

قسم ہے چاشت (کی طرح چمکتے ہوئے چہرۂ دلربا) کیO اور سیاہ رات (کی طرح شانوں کو چھوتی ہوئی زلفوں) کیO آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا اور نہ (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہی ہوا ہےO
اس سورت کا نزول جس مقصد کے لئے ہوا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ ضُحٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور اور لیل میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفوں کی طرف اشارہ ہے۔
:: شرح شفا، 1 : 82،ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ
کیا کسی مفسر نے ضحٰی کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انوراور لیل کی تفسیر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زُلفوں کے ساتھ کی ہے؟ ہاں، یہ تفسیر کی گئی ہے اور اس میں کوئی بُعد نہیں اور بعض (مفسرین) نے اس میں اضافہ فرمایا ہے کہ وَالضُّحیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت کے مرد حضرات اور وَاللَّیْلِ سے اہلِ بیت کی خواتین مراد ہیں۔
:: تفسيرکبير، 31 : 209،امام فخرالدین رازی رحمۃ اﷲ علیہ

ضحی سے مُراد آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور اور لَیْل سے مُراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زلفیں ہیں۔
:: شرح مواهب لدنيه، 8 : 444،امام زرقانی رحمۃ اﷲ علیہ
علاوہ ازیں تفسیر روح المعانی (30 : 178)‘، ’تفسیر عزیزی (پارہ عم، ص : 310)‘ تفسیر نیشا پوری (3 : 107)‘اور ’تفسیر روح البیان (10 : 453)‘ میں بھی ضحٰی سے چہرۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور لیل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیسوئے عنبریں مراد لئے گئے ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم چہرۂ انور کو کھلے ہوئے اوراقِ قرآن سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایامِ وصال میں یارِ باوفا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے، اچانک آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اُٹھایا اور اپنے غلاموں کی طرف دیکھا تو ہمیں یوں محسوس ہوا۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہے۔
:: بخاری شریف، 1 : 240، کتاب الاذان، رقم : 648
مسلم شریف، 1 : 315، کتاب الصلوة، رقم : 419
ابن ماجه شریف ،1 : 519، کتاب الجنائز، رقم : 1624
سنن الکبریٰ، نسائی 4 : 261، رقم : 7107

چہرۂ انور کے حسن و جمال، ظاہری نظافت و پاکیزگی اور چمک دمک کا (قرآنِ مجید کے ورق سے) تشبیہ دینا اس وجہ سے ہے کہ یہی وہ روئے مقدس ہے جو جمالِ خُداوندی کے مشاہدہ سے فیض یاب ہوا۔
:: حاشيه برجمع الوسائل، 2 : 255،محدثِ کبیر امام عبدالرؤف المناوی رحمۃ اللہ علیہ

جس طرح ورقِ مصحف کلامِ الٰہی ہونے کی وجہ سے حسی اور معنوی نور پر مشتمل ہو کر دیگر تمام کلاموں پر فوقیت رکھتا ہے، اسی طرح) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بھی اپنے) حسن و جمال، چہرہ انور کی نظافت و پاکیزگی اور تابانی میں یکتا و تنہا ہیں۔
:: شرح صحيح مسلم، 1 : 179،امام نووی رحمۃ اللہ علیہ

آقا کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس سراپا مظہریتِ حق کی شان کا حامل تھا اس لیے اس چہرۂ انور کے دیدار کو عین دیدارِ حق قراردیا گیا، اس سلسلہ میںخودنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے۔
جس نے مجھے دیکھا، اُس نے حق کو دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔
:: بخاری شریف،کتاب التعبير، 6 : 2568، رقم : 6596

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔بیشک شیطان میری صورت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا۔
:: مسندامام احمد بن حنبل، 1 : 361، 362
مجمع الزوائد، 8 : 272
شمائل المحمديه، 1 : 322، رقم : 393،امام ترمذی

آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روئے منور ربِ ذُوالجلال کے جمال کا آئینہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا اس قدر مظہر ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔
:: مدارج النبوه، 1 : 5،شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ بھی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں، حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ جس نے مجھے دیکھا اُس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا، اس لئے کہ ابلیس لعین میری صورت اختیار نہیں کر سکتا اور دوسرے یہ کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے اللہ رب العزت کو دیکھا۔
:: شمائم امداديه، 49 : 50

حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔’’حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چہرۂ انور اور اپنے اخلاقِ حسنہ کے لحاظ سے لوگوں میں سب سے زیادہ حسین و جمیل ہیں۔
:: بخاری شریف، 3 : 1330، کتاب المناقب، رقم : 3356
مسلم شریف، 4 : 1819، کتاب الفضائل، رقم : 2337

جب کاروانِ ہجرت اُمِ معبد کے پڑاؤ پر رُکا تو اُمِ معبد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئی اور تصویرِ حیرت بن گئی۔ وہ بے ساختہ پُکار اُٹھی۔ میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جن کی صفائی و پاکیزگی بہت صاف اور کھلی ہوئی ہے، چہرہ نہایت ہشاش بشاش ہے۔
:: مستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
دلائل النبوه، 1 : 279
طبقات الکبریٰ، 1 : 230، ابن سعد

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔میں نےآقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر حسین و جمیل کسی اور کو نہیں پایا گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور میں آفتابِ روشن محوِ خرام ہے۔
:: مسندامام احمد بن حنبل، 2 : 350، رقم : 8588۔( 2).2 : 380، رقم : 8930
طبقات کبریٰ، 1 : 415، ابن سعد
فتح الباری، 6 : 573
دلائل النبوه، 1 : 209
سيرة النبويه، 3 : 151،ابن عساکر

جب ربیع بنت معوذ سے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل پوچھے تو اُنہوں نے جواب میں فرمایا۔اے میرے بیٹے! اگر تو ان کی زیارت کرتا تو (گویا حسن و جمال میں) طلوع ہوتے سورج کی زیارت کرتا۔
:: دارمی، : 44، رقم : 61
شعب الايمان، 2 : 151، رقم : 1420
دلائل النبوه، 1 : 200
معجم کبير، 24 : 274، رقم : 696
مجمع الزوائد : 8 : 280

مولائے کائنات مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں۔آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ اقدس گول تھا (جیسے چودھویں کا چاند ہوتا ہے)۔
:: دلائل النبوه، 1 : 213

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسرور ہوتے تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روئے منور سے نُور کی شعاعیں پھوٹتی دکھائی دیتی تھیں، یوں لگتا جیسے چہرۂ اقدس چاند کا ٹکڑا ہو اور اس سے ہم جان لیتے (کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کے عالم میں ہیں)
:: بخاری شریف، 3 : 1305، کتاب المناقب، رقم : 3363
مسلم شریف، 4 : 2127، کتاب التوبه، رقم : 2769
نسائی، 6 : 360، رقم : 11232
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381172 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.